نئی نکور باتیں ۔۔۔ کوثر جمال
نئی نکور باتیں
ڈاکٹر کوثر جمال ۔
نئی باتوں کی کھوج میں وہ آج بھی چپ رہا۔ اتنا چپ کہ اس کے چہرے کے عضلات خشک لکڑی کی طرح سخت اور بے جان ہو گئے۔ اس کی آنکھوں کی پتلیاں کسی نادیدہ نکتے کو دیکھتے دیکھتے پتھرا سی گئیں، دانت ایک دوسرے سے جُڑ گئے اور جبڑے حرکت کرنا بھول گئے۔
لیکن وہ ایسا تو نہیں تھا!
وہ اپنے حلقۂ احباب میں ایک ہنس مکھ اور زندہ دل انسان کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اس کے کھلے قہقہوں اور پرلطف باتوں کو پسند کیا جاتا۔ وہ ہنستا، ہنساتا اور اپنی گفتگو پر دھیان دیے بغیر بے تکان بولے چلا جاتا۔ اسے کبھی کسی موضوعِِ گفتگو کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ باتیں اور خیالات اس کے ذہن کی دنیا میں بے خوف پنچھیوں کی طرح آزاد اڑانیں بھرا کرتے۔ وہ ایک نڈر اور کامیاب حیوانِ نطق تھا! لیکن پھر ایک ایسا وقت آیا جو انہونی جتنا اچانک اور تکلیف دہ تھا۔ اسے سب باتیں دہرائی ہوئی، پرانی، بے معنی اور بےکار لگنے لگیں اور وہ بےزاری کی گہری کھائی میں جا گرا۔
اب اسے کوئی بات اہم یا قابلِ ذکر نہیں لگتی۔ اچھوتی اور بامعنی باتوں کی تلاش میں سرگرداں وہ عام باتوں کی شاہراہ پر اٹھکیلیاں کرتی زندگی کو حسرت سے دیکھتا رہتا ہے۔
جب سٹاف روم میں اساتذہ معمول کی خوش گپیوں میں مصروف ہوتے ہیں تو وہ بھی کبھی کبھی ان کی باتوں میں شریک ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر کوئی بات کر چکنے کے بعد اسے یہ محسوس کرکے تکلیف ہونے لگتی ہے کہ اس نے دوسروں کے چبائے ہوئے نوالوں کو ۔۔۔۔۔ اس احساس کے ساتھ ہی اسے متلی ہونے لگتی ہے اور وہ چپ کا روزہ رکھ لیتا ہے۔
اسے اپنی خاموشی سب سے زیادہ اس وقت بری لگتی ہے جب وہ اپنے کالج کی بس میں سفر کرتا ہے۔ اس کا گھر کرائے پر لیا ہوا ایک مختصر سا کمرہ ہے جہاں وہ اپنی کتابوں اور تنہائی کے ساتھ دوسروں کی نگاہوں سے اوجھل زندگی گزار رہا ہے۔ لیکن کالج بس میں یہ آسانی نہیں ہے۔ بس میں سفر کرنے والے اس کے کولیگ، کالج کے طلبأ اور انتظامیہ کے ملازمین نہ جانے صبح صبح اتنی بے پناہ باتیں کہاں سے لے آتے ہیں۔ موسم کی باتیں، گھر اور بچوں کا ذکر، بڑھتی ہوئی مہنگائی کا رونا، ٹی وی ڈراموں پر تبصرے، اخبار کی تازہ خبریں اور چھوٹے بڑے نئے پرانے سکینڈل۔ مگر اسے شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب باتیں تو پہلے بھی کی جا چکی ہیں۔ آخر ان باتوں کو دہرانے کا کیا فائدہ؟
