چلتے چلتے ۔۔۔ خرم شاہ
چلتے چلتے
خُرم شاہ
جنوری کی ٹھنڈک سے بھرپور صبح، جوہڈیوں میں سرایت کرکے انہیں چٹخا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے، میرے خیر مقدم کے لیے تیار تھی۔ میں گھر سے کام پر جانے کے لیے نکل کھڑا ہوا- محلہ بارہ دری کی مسجد کے پاس سے گزرا تو نماز فجر کی امامت میں مصروف قاری صاحب کی قرآت کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی- ایک لمحے کے لیے نماز نہ پڑھنے کا احساسِ جرم مجھ پر حاوی ہوگیا۔ مجھے روزانہ ڈیڑھ گھنٹے کا سفر کرکے کالج پہنچنا ہوتا ہے، اس لیے وقت کی قلت کا سامنا رہتا ہے۔یہ بہانہ مجھے وقتی تسلی دینے کے لیے کافی تھا۔ کام اور سفر کے بعد مجھے بہت تھکن ہوجاتی ہے اور سفر بھی ایسا کہ الامان۔۔۔۔
میں صرف اس شخص کو سچا اور پکا پاکستانی مانتا ہوں جو بسوں ویگنوں میں سفر کرتا ہے اور پاکستان میں ایسے عوام کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
میں سڑک کنارے کھڑا سردی کی وجہ سے منہ سے نکلنے والی بھاپ میں سگریٹ کا دھواں ملا کر اُڑا رہا تھا کہ دور سےایک کھٹارا سی ویگن جیسے ہانپتی کانپتی ہوئی میری جانب آتی نظر آئی ۔اس کی حالت دیکھ کر میں نے دل میں مصمم ارادہ کر لیا کہ اب چاہے کالج سے چھٹی ہی کیوں نہ کرنی پڑے، اس ویگن میں نہیں بیٹھوں گا۔ گاڑی میرے پاس آکر رُکی تو کنڈکٹر نے کھرڑرل کی آواز کے ساتھ دروازہ کھول دیا۔ میں منہ پھیر کر فضا میں دھواں پھونک رہا تھا کہ دفعتا”ایک لڑکی کہیں سےنمودار ہوئی اور گاڑی میں سوار ہوگئی۔ میں نے سگریٹ کا آخری بھرپور کش لگاتے ہوئے کنڈکٹر کی طرف دیکھا – جونہی اس کی نظر مجھ سے ملی میں نے سگریٹ کا ٹوٹا سڑک پر پھینک کر پاؤں سے مسلا اور کسی اَن جانی طاقت کے زیر اثر گاڑی میں سوار ہوگیا۔میرے گاڑی میں داخل ہوتے ہی ڈرائیور نے گاڑی چلا دی اور میں لہراتا ہوا، سامنے خالی نشست پر ہاتھوں کے بَل گرا۔ اس کے ساتھ کھڑکی کی طرف دوسری نشست پر وہی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی – اس کے عقب میں دو نشستوں پر دو دو آدمی براجمان تھے- پیچھے جانے کے لیے ایک ایک سیٹ کی پشت گرائی گئی تھی تاکہ مسافر رکوع کی حالت میں جھک کرآخری سیٹوں پر بآسانی پہنچ سکیں- میں شرمندہ سا، سوری کہہ کر اٹھا ہی تھا کہ ایک اور جھٹکے سے لہرا کر فولڈ کی ہوئی سیٹ کی پشت پر اوندھے منھ جاپڑا – کنڈکٹر دروازے میں جھولتے ہوئے اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔میں تپ کر ڈرائیور کو کچھ اول فول بکنے ہی لگا تھا کہ لڑکی کی موجودگی کا خیال آگیا- ناچار مجھے دل ہی دل میں گالیاں بکنے پر اکتفا کرنا پڑا – لیکن ایک ایسا کاٹ دار جُملہ گاڑی کی فضا میں ضرور اُچھالا، جس نے تمام مسافروں کو ایک بار تومیری جانب متوجہ کیا
