جو وقت کو مات دے گیا ۔۔۔ ڈاکٹر لال خان
لیون ٹراٹسکی، جو وقت کو مات دے گیا
( ڈاکٹر لال خاں )
20 اگست 1940ء کو میکسکو کے شہر کویوکن (Coyoacan) میں برف چیرنے والی کلہاڑی سے لیون ٹراٹسکی کو قتل کر دیا گیا۔ یہ ایک شخص کا قتل نہیں بلکہ ایک نظرئیے کو مٹانے کی کوشش تھی۔ لیکن انسانوں کو ختم کر دینے سے نظریات نہیں مٹ سکتے۔ تاریخ کی کسوٹی پر سچ ثابت ہونے والے نظریات ہی نسل انسان کی نجات کا ذریعہ بنتے ہیں۔
لیون ٹراٹسکی، ولادیمیر لینن کے ہمراہ نومبر 1917ء کے انقلاب روس کے معمار اور قائد تھے۔ بالشویک انقلاب کی نظریاتی اساس ٹراٹسکی کے ہی ’’نظریہ انقلاب مسلسل‘‘ پر مبنی تھی جس کی ترویج انہوں نے مارکسزم کی عملی روح کے تحت کی تھی۔ نظریہ انقلاب مسلسل یا Permanent Revolution کو مختصراً یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ پسماندہ ممالک کے حکمران طبقات تاریخی طور پر قومی جمہوری انقلاب کے فرائض ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں اور ان ممالک میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر صنعتی انقلاب برپا نہیں ہو سکتا۔ ایسے پچھڑے ہوئے نیم جاگیر دارانہ یا قبائلی معاشروں میں سرمایہ داری کے تاریخی فرائض سوشلزم کے ذریعے ہی ادا کئے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا ان حالات میں انقلاب کی قیادت بورژوازی کی بجائے محنت کش طبقہ کرتا ہے اور بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر کے سوشلسٹ معیشت کی بنیادپر نہ صرف قومی جمہوری انقلاب کے ادھورے فرائض کو مکمل کرتا ہے بلکہ سوشلزم کی تعمیر کا عمل بھی شروع ہوتا ہے۔ ٹراٹسکی لکھتا ہے کہ تاریخ کا تضاد یہ ہے کہ پسماندگی ہی فوقیت بن جاتی ہے۔ ہمیں سرمایہ دارانہ انقلاب کے مراحل میں سے یورپ کی طرح گزرنا نہیں پڑے گا بلکہ ہم براہ راست سوشلسٹ انقلاب برپا کر کے یورپ کے سماجی اور معاشی طرز ارتقا کو پھلانگ کر آگے نکل جائیں گے۔
روس کا انقلاب اور بعد کی چند دہائیوں میں منصوبہ بند معیشت کے تحت تیز ترین معاشی ترقی (افسر شاہانہ زوال پزیری کے باوجود) کے ذریعے دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن کر ابھرنا ٹراٹسکی کے اس نظرئیے کی سچائی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ لیکن نظریہ انقلاب مسلسل کا ایک بنیادی پہلو دوسرے ممالک، بالخصوص ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں انقلاب کا پھیلاؤ بھی ہے۔ ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی سوشلسٹ انقلاب اگر ایک ملک میں مقید ہو جاتا ہے تو اس کا دم گھٹ جائے گا اور انہدام ناگزیر ہوگا۔ 1991ء میں سوویت یونین کا انہدام منفی انداز میں ٹراٹسکی کے نظرئیے کو سچ ثابت کرتا ہے۔
لیون ٹراٹسکی بہت کم عمر میں ہی مارکسزم کے نظریات کی طرف مائل ہو گئے تھے اور تمام عمر انقلابی سوشلزم کا پرچم سربلند رکھا۔ صرف 25 سال کی عمر میں 1905ء کے انقلاب کے دوران پیڑوگراڈ سوویت کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ 1917ء میں ایک بار پھر پیٹروگراڈ سوویت کے چیئرمین بنے اور اقتدار پر محنت کشوں کے قبضے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ 1917ء سے 1925ء تک نومولود مزدور ریاست کے امور خارجہ، دفاع، ریلوے، معاشی منصوبہ بندی وغیرہ کے عوامی کمیسار (وزیر) رہے۔ انقلاب کے فوراً بعد امریکہ سمیت 21 سامراجی ممالک نے سوویت جمہوریہ کو کچلنے کے لئے چڑھائی کی تو ٹراٹسکی کو سرخ فوج کی تشکیل اور تعمیر کا فریضہ سونپا گیا۔ ایک سال سے کم کے عرصے میں انہوں نے زار کی بچی کھچی تین لاکھ کی خستہ حال فوج کو تیس لاکھ کی طاقتور اور فعال سرخ فوج میں تبدیل دیا اور سامراجی یلغار کو شکست فاش دی۔
