پہلے آسمان کا زوال ۔۔۔ کمار پاشی

پہلے آسمان کا زوال

کُمار پاشی

اور پہلے آسمان پر مجھے قتل کر دیا گیا۔

اس روز سورج نہیں نکلا۔۔۔۔۔ چاند بھی نہیں ۔۔۔۔۔ تاے بھی نہیں

صرف دور دور تک بادل کھڑے تھے، لمبے، گدلے اور گہرے۔ قطار در قطار۔

اور پھر چپ چاپ پانی برسنے لگا۔

بادل گرجے

بجلی نہیں چمکی

چاروں طرف اندھیرا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ جنگلوں کا اندھیرا ۔۔۔۔۔ گہرا اور نم

اور پانی برس رہا تھا

لگاتار ۔۔۔۔ چپ چاپ

شپ شاں

میرے لہو سے دھرتی گل نار ہو گئی تھی ۔۔۔۔ درختون کے پتے بھی سرخ ہو گئے تھے۔۔۔۔ اور شہر کے مکان ۔۔۔۔کھیت ۔۔۔ اور دریا ۔۔۔۔ سب پر میرے لہو کا رنگ چھا گیا تھا۔

اور پہلے آسمان پر خاموشی تھی

ہزاروں لوگ تھے جنہیں میری موت کا غم تھا اور جو آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے، اب کیا کرنا ہوگا۔۔۔مگر کوئی نہیں بتاتا کہ اب کیا کرنا ہو گا۔

ہزاروں لوگ تھے جو اپنی اپنی صلیبیں اٹھائے اور سر پر کانٹوں کا تاج پہنے اپنے اپنے گھروں سے نکل آئے تھے اور پہلے آسمان کے بیچ دائرہ بنا کر کھڑے تھے، جہاں مجھے قتل کیا گیا تھا۔

ان کے چہرے زرد تھے اور آنکھیں پھیل کر کانچ ہو گئی تھیں اور وہ ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے

اب کیا کرنا ہوگا ۔۔۔  مگر سب خاموش تھے

کوئی نہیں جانتا تھا کہ اب کیا کرنا ہو گا ؟

آوازوں کے جنگل میں پانی برس رہا تھا۔

میرا لہو ۔۔۔۔۔ جو پانی ہو گیا تھا

اور برس رہا تھا

شپ ژاں

شپ شاں

اور آوازوں کا جنگل سوکھ رہا تھا۔

اور دفعتا آگ لگ گئی۔ پہلے آسمان کے نیچے ۔۔۔۔ آوازوں کے جنگل میں آگ لگ گئی۔

ہزاروں لوگ تھے جو اپنے اپنے گھروں سے نکل کر باہر آگئے تھے اور میری لاش کے گرد جمع تھے اور ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے ، اب کیا کرنا ہوگا۔

ہوا سنسنائی

اور پھر پاگل ہو کر بھاگی

اس کے بال کھل گئے تھے اور وہ میری لاش کے گرد دوڑ رہی تھی ۔۔۔۔ اس کے بال کھل گئے تھے ۔۔۔ اس کی چولی ڈھیلی ہو گئی تھی ۔۔۔۔ اس کا پیٹی کوٹ اتر گیا تھا۔

اور وہ اپنے بھاری کولہوں کے ساتھ پاگل ہو کر دوڑ رہی تھی۔

میں نہیں جانتا کہ میرا گناہ کیا تھا ۔۔۔  میں نہیں جانتا کہ میرا قاتل کون ہے، وہ اداس تھے اور پوچھ رہے تھے، بتاو تمہیں کس نے قتل کیا ؟؟ مگر میں خاموش تھا اور پہلے آسمان پر ایک دائرے میں پڑا تھا۔

درختوں کے پتے سرخ ہو گئے تھے۔

اور شہر کے مکان ۔۔۔۔ کھیت ۔۔۔۔ اور دریا ۔۔۔۔۔ سب پر میرے لہو کا رنگ چھا گیا تھا۔

اور وہ اپنے بھاری کولہوں کے ساتھ پاگل ہو کر دوڑ رہی تھی ۔۔۔۔

اور وہ فروری کا ایک سرد اور بوجھل دن تھا۔

مدھم نیلی روشنیوں والے ایک کونے میں وہ میرے سامنے بیٹھی تھی اور مجھے مسلسل دیکھے جا رہی تھی۔

اس کے بال کھلے ہوئے تھے اور سینہ چولی سے باہر جھانک رہا تھا ۔۔۔۔ پھر اس نے میرا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور میری ہتھیلی پر انگلی سے کراس کا نشان بنا دیا۔

میں نے دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے۔

اور پھر وہ اٹھ کر چلی گئی۔

فلور پر رقص کرتی ہوئی اطالوی لڑکی نے اپنی دائیں ٹانگ کو اوپر اٹھا کر ہوا میں ایک دائرہ بنایا اور سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔

باہر وہی شور و غل ۔۔۔۔ وہی آوازیں ۔۔۔درد میں ڈوبی ہوئی ۔۔۔۔

اور موبل آئل میں تھلیل ہوتا ہوا ۔ میں ۔۔۔۔۔ اور وہ

پھر میں نے بازار سے ایک صلیب خریدی اور اسے اپنے کاندھے پر ڈال لیا ۔۔۔۔

آسمان کالا سیاہ ہو گیا تھا۔

ہوا رو رہی تھی۔ روں ۔۔۔ روں ۔۔۔۔ روں ۔۔۔۔

آج چاند نہیں نکلے گا۔ کوئی زیر لب کہہ رہا تھا اور اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔

ٹپ ۔۔۔۔

ٹپ ۔۔۔۔

ٹپ ۔۔۔

وہ میری نگاہوں کے احاطے سے دور جا چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں موبل آئل کے دھوئیں میں تحلیل ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔ چپ چاپ ۔۔۔۔۔۔ اکیلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور لوگ دیکھ رہے تھے اور ہنس رہے تھے

اور پھر پہلے آسمان پر مجھے قتل کر دیا گیا۔

چاروں طرف اندھیرا تھا ۔۔۔۔ جنگلوں کا اندھیرا ۔۔۔گہرا اور نم

اور پانی برس رہا تھا ۔۔۔۔۔ لگا تار ۔۔۔۔ چپ چاپ

اور اوپر ساتویں آسمان پر

میرا ایک دوست

اپنے بستر پر مردہ پڑا تھا ( اور وہ ۔۔۔۔۔ اپنے سیاہ بال کھولے، بھاری کولہوں کے ساتھ اس کی لاش کے گرد دوڑ رہی تھی۔ )

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.