ہوگا—
میں آخری نشست پر کھڑکی کے ساتھ دُبک گیا اور سردی سے بچنے کے لیے دونوں ہاتھ اپنی رانوں تلے دبا دیے۔ ڈرائیور کے پیچھے دوسری نشست پر بیٹھی لڑکی نے مُڑ کر پیچھے نہیں دیکھا- اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
” خیر! میں لڑکی کی وجہ سے گاڑی میں سوار نہیں ہوا”
میں نے خود کو خوامخواہ یقین دلایا۔
“ہماری قوم میں احساس نام کی چیز ہی نہیں ہے۔”
مجھ سے آگے بیٹھے ایک چچا نے میرے تلخ جُملے کی حمایت میں ڈرائیور پر فقرا کَسا اور اُس سے آگے بیٹھے باباجی نے چچا کی حمایت میں پیچھے مڑکر دیکھا اور سر ہلایا۔
مجھے عقب نما شیشے میں ڈرائیور کی تاڑتی آنکھیں نظر آئیں جو بظاہر کسی بھی طرح کے جذبات سے عاری تھیں۔ ڈرائیور نےگاڑی چلانے اور مزید سوار ڈھونڈنے پرتوجہ مبذول کی تو لڑکی کے پیچھے بیٹھے باباجی نے اپنے ہونے کا احساس دلایا۔
” اللہ معاف کرے۔ ہم مسلمانوں نے خدا کے عذاب کو دعوت دے رکھی ہے۔ چھوٹے بڑے کا لحاظ ہی نہیں ، نہ خواتین کا احترام ہے۔ ہر شخص تیزی میں ہے اور حرام مال بنانے میں لگا ہے۔۔۔۔”
باباجی نے ایک روح کُش گالی کے ساتھ اپنی بات کا اختتام کیا۔
گاڑی، بیل گاڑی سے کچھ ہی تیز چل رہی تھی مگر سواریوں کی باتوں نے میری نبض تیز کردی۔
” سارا قصور تو ان ۔۔۔۔۔ حکمرانوں کا ہے جی”
اس مرتبہ لقمہ دینے والا کالج کا ایک نوجوان تھا جو مجھ سے اگلی نشست پر چچا کے ساتھ بیٹھا تھا۔
لڑکے نے بھی اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لیے گالی کا سہارا لیا ۔
میری توجہ کا باعث بننے والی بات یہ تھی کہ لڑکے کے بولنے پر اس لڑکی کے وجود میں ہلچل پیدا ہوئی اور وہ اپنے موبائل پر جھک گئی۔ اگلے ہی لمحے نوجوان کا موبائل بج اٹھا – اُس نے موبائل نکال کرمیسیج دیکھا، پھر خاموش ہوکر بیٹھ گیا۔
یونیورسٹی اسٹاپ سے مزید دو لوگ سوار ہوئے۔ گاڑی کی سست رفتاری بتا رہی تھی کہ مجھے آج پھر دیر ہوجائے گی – میں اس ماہ پہلے ہی دو مرتبہ لیٹ ہونے کی بناپر پورے ایک دن کی تنخواہ کٹوا چُکا تھا اور جلی کٹی الگ سُننے کو ملی تھیں۔ میں نے آوازلگائی-
“یار بھائی! تھوڑی رفتار بڑھاؤ”
“اتنی جلدی تھی تو ٹیکسی کروا لیتے…. “
ڈرائیور نے جواب دیا۔
“تم بھی بھنگ کی بجائے ڈیزل ڈلوالیتے…. “
میں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا –
ویگن میں ایک زور دار قہقہہ گونجا-
“دراصل اسے یقین ہے کہ یہ ویگن انڈوں پر چلارہا ہے.” پچھلی سیٹوں سے کسی نے جگت ماری تو ویگن ایک بار پھر زعفران زار ہوگئی-
ڈرائیور جو مسافروں کی جگت بازی سے تنگ آگیا تھا – اُس نے تپ کر رفتار پہلے سے بھی دھیمی کردی ۔ اِدھر میرا پارہ تیزی سے چڑھنے لگا۔ میں نے استغفار پڑھی اور کھڑکی سے باہر غصہ تھوک کر خاموش بیٹھ گیا۔
