نظم ۔۔۔ خوش بخت بانو
نظم
خوش بخت بانو
ہمیں ملے بغیر جدا نہیں ہونا چاہیے
ایک مالی کو کیسا لگے گا
اگر اس کے ہاتھ کا لگایا ہوا ننھا پودا
تناور درخت ہونے سے پہلے موسم کی شدت سے جل جائے
ان پھلوں کو کس منڈی میں تلاش کرے گا
جس کو کھانے کے اس نے خواب دیکھے ہوں
سب سے لذید اور بیش قیمت پھل اس کا متبادل نہیں ہوسکتا
جس طرح کائنات میں موجود کسی شے سے
تمہارے ہنستے ہوئے چہرے کی تشبیہ نہیں دی جاسکتی
میں نے ریل کی پٹڑی پر کھڑے ہوکر
تمہارے شہر کی طرف جانے والی ریل گاڑی میں
اکثر خود کو بھاگ کر سوار ہوتے دیکھا ہے
لیکن تم اس پر یقین نہیں کرتے
کسی کو اپنے خواب کا یقین دلانا
اتنا ہی ناممکن ہے
جتنا شدید موسم میں کسی پودے کا زمین سے نکلنا
لیکن میں نے ہر موسم میں
اس ننھی خواہش کے پودے کی پرورش کی ہے
ایک مالی کی طرح
ہمیں اس پھل کو چکھنا چاہیے
ہمیں انتظار کرنا چاہیے
ہمیں ملے بغیر جدا نہیں ہونا چاہیے