ایک دن وہ اسی طرح کے آوارہ خیالوں میں گم اپنے کالج کی بس میں سوار تھا۔ اس کے پہلو کی نشست خالی تھی۔ پھر کسی اگلے سٹاپ پراس خالی نشست پر ایک طالبِ علم آ کر بیٹھ گیا۔ اس نے چاہا کہ ایک پراخلاق تبسم کے ساتھ اپنے شریکِ سفر کو دیکھے لیکن اس کی گردن کا تناؤ اور چہرے کا انجماد قائم رہا۔ کچھ دیر بعد اس کے کانوں تک برابر میں بیٹھے لڑکے کی آواز آئی:
’’معاف کیجیے گا سر، اس وقت کیا ٹائم کیا ہوا ہے؟‘‘
اس نے اپنی کلائی گھما کر وقت دیکھا اور پھر لڑکے کو تقریبا” دیکھے بغیر وقت بتایا۔ پھر اس نے سوچا، یہ تو کوئی پوچھنے کی بات نہیں تھی۔ کالج کی بس روزانہ سات بجکر پینتیس منٹ پر اس لڑکے کے سٹاپ پر پہنچتی ہے۔ یقینی بات ہے کہ لڑکا بس کے اوقات کو جانتا ہے۔ وہ وقت کے صحیح حساب سے اپنے سٹاپ پر پہنچا ہو گا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کی بس چھوٹ جاتی۔ اور اب جبکہ وہ بس میں بیٹھ چکا ہے تو اس کے سٹاپ سے بس کو روانہ ہوئے دو تین منٹ سے زیادہ نہیں گزرے۔ اس حساب سے اسے معلوم ہونا چاہیے تھا کہ اب سات بجکر سینتیس یا سات بجکر اڑتیس منٹ ہوئے ہیں۔ تو کیا یہ جاننے کے لیے کہ سات بج کر سنتیس منٹ ہوئے ہیں یا سات بجکر اڑتیس منٹ، اس لڑکے نے یہ سوال پوچھا؟ پھر اس کی بے ارادہ نگاہ سامنے بس میں لگے کلاک پر گئی جس کی سوئیاں بڑی وضاحت سے اندر بیٹھے مسافروں کو وقت بتا رہی تھیں۔ اب اسے یقین ہو گیا کہ لڑکے نے ایک فضول سوال پوچھا تھا۔ احمق لوگ بے وجہ بات کرتے ہیں!
تھوڑی دیر کے بعد اس لڑکے نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ واقعی احمق ہے، اس سے ایک اور سوال پوچھا:
’’آپ کو پتہ ہو گا سر، داخلہ فیس جمع کرانے کی آخری تاریخ کون سی ہے؟‘‘
’’آپ شائد نوٹس بورڈ نہیں پڑھتے!‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے مسکرانے کی تکلیف دہ کوشش کی اور اس کی صاف گو نگاہوں نے اپنے مخاطب کو یہ پیغام دیا: ’’امید ہے کہ آئیندہ تم ایسے بے تکے سوال نہیں پوچھو گے!‘‘
لڑکا کچھ سمجھ کر باقی تمام راستہ خاموش رہا۔
اگلے روز جب کالج بس سات بجکر پینتیس منٹ پر اس لڑکے کے سٹاپ پر پہنچی تو پچھلے روز کی طرح آج بھی اس کے برابر کی سیٹ خالی تھی۔ اسے گمان گزرا کہ لڑکا کل کی طرح آج بھی اس کے ساتھ بیٹھ کر پھر وہی بے تکے سوال ۔۔۔۔ اس اثنأ میں وہ لڑکا اس کے پاس سے گزر کر پیچھے کسی اور سیٹ پر بیٹھ چکا تھا۔
کچھ روز بعد کالج کے ایک کلرک کو اس کے ساتھ بیٹھنے کا کٹھن تجربہ ہوا۔ دونوں کے بیچ خاموشی کے کچھ گراں لمحے جب گزر گئے تو کلرک کو گفتگو نہ کر سکنے پر بے آرامی سی ہونے لگی۔ ادھر اسے بھی اندازہ ہو گیا کہ اس کا ہم سفر کچھ کہنا چاہ رہا ہے۔ اس نے اپنی اکڑی ہوئی گردن کو تھوڑا سا خم دے کر کلرک کی طرف دیکھا تو وہ حلق میں اٹکی ہوئی بات کو بلا تکلف ہونٹوں تک لے آیا:
