بد کردار ۔۔۔ کنیز باھو
بدکردار
کنیز باھو
صبح صادق کا وقت تھا شہر کا مزدور طبقہ سیاہ رات کی چادر میں اپنی تھکن سمیٹ کرسورج کی روپہلی کرنوں کے ساتھ محنت کی بھٹی سے ذندگی تلاش کرنے نکل چکا تھا۔ نہر کے کنارے لگی سوت کی فیکٹری سے دھوٸیں نکل کر فضا میں شامل ہورہے تھے ۔ فیکٹری کے اندر ہرکسی کو اپنی اپنی تپیسا کی طرف متعین کردیاگیا۔ کچھ لوگ جلدی آکر مشینیں صاف کرکے انجن سیٹ کرنے اور تیل دینے پر معمور تھے ۔ مشینوں پر بیٹھنے والا طبقہ صبح نوبجے اور مزدوروں کی سپرواٸزری اور حساب کتاب رکھنے پر معمور مینیجر دن چڑھے حاضر ہوتا۔
ثمینہ نے گھر سمیٹنے کے بعد ماں کو ناشتہ دیا اوراپنی روٹی تندوری میں لپیٹ کر چاۓ کے دوگھونٹ بھرے۔
”اماں دروازہ بند کرلینا“سر پر چادر اوڑھتے ہوۓ روٹی کی تھیلی اٹھاٸی اور تیز تیز قدموں سے گلی کی طرف بڑھ گٸی۔ گلی کی نکڑ پر پہنچ کر اس نے پیچھے مڑکردیکھا کوٸی نہیں تھا۔ دوتین دن سے اس کی چھٹی حس کسی انہونی کی اطلاع دے رہی تھی۔ فیکٹری اور گھر کے درمیان چند قدموں کا فاصلہ طے کرتے ہوۓ اس کے قدم من بھر وزنی ہوجاتے ۔ چہرے کو چادر میں چھپاۓ بار بار اس کی آنکھیں کسی نظر نہ آنے والے گہرے ساۓ کا تعاقب کرتیں۔ سایے سے تو وہ بچپن سے ہی ڈرتی تھی جب ایک دفعہ اماں نے زیتون خالہ کی طرف اشارہ کرکے بتایا تھا کہ اس عورت کے سایے سے بھی دوررہنا۔
اس نے اماں سے پوچھا” کیوں ماٸی اس نے کیا کیاہے ایسے کیوں کہہ رہی ہے مجھے۔”
” ماٸی نے آنکھیں پھیرتے ہوۓ ” یہ بدکردار عورت ہے گھر سے بھاگ گٸی تھی ۔
بدکردار ۔۔۔۔اس نےزیر لب دہرایا جیسے اس لفظ کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کررہی ہو ۔ اس کے کچے ذہن کی سلیٹ پر لکھا گیا یہ لفظ اتنا وزنی تھا جس کے سایے سے وہ ساری ذندگی بچتی رہی “اماں خالہ زیتون بھاگ کر کدھر گٸی تھی ۔؟”اس نے اماں سے پوچھا
وہ نکڑوالے طارق کےگھر، بھلا ہو اس کا شریف بندہ تھا گھر میں بہن ،بیٹیاں تھیں کسی کے گھر کی عزت پر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتا تھا۔ اس بھگوڑی کے سر پر ہاتھ پھیر کر اپنی عزت کے واسطے دیتا ہوا شام کو ہی اسے گھر چھوڑگیا
“بس”۔ ثمینہ نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا
اور بولی:
“اماں خالہ زیتون کے گھر سے طارق کے گھر تک صرف چندقدم بنتے ہیں وہ انہی قدموں پر چل کر واپس آٸی تھی ۔”
یہ کہتے ہوۓ اس کے اندر دکھ کی شدید لہر دوڑگٸی آنکھوں کے کنارے کچی عمر میں بدکرداری کا فلسفہ سمجھ کر بھیگ گٸے تھے۔