بھاری مالی وجانی نقصان کی قیمت پر انقلاب کو بچا تو لیا گیا لیکن جرمنی (1918-23ء)، برطانیہ (1926ء)، فرانس (1924ء)، چین (1925-27ء) سمیت کئی ممالک میں انقلابات کی شکست کے بعد سوویت یونین تنہا اور محصور ہو گیا۔ پہلی عالمی جنگ، دو انقلابات اور پھر خونریز خانہ جنگی (25 لاکھ سے زائد ہلاکتیں) سے معیشت کم و بیش برباد ہو چکی تھی۔ محنت کش عوام میں تھکاوٹ اور عالمی سطح پر تنہائی کے نفسیاتی اثرات حاوی تھے۔ قلت اور گھٹن کی اس کیفیت میں سوویت ریاست میں افسر شاہی (بیوروکریسی)کی جڑیں مضبوط ہوتی چلی گئیں۔ سٹالن اس افسر شاہی کا شخصی اظہار اور نمائندہ تھا۔ لینن نے افسر شاہی کے خلاف مزدور جمہوریت کی بھرپور جدوجہد کی جسے 1924ء میں اس کی وفات کے بعد ٹراٹسکی نے آگے بڑھایا۔ لیکن حالات کا دھارا ٹراٹسکی کے خلاف تھا۔
افسر شاہی ایک طرف اپنی مراعات اور اختیارات میں اضافہ کرتی چلی گئی تو دوسری طرف بالشویزم کے نظریات پر ڈٹے رہنے والے ٹراٹسکی جیسے قائدین اور سیاسی کارکنان کو راستے سے ہٹانے کا عمل شروع کر دیا گیا۔ 1926ء میں ٹراٹسکی کو تمام ریاستی عہدوں سے ہٹادیا گیا، پھر پارٹی سے نکال کر سائبیریا بھیج دیا گیا اور بعد ازاں 1929ء میں جلا وطن کر دیا گیا۔ افسر شاہی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبا دیا گیا، ٹراٹسکی کی ’لیفٹ اپوزیشن‘ کے ہزاروں کارکنان کو تشدد اور ٹھنڈ سے قتل کرنے کے لئے سائبیریا کے جبری مشقت کے کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔
ٹراٹسکی پہلے ترکی گیا، قاتلانہ حملے کے بعد اسے فرانس ہجرت کرنا پڑی، وہاں سے بے دخلی کے بعد دربدر کی ٹھوکریں کھاتا ہو امیکسکو پہنچا جہاں بائیں بازو کی حکومت نے اسے وقتی پناہ دی۔ ان تلخ حالات میں بھی انقلاب کو اس کے بنیادی نظریات اور اصولوں پر دوبارہ استوار کرنے کی جدوجہد اس نے جاری رکھی۔ جلاوطنی میں اس کی بے شمار تصانیف مارکسی ادب کے خزانے کا درجہ رکھتی ہیں۔ ایک مرتبہ اس سے پوچھا گیا کہ وہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ کسے سمجھتاہے؟ اس نے انقلاب کی قیادت، سرخ فوج کی تعمیر اور اقتدار کی انتہاؤں وغیرہ کی بجائے جلاوطنی کی اذیت میں لکھی تحریروں کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی تخلیق قرار دیا تھا۔
جرمنی اور چین کے انقلابات کی شکست میں سٹالن کا اہم کردار تھا۔ جرمنی میں ہٹلر کے فاشزم کا ابھار سٹالن ازم کی نظریاتی غلطیوں اور غداریوں کا ہی نتیجہ تھا۔ 1930ء کی دہائی تک سٹالنسٹ بیوروکریسی نے تیسری انٹرنیشنل (محنت کشوں کی عالمی تنظیم) کو رد انقلاب کے اوزار میں تبدیل کر دیا تھا۔ ان حالات میں ٹراٹسکی نے تیسری انٹرنیشنل سے تمام ناطے توڑ کر چوتھی انٹرنیشنل کی بنیاد ڈالی۔ سٹالن سوویت یونین سمیت پوری دنیا میں ٹراٹسکی کے ساتھیوں کے خلاف یکطرفہ خونریز جنگ کا آغاز کر چکا تھا۔ٹراٹسکی کے بچوں کو قتل کروا دیا گیا یا خود کشی پر مجبور کر دیا گیا۔ 1917ء میں انقلاب برپا کرنے والی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے بیشتر ارکان 1939ء تک قتل کر دئیے گئے، چند ایک کو علامتی عہدے دے کر راستے سے ہٹا دیا گیا۔ اُس مرکزی کمیٹی کا واحد برسر اقتدار شخص سٹالن خود تھا جس کی متعلق العنانیت کو سب سے بڑا خطرہ ٹراٹسکی کے نظریات سے تھا۔ 1940ء میں خفیہ پولیس NKVD کے ایجنٹ رامان مرکاڈور کے ہاتھوں ٹراٹسکی کو بھی قتل کروا دیا گیا۔