’’آج کل آپ کی طبعیت کچھ اچھی دکھائی نہیں دیتی ؟‘‘
وہ کلرک کی اس بات سے چونک گیا۔ اس کے حساب سے کلرک نے دخل در معقولات سے کام لے کرغیر ضروری اور غلط بات کی تھی۔
’’یہ اندازہ آپ نے کیسے لگایا؟ میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے کا لطیف تبسم دبی زبان سے کچھ یوں گویا ہوا:
’’گھامڑ آدمی، کیا یہی بات کہنے کو تم اتنے بےچین ہو رہے تھے؟‘‘
کلرک نے اپنی بات کی وضاحت کی:
’’میرا مطلب ہے آپ کچھ چپ چپ سے رہتے ہیِں۔‘‘
کلرک کی یہ بات البتہ ایک تیر کی طرح سیدھی اس کے دل میں اتر گئی۔ اس دعویٰ کے ساتھ کہ یہ تیر کسی گھامڑ نے نہیں چلایا تھا۔
’’دراصل ایسا ہے کہ میں کچھ خاموش طبع واقع ہوا ہوں۔‘‘
یوں کہنے کو اس نے کلرک کی بات کا جواب تو دے دیا لیکن اندر سے وہ فکر مند اور خفیف سا ہو گیا، ’’کیا دوسروں کو میرے اصل مسئلے کا پتہ چل گیا ہے؟‘‘
’’تم اور خاموش طبع؟ یہ مان کیوں نہیں لیتے کہ نئی باتوں کو تلاش کرتے کرتے بیزاری کی اندھی کھائی میں جا گرے ہو!‘‘ اس کے ہمزاد نے اسے چڑاتے ہوئے کہا۔
کچھ دیر بعد کلرک نے بات کرنے کی انسانی فطرت سے مجبور ہو کر ایکبار پھر لب کشائی کی: ’’آج بے حد ٹھنڈ ہے، بس یوں سمجھیں کہ سردی آ ہی گئی۔‘‘
کلرک کی اس بات کا جواب اس نے سر ہلا کر سردی سے اکڑے ہوئے تبسم کے ساتھ دیا، اور اس کی آنکھوں نے کہا:
’’سبھی جانتے ہیں کہ آج ٹھنڈ ہے اور میں بھی یہ سمجھتا ہوں کہ سردی آیا ہی چاہتی ہے تو جناب یہ کوئی خبر تو نہ ہوئی!‘‘
اور اس کی خاموشی نے کلرک کو تنبیہ کہ: ’’اب بہتر ہو گا کہ اپنا منہ بند رکھو!‘‘
بے چارہ کلرک اس سے سلسلۂ کلام نہ بن سکنے کے بعد باقی ماندہ وقت بس کی دوسری سواریوں کو رشک بھری نظروں سے دیکھتا رہا جو مزے لے لے کر روزمرہ باتوں کی مونگ پھلیاں اور چلغوزے کھانے میں مصروف تھیں۔
بعد ازاں شائد کالج بس میں روزانہ سفر کرنے والے سبھی لوگوں نے اسے ایک خشک اور مردم بیزار آدمی کے طور پر قبول کر لیا۔ اس کے ساتھ کی نشست اب تقریبا” خالی رہتی ہے۔ اور اگر کوئی کسی مجبوری یا اتفاق سے وہاں بیٹھ بھی جائے تو اس کے ساتھ بات کرنے کی غلطی نہیں کرتا۔ ادھر وہ خود بھی اپنی اس حالت سے بہت تنگ ہے، وہ باتیں کرنا چاہتا ہے، لیکن ۔۔۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ آخر کیا باتیں کرے۔
ایک روز وہ معمول کی طرح اپنے پراگندہ خیالوں سے برسرِ پیکار تھا کہ بس میں معمول سے ہٹ کر ایک بات ہوئی۔ یہ ایک نئی بات تھی!