کردار کی بھاری سل سے سرکتے ہوۓ صرف چند قدم ہی عورت کو ساری ذندگی کے لیے بدکرداری کی فصیلوں میں تاعمر قید کی سزاسنادیتے ہیں ۔ بدکرداری ایسامنحوس سایہ ہے جس سے بچنے کاشعور ہرآنے والی نسل کے کچے ذہنوں میں فرض سمجھ کر انڈیلا جاتا ہے ملزم عورت چاہے تاٸب ہوچکی ہو لیکن چند قدموں کا بہکاوا اس پر بدکرداری کی ایسی مہر لگاتاہے جو مجرم کی صورت کو تاعمر بچے بڑے جوان ہر کسی کے سامنے مسخ کرکے رکھ دیتی ہے۔وہ اکثر سوچ کر خوفزدہ ہوجاتی تھی اور اپنے آپ کو اس خوفناک سایے سےبچاکر رکھنے کے لیے مزید محتاط ہوجاتی ۔
فیکٹری پہنچ کر اس نے سکھ کاسانس لیااور سپرواٸزر کے پاس حاضری لگا کر اپنے کام میں مگن ہوگٸی ۔
اماں ! آج اتنی چپ چپ سی کیوں ہے۔کیا ہوا
روٹی کا نوالہ شوربے میں ڈبو کر کھاتے ہوۓ اس نے ماں سے پوچھا ۔
ماں متفکر سی لکڑیوں کے چولہے پر رکھی مٹی کی ہانڈی میں ڈوٸی سے مسلسل سالن ہلارہی تھی ۔ ”آج جمیل کے ماں پیو آۓ تھے تیری رخصتی کی تاریخ لینے “ دیگچی کو ڈھکن سے ڈھانپتے ہوۓ کہا
ثمینہ کا منہ کی طرف جاتا ہاتھ رک گیا۔
”پھر تونے کیا کہا انہیں “
وہ چونکتے ہوۓ ماں سے پوچھنے لگی۔
“یہی کہ تو ابھی پڑھ رہی ہے۔ امتحانات کے بعد ہم انہیں کوٸی تاریخ دے دیں گے ۔ لیکن دھی رانی گل کوٸی ہور ہے مجھے صبح سے طرح طرح کے اندیشے ستارہے ہیں اللہ ساٸیں خیر کرے بس۔”
ماں نے کپ میں چاۓ انڈیلتے ہوۓ کہا۔
“میری قسمت ہی خراب تھی پہلے تیراباپ جوانی میں ہی مجھے بیوگی کی بھٹی میں جھونک کر خود دنیا سے چل بسا پھر تیرے دونوں ویر بری سنگت میں بیٹھ کر نشٸی بن گٸے اور کسی کم جوگے نا رہے ۔ کچھ کماکر میرے ہاتھ پر رکھتے روٹی چولہا ناسہی تیرے جہیز کی فکر ہی بانٹ لیتے تو کب سے تجھے ڈولی میں بٹھاکر اپنے گھر کا کرتی ۔ بیٹیوں کی کماٸی کھاکر کون ماپے خوش ہوتے ہیں۔”
ماں جب بھی اس کی کماٸی کے پیچھے بندھی مجبوریوں کا ذکرکرتی تو اس کے چہرے پر یاسیت اور بے بسی کے کٸی رنگ آکر گزرجاتے
وہ اکثر ماں کی آنکھوں میں جھانک کر اس میں خوف کے لہراتے سایے دیکھتی جن کی سیاہی کی چھاپ اسے اپنے نصیب پر پڑتی محسوس ہونے لگتی ۔ چاۓ کا خالی کپ ماں کی طرف بڑھاتے ہوۓ بولی ۔” اماں میں نے فیکٹری کے مالک سے بات کی ہے ۔ ان شاء اللہ اگلے ماہ میری تنخواہ بھی بڑھ جاۓ گی اور میں شام کے دوگھنٹے وہاں مال کی پیکنگ کرکے اوپرسے کچھ بونس بھی اکٹھا کرلو گی ۔تو فکر نہ کر۔ “
“نہیں دھی رانی شام ویلے کم کرن دی کوٸی ضرورت نہیں اگے سردیاں شروع ہونے والیاں نیں۔ سردیاں وچ شام جلدی ہوجاتی ہے۔ میں تیرے مامے سے کچھ ادھار لے لونگی کچھ اللہ ساٸیں سبب بنادے گا انتظام ہوجاۓ گا تو خیرنال اگلی گرمیوں تک تیرے ویاہ کی تاریخ دے دینگے ۔اللہ میرے دھی کو ہربرے سایے سے بچاکررکھے۔” اماں محبت پاس نظروں سے ثمینہ کا ماتھا چومتے ہوۓ بولی
