
دفعہ 144 ۔۔۔ کشور ناہید
دفعہ 144
کشور ناہید
ہم اندھے پن کے متلاشی ہیں
جہاں تمیز کی حدیں غائب ہو جاتی ہیں
اور ہم صرف لمس بن کر رہ جاتے ہیں
لمس ۔۔۔ جو معذرت اور التجا کا آیئنہ ہے
یہاں غربت اور امیری رہے گی
اس لیے کہ ہم ذہنوں کو چُھو کر ، انہیں بے قیمت کر دیتے ہیں
درخت پتے پہنتے ہیں
مگر خزاں، وصال کی شہوتوں میں انہیں زمیں دوز کر دیتی ہے
ہم بہرے پن کے متلاشی ہیں
کہ جہاں لفط و معنی، صرف ہلتے لبوں کی جنبش میں
قید ہوتے ہیں
جنبش ۔۔۔ کٹھ پتلیوں کے تار ذرا بھی غلط ہل جایئں
تو سارا کھیل چوپٹ ہو جاتا ہے
یہ کھیل تو رہے گا
اندر کے خوف کو رعشہ مت بننے دو
ہم گونگے پن کے متلاشی ہیں
کہ تالی بجانے والے آواز استعمال نہیں کرتے
آواز، آزاد ہو تو نعرہ منصور
اور گُھٹ جائے تو حسن ناصر بن جاتی ہے
مگر گونگے چیخ تو سکتے ہیں
یہ کیوں ہے۔۔ یہ کیوں ممکن ہے۔