ایک عورت جو جوان تھی اور چہرے مہرے اور پہناوے سے شہر کے مضافات سے آئی ہوئی عورت دکھتی تھی، بس میں سوار ہو گئی۔ اس نے اونی شال میں لپٹے ہوئی ایک ننھے بچے کو اٹھا رکھا تھا۔ بس میں سوار ہوتے وقت غالبا” بس کنڈکٹر کی نظر اس پر نہیں گئی تھی اور اب وہ اسے بس سے اترنے کو کہہ رہا تھا:
’’بہن جی یہ پبلک بس نہیں ہے۔ یہ کالج کی بس ہے۔ اس میں دوسری سواریاں نہیں بیٹھ سکتیں۔‘‘
’’ تو نے پبلک بس کی خلقت نہیں دیکھی؟ مجھے کوئی بیٹھنے دیتا ہے۔ مرد مشٹنڈے دھکے دے کر عورتوں کو تو پیچھے کر دیتے ہیں۔ میرا بچہ بیمار ہے۔ آگے ہسپتال کے سامنے اتار دینا۔ اللہ تیرا بھلا کرے گا۔‘‘
وہ پریشان مگر بے جھجک عورت یہ کہتے کہتے ایک فطری بے تکلفی کے ساتھ بس مسافروں کے جانے مانے بیزار آدمی کے ساتھ کی خالی نشست پر جا بیٹھی۔
بس کا ڈرائیور کچھ دیر تک گردن موڑے یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھتا رہا، پھر اس نے کوئی فیصلہ کرکے بریک پر سے پاؤں ہٹایا اور بس چلا دی۔
کالج کی اس بس میں کسی لڑکی یا عورت نے آج تک سفر نہیں کیا تھا۔ بس مردوں سے بھری ہوئی تھی لیکن یہ دھکے دینے والے مشٹنڈے نہیں تھے۔ ہاں مگر یہ لا تعلق انسان بھی نہیں تھے۔ اور بالخصوص ایسی صورت میں کہ عورت نے بیزار آدی کے پہلو میں بیٹھ کر انجانے میں ایک غیر متوقع اور پرلطف منظر تخلیق کیا تھا۔ چنانچہ پوری بس دبی دبی ہنسی سے بھر گئی۔ عورت اپنی سیٹ پر بے تکلفی سے پھیل کر بیٹھ چکی تھی کیونکہ اس نے اپنی گود میں بچے کو لٹا لیا تھا۔ بیزار آدمی سنبھل کر اور بھی سمٹ گیا اور کھڑکی کے شیشے سے باہر پناہ دھونڈنے لگا۔
وہ بظاہر باہر دیکھ رہا تھا لیکن اسے باہر کچھ دکھائی نہیں دے پا رہا تھا۔ اس کا دھیان بس کے اندر اس کے ساتھ بیٹھی زندگی نے باندھ لیا تھا۔ عورت کے جسم سے ایک عجیب سی مہک اٹھ رہی تھی جو غالبا” کسی عورت کے جسم سے اس وقت اٹھتی ہے جب اسے عورت سمجھ کر سونگھا جائے۔ اپنی حسِ شامہ کی اس تیزی نے اس کی بیزاری کو بے آرامی میں تبدیل کر دیا۔ اس نے کوشش کرکے باہر دیکھا۔ باہر غضب کی سردی تھی۔ لوگ بات کرتے تو ان کے مونہوں سے بھاپ نکلتی تھی۔ اندر ایسی سردی نہیں تھی، اور اس کے برابر کی سیٹ پر تو کوئی ہیٹر رکھا ہوا تھا جس کا رخ اس کی طرف تھا۔ اُس کی نگاہ نے ترچھے زاویے سے ایک چھوٹی سی پر خطر اڑان بھری اور خبر لائی کہ عورت ہر چیز سے بےنیاز بس کی ونڈ سکرین کے سامنے کی سڑک پر ہسپتال والے سٹاپ کا انتظار کر رہی تھی۔