“اماں! تو ان کو بتاکیوں نہیں دیتی میں فیکٹری جاتی ہو۔ پڑھاٸی کا جھوٹ کیوں بولا۔ “ ثمینہ نے پریشانی کی کیفیت میں پوچھا۔
“دھی رانی : دنیا کمانے والی لڑکیوں کو چنگی نظروں سے نہیں دیکھتی۔ بات پردے میں ہی رہنے دے ۔ پڑھی ہوٸی ہوگی تو تیری وہاں سسرال میں قدر ہوگی ۔ڈھیرجہیز لے کرجاۓ گی تو رعب سے رہے گی۔ تیری عزت کے لیے ہی کہا۔”
“عزت “۔۔۔۔عزت کے لیے۔۔۔۔ ثمینہ کی سوٸی ایک لفظ پر ہی اٹک گٸی ۔
عورت کو کردار کی سل سر پر رکھواکر ذندگی کس کس محاذ سے گزارتی ہے وہ سوچتی رہ گٸی۔
*******.*********.**********.****
آج فیکٹری جلدی بند ہوگٸی تھی ثمینہ اپنی دوست شمیم کے ساتھ سڑک پار کرتے ہوۓ پھول والی گلی میں داخل ہوٸی۔ وہ دونوں اپنی باتوں میں مگن تھیں قدموں کی رفتار سست تھی پھر بھی وہ ثمینہ کے گھر سے بس تھوڑا سادور تھیں ۔گلی کی نکڑ مڑتے ہی اچانک ثمینہ کا بازو کسی نے پوری قوت سے جکڑ لیا۔
چھوڑ۔۔۔۔میرا ہاتھ چھوڑ “ ثمینہ پورا زور لگانے کے بعد کلاٸیاں کھینچتے ہوۓ بولی لیکن مقابل کی گرفت اور اس کی آنکھوں سے نکلتے غضب و قہر کے شعلوں نے اسے لرزا کررکھ دیا۔
“جمیل تم ۔۔۔۔مممم ۔۔۔میرا ہاتھ چھوڑ گھر چل کر بات کرتے ہیں۔ “ وہ کانپتے ہوۓ بولی
“تو میری ہونےوالی منکوحہ ہے ۔۔۔اپنی ماں کے کانوں میں جتنی جلدی ہوسکے یہ بات ڈال دے تو تیرے اور اس کے لیے یہی بہتر ہے ۔”
”اور یہ ہرروز بازار کے چکر کیوں لگاۓ جارہے ہیں۔کیا لینے جاتی ہے ۔??“ جمیل دھاڑتے ہوۓ بولا۔ثمینہ اس سے نظریں نہیں ملاپارہی تھیں اسے جمیل کی صورت میں خوفناک سایہ اپنے نصیب کی چادر میں پنجے گاڑتا ہوا محسوس ہوا ۔خاموشی سے ہاتھ چھڑانے کی تگ ودو کرنے کے بعد اس نے مدد طلب نظروں سے شمیم کو دیکھا۔
” بھاٸی ہم دونوں چودھریوں کی سوت کی فیکٹری سے لوٹ رہی ہیں ثمینہ وہاں میرے ساتھ کام کرتی ہے۔ اس کا ہاتھ چھوڑدیں ۔ہمیں جانے دیں ماٸی انتظار کررہی ہوگی شام پڑنے والی ہے۔“شمیم نے وضاحتی انداز میں التجا کی۔
“بدکردار عورت فیکٹری کس یار سے ملنے جاتی ہے ۔“ جمیل نے زوردار تھپڑ مارتے ہوۓ کہا۔”اس لیے تیری ماں نے ہمیں کہاتھا تو پڑھاٸی کررہی ہے ۔ اسے بیٹیوں کی کماٸی ہڑپنے کا چسکا جولگ چکا تھا۔ ہم شریف لوگ ہیں ۔۔۔۔۔ میں تم جیسی فیکٹریوں میں کام کرنے والی عورت کے ساتھ کوٸی رشتہ نہیں جوڑنا چاہتا اپنی ماں کو بتادینا۔“زمین پر تھوکتے وہ وہاں سے چلاگیا ۔
ثمینہ بت بنی اسے خالی آنکھوں سے دورتک جاتا دیکھتی رہی ۔خوف کا سایہ نصیب کی چادر سر سے کھینچ کرکردار لیرولیر کرچکا تھا۔