ٹراٹسکی کو جسمانی طور پر ختم کر دیا گیا لیکن اس کے نظریات امر ہو گئے۔ سٹالن کی ’’ایک ملک میں سوشلزم‘‘ اور ’’مرحلہ وار انقلاب‘‘ کی پالیسیوں نے نہ صرف سوویت یونین کا بیڑا غرق کیا بلکہ اس سے ملحقہ دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیوں کو ماسکو کی خارجہ پالیسی کے آلہ کار بنا کر ان گنت انقلابات کو زائل کر دیا۔ برصغیر میں سٹالن نے دوسری جنگ عظیم کے دوران کمیونسٹ پارٹی سے برطانوی سامراج کی اطاعت کروائی اور یہاں کی انقلابی تحریک کو رد انقلابی مذہبی تفریق کے ذریعے خون میں ڈبو دیا۔ لمحوں کی خطا کی سزا آج صدیاں پا رہی ہیں۔
آج کل ’’بائیں بازو‘‘ میں اس بات کا بہت چرچا ہے کہ سٹالن اور ٹراٹسکی کے اختلافات پرانے اور بے معنی ہو چکے ہیں جنہیں مسترد کر کے ’’یونیٹی‘‘ بنانے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹراٹسکی کے نظریات آج پہلے سے کہیں زیاد ہ کلیدی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔پاکستان میں اس کی سب سے بڑی مثال 1968-69ء میں ملتی ہے۔ جب انقلابی تحریک ابھری تو ماسکو اور بیجنگ نواز بائیں بازو کے لیڈر ’’مرحلہ وار انقلاب‘‘ کی سٹالنسٹ پالیسی کے تحت دائیں بازو کی پارٹیوں سے ’’قومی جمہوریت‘‘ کے لئے الحاق بناتے پھر رہے تھے۔ دوسری طرف محنت کش اور نوجوان تھے جو سرمایہ دارانہ نظام کو سرے سے ختم کرنا چاہتے تھے، ایک مکمل بغاوت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جمہوریت کی بجائے سوشلزم کا نعرہ دیا تو راتوں رات تحریک کا لیڈ بن گیا۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو کوئی لینن یا ٹراٹسکی نہیں تھا، نہ ہی پیپلز پارٹی کوئی بالشویک پارٹی تھی، چنانچہ انقلاب اصلاحات کے راستے پر بھٹک گیا۔
ماضی کے سٹالنسٹ کم از کم دو مراحل پر مشتمل انقلاب کی بات کرتے تھے، آج والے صرف ایک ہی مرحلے کے علمبردار ہیں: سرمایہ دارانہ جمہوریت۔سوشلزم کا نام لینا ہی چھوڑ دیا ہے۔ سیکولرازم، لبرل ازم، جمہوریت اور اصلاح پسندی کے ملغوبے میں یہ نام نہاد بایاں بازو اس قدر غرق ہو چکا ہے کہ یہاں کے رجعتی سرمایہ دار طبقات کی غیر مشروط حمایت اور کاسہ لیسی ہی اس کا نظریہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اصلاحات کی گنجائش اس نظام اور ریاست میں سے بہت عرصہ قبل ختم ہو چکی ہے۔ آبادی کی بھاری اکثریت کی زندگی تلخ سے تلخ تر ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں لینن اور ٹراٹسکی کے نظریات کے تحت ہی وہ موضوعی عنصر تعمیر کیا جاسکتا ہے جو آنے والے دنوں میں انقلابی تحریک کو سوشلسٹ فتح سے ہمکنار کر کے نسل انسان کی نجات کا ذریعہ بن سکے۔
یہ تاریخ کا مکافات عمل ہے کہ سٹالن ازم آج ماضی کا مزار بن چکا ہے۔ ٹراٹسکی کے نظریات کی سچائی تاریخ کے جبر کو چیر کر آگے بڑھ گئی۔ ٹراٹسکی نے مرتے دم تک انقلاب پر اپنا یقین قائم رکھا۔آخری ایام میں ٹراٹسکی کی یہ تحریر اس کے عزم، انتھک جدوجہد اور حوصلے کی گواہی دیتی ہے:
’’میں اپنی شعوری زندگی کے 43 سالوں میں انقلابی رہا ہوں اور ان میں سے 42 سال تک میں نے مارکسزم کے پرچم تلے جدوجہد کی۔ اگر مجھے دوبارہ زندگی ملے تو میں ثانوی غلطیوں سے بچنے کی کوشش کروں گا مگر میرا مقصد حیات کبھی تبدیل نہیں ہوگا۔ میں محنت کش طبقے کے انقلابی اور مارکسسٹ کے طور پر مرنا پسند کرونگا۔ انسانیت کے کمیونسٹ مستقبل کے بارے میں میرا یقین متزلزل نہیں ہوا۔ درحقیقت آج یہ یقین جوانی کے دنوں کی نسبت کہیں زیادہ پختہ ہو چکا ہے۔
تھوڑی دیر پہلے نتاشا نے باغیچے کی طرف کھلنے والی کھڑکی کو تھوڑا اور کھول دیا تاکہ کمرے میں سے ہوا کا گزر ہو سکے۔ میں دیوار کے نیچے گھاس کی چمکدار سرسبز تہہ کو دیکھ سکتا ہوں جس کے اوپر شفاف نیلا آسمان ہے، سنہری دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ زندگی کتنی خوبصورت ہے۔ آنے والی نسلیں یقیناًاسے مصائب، ظلم اور جبر سے پاک کر کے ہر ممکن حد تک لطف اندوز ہو سکیں گی۔‘‘