بیزار آدمی نے اپنے جسم کو حرکت دیے بغیر اپنی نطروں کو بس سے باہر بھیج دیا۔ کئی پر شور دھک دھک کرتی ساعتیں گزر گئیں۔ اچانک اسے اپنی داہنی ران پر کسی چھوٹی سی نرم چیز گرنے کا دھماکہ خیز احساس ہوا۔ ایک فطری ردِعمل کے تحت اس نے اپنی داہنی طرف بیٹھی عورت کو دیکھا جو پہلے کی طرح خاموش بیٹھی ونڈ سکرین سے باہر کی سڑک پر بھاگ رہی تھی۔ اس کی گود میں لیٹا بچہ جو اب جاگ چکا تھا اسی نے ایک بھرپور انگڑائی کے اختتام پر اپنی ایڑی بیزار آدی کی ران پر ماری تھی۔ یہ کوئی سات آٹھ ماہ کا صحت مند بچہ تھا۔ اس کے گال بخار کی حدت سے تمتما رہے تھے اور اس کی کھلی آنکھوں کے کنارے نم تھے۔ پیشانی پر شال سے آزاد ہونے کی کوشش میں بال بکھرے ہوئے تھے۔ اور بچہ ۔۔۔۔ اسے دیکھ رہا تھا کیونکہ وہی اس کی نظروں کی حد میں تھا۔ اسے اپنی طرف متوجہ پا کر بچہ دھیرے سے مسکرایا لیکن اپنے مخاطب کے جامد چہرے کو دیکھ کر بچّے کی خیر مقدمی مسکراہٹ حیرت سے سمٹ گئی، جیسے کہہ رہا ہو:
’’عجیب آدمی ہو، مسکراہٹ کا جواب بھی نہیں دے سکتے!‘‘
بیزار آدمی اپنی ران پر ہوئے دھماکے کی گتھی سلجھ جانے کے بعد کھڑکی سے باہر دیکھنے کی تگ و دو میں دوبارہ مصروف ہو گیا۔
’’آغوں ۔۔۔۔‘‘
بچے کی کمزور آواز نے اسے بلایا۔ اس نے گردن موڑ کر بچے کو دیکھا جو بخار کے باوجود مسکرا رہا تھا۔ اس دفعہ بیزار آدمی کی آنکھوں سے ایک پر جھجک تبسّم نے جھانکا جسے بچے کی تیز نگاہ نے دیکھ لیا اور ایک اونچی ’’آغوں‘‘ کی مدد سے کہا:
’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔‘‘
پھر وہ شال کی قید سے آزاد ہونے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگا۔ اب اس کی ماں اس کی طرف متوجہ ہو چکی تھی۔ اپنے ساتھ بیٹھے آدمی کو بچے کی طرف دیکھتا پا کر اس نے خوش دلی سے کہا: ’’اسے باتیں کرنے کا بہت شوق ہے، ہر نئے آدمی سے گھل مل جاتا ہے۔‘‘
’’نیا آدمی؟‘‘ وہ چونکا۔ اسے اپنے لیے ’’نئے آدمی‘‘ کا خطاب اچھا لگا۔
عورت نے پیار سے بچے کی پیشانی پر بکھرے بال ہٹائے، اس کی آنکھوں کے نم گوشوں کو صاف کیا۔ اس طرح بچے کی شکل اور بھی واضح ہو گئی۔ وہ اپنی ماں کی طرح خوبصورت تھا۔
عورت نے بچے کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اس کا بخار محسوس کیا اور پھر خوش ہو کر اپنی بائیں طرف کے ’نئے آدمی‘ کو اپنائیت سے بتایا:
’’لگتا ہے بخار اب کچھ کم ہو گیا ہے۔‘‘
بچہ اب ہاتھ پاؤں مار کر اپنے آپ کو کافی حد تک شال کی قید سے آزاد کر چکا تھا۔ اور بیزار آدمی اپنا رخ موڑ کر اب زیادہ تواتر سے بچے کو دیکھنے لگا تھا۔ ’آ دا۔ دا دا ۔ دا ۔۔۔‘‘