“اِن لوگوں کو بات کرنے کی بھی تمیز نہیں-اخے ٹیکسی کروالو…”
چچا میری حمایت میں بولنے لگا-
” ایسے ویگن والوں کو پولیس پکڑ کر جیلوں میں ڈالے تو مزا آجائے”
باباجی نے کہا-
انہوں نےعمدہ لباس زیب تن کر رکھا تھا اور ایک دیو قامت نوجوان بھی ان کے ساتھ تھا ،اس لیے ڈرائیور نےانھیں دیکھ کر نظریں پھیر لیں ۔ ایک سواری بٹھانے کے لیے گاڑی رکی تو پہلے سے بیٹھے مسافروں نے بھی کرایہ جمع کرکے کنڈکٹر کے ہاتھ پر رکھا، رقم میں ایک پانچ سو کا نوٹ بھی تھا۔
“بھائی ! یہ پانچ سو کا نوٹ کس کا ہے؟ ہمارا پورا ٹوکن تین سو ساٹھ روپے بنتا ہے۔ میرے پاس کُھلے نہیں ہیں، ساتھ لے کر آیا کریں “
کنڈکٹر تقریبا ًچیخ رہا تھا۔
” پیسے تمھیں بھریں اور کُھلے دوسروں سے کروائیں؟ شاباشے جوان!”
باباجی گرجے اور کنڈکٹر اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔
” اِس ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا جی۔ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ میں دس سال یورپ میں رہا۔ یقین کیجیے اب اُس دن کو کوس رہا ہوں جب واپسی کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ ملک رہنے کے قابل نہیں – – – میں تو حیران ہوں کہ دس سال تک میں ایسے ہی وطن کی یاد میں روتا رہا؟”
باباجی نان اسٹاپ بول رہے تھے-
باباجی کی یہ باتیں برداشت کرنا میرے لیے محال تھا مگر مجھے کالج پہچنا تھا۔ اپنی نوکری کی فکر کرنی تھی اور گھر چلانا تھا۔
پچیس منٹ کا سفر ایک گھنٹے میں طے ہونے ہی کو تھا کہ لاری اڈے سے تھوڑا ادھر ڈرائیور نے گیس بھروانے کے لیے گاڑی گیس اسٹیشن کی طرف موڑ دی۔
“حد ہوگئی ہے یار! “۔ مجھے خود پر قابو نہ رہا اور پھر میں نےڈرائیور اور کنڈکٹرپرچڑھائی کردی-میں انہیں بے نقط سنا رہا تھا- گیس اسٹیشن کا عملہ، راہگیر اور ساتھی مسافر مجھے حیرت بھری نگاہوں سے تکنے لگے جیسے میں پاگل ہوگیا ہوں – دوسری نشست پر بیٹھی لڑکی بھی تقریباً آدھی گھوم کر مجھے دیکھ رہی تھی۔ڈرائیور کے ساتھ بیٹھی دو پہاڑی عورتوں نے بھی گردنیں موڑ کر مجھے دیکھنے کی کوشش کی۔ چچا اور نوجوان لڑکے نے میرے چہرے پر ایک نظر ڈالی اور متذبذب ہوکر ایک دوسرے کو دیکھا۔بابا جی کی آنکھیں اب ماتھے پردھری تھیں اور وہ رعب اور استعجاب میں ڈوب کر مجھے گھور رہے تھے۔ ڈرائیور کے چہرے پر پریشانی نمایاں تھی اور وہ ہونٹ سیے ہوئے، مدافعانہ نظروں سے میرا جائزہ لے رہا تھا۔
وقت رُک گیا تھا۔ اب مجھے کہیں نہیں جانا تھا۔ اب مجھے کوئی دیر نہیں ہو رہی تھی۔میرے حواس میری گرفت میں نہیں تھے۔جانے کب گاڑی چلی اور پھر رُکی اور میں اڈے سے دوسری گاڑی میں سوار ہوکر آگے بڑھ گیا۔ حالاں کہ میں جانتا تھا کہ مجھے کالج سے کم از کم پندرہ منٹ کی دیر ہوچکی ہے اور میرے پورے دِن کی آدھی تنخواہ کٹ چُکی ہے