بچے نے آسان آوازوں سے کوئی بات کی جو بیزار آدمی کو نئی اور اچھی لگی اور اس نے بچے کو جواب دینے کے لیے اپنے ہونٹوں کو گول کرکے باریک سی سیٹی بجائی۔ بچّہ اس بے تکلفی پر کلکاری مار کر ہنس پڑا۔ بچے کو ہنستا دیکھ کراس کی ماں بھی مسکرا اٹھی۔ بچہ اب پورے جوش سے ہمک رہا تھا۔’’اب یہ چاہتا ہے کہ آپ اسے اٹھا لیں۔‘‘ عورت نے بیزار آدمی کو جو اب زیادہ بیزار دکھائی نہیں دے رہا تھا، اپنے بچے کی بات سمجھائی۔
بیزار آدمی کے دماغ نے ابھی کوئی فیصلہ بھی نہیں کیا تھا کہ اس کے ہاتھ اس کے دماغ سے ایک قدم آگے بڑھ کر بچے کی طرف اٹھے اور بچہ ہمک کر اس کی بانہوں میں آ گیا۔
وہ اب بچے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اپنی گود میں کھڑا کر چکا تھا۔ بچہ اس قربت کی وجہ سے اور بھی بے تکلف ہو گیا۔ اس نے ہنستے ہنستے اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھا کر بیزار آدمی کو بالوں سے پکڑ لیا۔ اسی طرح باتوں باتوں میں اس نے بیزار آدمی کے کان کو مروڑا۔ وہ اپنی دست درازیوں پر پہلے سے زیادہ پرجوش ہو کر بے ربط آوازیں نکال رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو:
’’دیکھو میرے پاس ایک بھی پورا لفظ نہیں ہے، پھر بھی میں باتیں کر سکتا ہوں!‘‘
اور بچے کی یہ گفتگو یک طرفہ نہیں تھی۔ بیزار آدمی بچے کی زبان ہی میں اس کی باتوں کا جواب دے رہا تھا۔
جب ہسپتال کا سٹاپ آ گیا تو عورت نے بچّے کو پھر سے شال میں لپیٹا اور اپنے ہمسائے سے الوداعی بات کی: ’’معاف کرنا بھائی جی، میرے بیٹے نے آپ کو بہت تنگ کیا۔‘‘
اس نے ڈرائیور کا بھی یہ کہہ کر شکریہ ادا کیا: اللہ تمھیں اس نیکی کا اجر دے گا ویرا۔ تمھاری بڑی مہربانی۔‘‘
عورت اور بچہ جب بس سے اتر گئے تو بیزار آدمی کو محسوس ہوا کہ اب اس کا اپنا جسم اس سے محوِ کلام تھا۔ بچے کے ننھے ہاتھوں نے جن بالوں کو کھینچا تھا وہاں سے سرور کی لہریں سی اٹھ رہی تھیں۔ جس کان کو مروڑا گیا تھا وہ ہنس رہا تھا۔ جس ران پر بچے نے ایڑی مار کر آبِ تکلم کا چشمہ جاری کیا تھا وہاں اب بھی سنسناہٹ کے دائرے سے بن کر پورے جسم تک پھیل رہے تھے۔ اس کے چہرے کے اکڑے ہوئے عضلات ڈھیلے ہو کر آرام محسوس کر رہے تھے۔ اس کی آنکھوں کو ابھی ابھی ایک کھلکھلاتے نظارے نے سہلایا تھا۔
بچہ اس سے نئی نکور باتیں کرکے جا چکا تھا۔ اور اب وہ بیزاری کی گہری کھائی سے باہر نکل کر اپنے کپڑے جھاڑ رہا تھا۔