اب نہیں ۔۔۔ محمود احمد قاضی
اب نہیں
محمود احمد قاضی
سویرے ڈاکٹر توقیر ابھی واش روم میں ہی تھا کہ لاونج میں پڑا اس کا سیل فون بجنے لگا- جب وہ باہر آیاتو عین اسی لمحے فون کی گھنٹی بجنی بند ہوگئی- پہلے تو اس نے لاپرواہی برتنے کا سوچا کہ جسے ضرورت ہوگی خود ہی دوبارہ سے کال کر لے گا لیکن پھر کچھ سوچ کر فون کی جانب آیا– نمبر چیک کیا یہ اسپتال والے تھے– اس نے فون کیا وہاں سے گھبرائے اور بولائے ہوئے انداز میں کہا گیا- ڈاکٹر صاحب فورا پہنچئے۔ ایمرجنسی ہے- وہ تیزی سے تیار ہونے لگا- لفٹ سے باہر آیا- پارکنگ لاٹ میں گیا- گاڑی نکالی اور زن سے روانہ ہو گیا۔ –
راستہ چہل پہل سے خالی تھا۔ سڑک کے کنارےایستادہ درخت اداسی کے بوجھ تلے کراہتے ہوئے محسوس ہوئے۔ تھوڑا آگے بڑھا تو اس بنجر ماحول میں تھوڑا سا تازگی کا شائبہ ہوا۔ دو لالیاں (شارکیں ) سڑک کے عین بیچ میں اتر آئی تھیں۔ انہیں اپنے رزق کی تلاش تھی۔لیکن ان کے بشرے سے ظاہر تھا کہ ایسا وہ مجبوری میں کر رہی ہیں ورنہ وہ کہاں اور یہ سڑک کہاں۔ اس نے غور کیا تو قریب ہی اسے چار پانچ چڑیاں بھی دکھائی دیں۔ صاف ظاہر تھا کہ ان کی پوٹیں خالی تھیں۔ اس نے سوچا کہ کاش وہ ان پکھیرووں کی مدد کر سکتا ۔ ویسے بھی اسے جلدی تھی وہ تیزی سے گاڑی چلاتا رہا۔ ایک طرف اسے مریل ساگدھا کھڑا نظر آیا وہ سدا کا ایک غمگین چہرے والا جانور تھ۔ا۔ اسے ہمیشہ گدھوں پر ترس ہی آتا تھا حتی کہ جو گدھا نما منش ہوتے ان پر بھی اور جو گھوڑا قسم کے لوگ تھے ! اپنی سوچ پر وہ خود ہی مسکرا دیا
اس نے گاڑی اپنی مخصوص جگہ پر پارک کی۔ اسپتال میں نیم خاموشی کا راج تھا۔ جیسے کسی بندے پر غشی طاری ہو۔اس نے دوسری منزل والا بٹن دبایا۔ لفٹ میں وہ اکیلا تھا۔ایک جھپاکا سا ہوا اور اسے دور وہاں فیصل آباد میں اس کے گھر والے اپنے برآمدے میں بیٹھے نظر آئے۔ ان کے چہروں کا ملال اس سے دیکھا نہ گیا۔ اسے خیال آیا کہ وہ ان سے فون پر بات کرے۔ دروازہ کھل گیا اس کی منزل مقصود سامنے تھی وہ تیز قدم اٹھاتا وارڈ کی طرف آیا اسے کہا گیا ادھر نہیں ادھر۔ وائرس سے متاثرہ مریضوں کے مخصوص وارڈ میں۔ وہ ادھر گیا۔ اسے اشاروں اشاروں میں ویلکم کہا گیا ۔ ایک چارٹ اسے تھما دیا گیا۔
مسٹر توقیر ! یہ چار مریض ہیں نہایت سیریس انتہائی نگہداشت میں۔ اب سے یہ آپ کے چارج میں ہیں۔ اس کے سینئر نے کہا اور ایک دو نرسوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ اس نے دیکھا وہ چاروں کے چاروں وینٹی لیٹر پر تھے۔اس نے جلدی جلدی ان کی کیس ہسٹری دیکھی۔ ان سب کی حالت خطرے میں تھی۔ اس کے مدد گار آتے گئے اسے مزید معلومات بہم پہنچاتے رہے۔وہ سب کی سنتا رہا اور متفکر رہا۔ اسی اثنا میں اس کا میڈیکل ڈریس گلوز اور خصوصی ماسک اور جوتے اسے مہیا کر دیے گئے۔ شوز کور بھی اس کے جوتوں پر چڑھائے گئے۔ اس کے سر کو بھی خاص طرح سے ڈھانپا گیا۔ وہ ایک نئی جون میں آگیا۔ وہ اپنے کام میں جت گیا ۔پیرامیڈکس والے اس کی مدد کو ہمہ وقت تیار تھے ۔سمریضوں کی حالت کسی وقت بھی تسلی بخش نہ ہو سکی۔ وہ سب وینٹی لیٹر کی وجہ سے سانس لیتے تھے۔ وہ جانتا تھا جس کسی کا وینٹی لیٹر سے رابطہ منقطع کیا گیا، اسی وقت اس کا تعلق زندگی سے کٹ جائے گا لیکن امید ابھی بھی باقی تھی۔ ڈاکٹرکا فرض اسے پکار پکار کر کہہ رہا تھا ابھی دیکھو انتظار کرو۔ ہمت کرو ۔ شاید، اسی شاید کے باریک جھلی جیسے سائے کے اندراگلی صبح کو ایک مریض نے دم توڑ دیا۔ لواحقین کو اطلاع دی گئی لیکن باقی ماندہ تمام مراحل سے بے خبر رکھا گیا۔ لواحقین نے شور مچایا واویلا کیا میڈیا پر متضاد خبریں بھی چلیں ۔میڈیکل کے شعبے والوں کو اپنی بے بسی تھی۔ وہ لاچار تھے۔ طعنے سہہ رہے تھے۔ ڈاکٹر توقیر کو اس کی شفقت کے اختتام پر گھر نہیں جانے دیا گیا۔ وہ وہیں رہا۔ ایک آئسو لیٹڈ روم میں۔ اسے وہیں سے روٹی پانی مہیا کیا گیا ۔وہ اس خاص کمرے میں لیٹاتو اسے پھر سے اپنے پیاروں کے چہرے نظر آئے۔ وہ اس تک نہیں آ سکتے تھے۔ ہر قسم کی سواری پر پابندی تھی۔ چھوٹی بہن کا چہرہ اس سے دیکھا نہ گیا اسے وہاں غم کے گہرے سائے نظر آئے۔ اس کا والد والدہ بھائی سب ملول سے تھے۔ رات کو وہ صحیح طرح سے سو نہ سکا تھا۔اسے آوازیں دی جاتی رہیں۔ وہ وارڈ میں آتا جاتا رہا اسے بار بار سینی ٹائز کیا جاتا رہا۔
ایک اور مریض دم توڑ گیا۔ سارا وارڈ ایک بار پھر سوگوار ہوگیا۔ تدارک کوئی نہ تھا۔ ویکسینیشن دستیاب نہ تھی۔ دنیا کا نظام الٹ پلٹ تھا۔ سب گہرے صدمے کی حالت میں تھے۔ قبریں، تابوت خود ڈاکٹر بھی محفوظ نہ تھے۔ دہشت خود ان کے دلوں میں بھی گھر کر گئی تھی۔ تین مریض جب ختم ہوچکے اور چوتھے کی آس بھی دم توڑ رہی تھی کہ یہ مریض ریکوری کی طرف آ گیا۔ اس کا سانس بحال ہونا شروع ہوا۔ وارڈ مسرت کے پھولوں سے لہلہا اٹھا۔ سب نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔
جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو ڈاکٹرتوقیر کو خشک کھانسی نے آ لیا۔ اس کے سارے جسم میں درد ہونے لگا۔ چیک کیا گیا۔ اسے 99 اور 100 کے درمیان بخار تھا ۔ اسے چکر بھی آ رہے تھے۔ اسے سب سے الگ کر کے سی بی سی ٹیسٹ اس کے لئے تجویز ہو۔ا ٹیسٹ مثبت آیا۔ اسے ایسے مریضوں کے لیے تجویز کیے گئے مخصوص مقام کی طرف منتقل کر دیا گیا۔ اس کی ہدایت پر اس کے گھر والوں کو اس حقیقت سے بے خبر رکھا گیا۔ وہ ادھر دو ہفتوں تک رہا اس کی صحت بحال ہونا شروع ہو گئی سب نے سکھ کا سانس لیا۔ اسے چند دن مزیدادھر روکا گیا ۔ پھر اسے اس کی رہائش گاہ منتقل کر دیا گیا۔ چند مفید احتیاطوں اور تجاویز کے ساتھ گھر میں اس کا ایک خدمت گار پہلے سے موجود تھا۔ وہ ادھر گیا۔ گھر والوں کو بھی اطلاع دی گئیمگر وہ نہیں آ سکتے تھے ہاں فون پر ان کی بات ہوئی ملاقات ہوئی
اس کی منگیتر جو اسی شہر میں رہتی تھی وہ بھی اس سے ملنے آئی۔ وہ اپنے فیس ماسک اور دستانوں سے لیس ہوکر آئی تھی اور سخت غصے میں تھی۔ میں نے تمہیں اتنے فون کیے ۔ تم نے میری ایک کال کا بھی جواب نہیں دیا۔ میں بہت مصروف تھا اور تھکا ہوا تھا وہ بڑا ہولناک ماحول تھا پھر میں خود اس وائرس کا شکار ہو گیا تم سے بات کرنا ممکن نہ تھا۔ پھر بھی پھر بھی وہ بڑبڑاتی رہی۔ لڑکی کی ماں بھی ناراض تھی۔ وہ تھوڑی دیر بعد اس سے مخصوص فاصلہ رکھ کر بیٹھنے کے بعد اٹھ گئیں۔ اب ہم چلتی ہیں۔ خدمتگار نے کہا بی بی آپ کو یہاں صاحب کے پاس رکنا چاہیے نہایت لاغر اور بے بس ہیں۔ انہیں آپ کی مدد کی ضرورت ہو گی۔ لڑکے کی ماں بولی ایسا کیسے ہو سکتا ہے ابھی تو منگنی ہوئی ہے کوئی نکاح نہیں ہوا کہ اسے یہاں چھوڑ دیا جائے۔ نوکر نے کہا بیگم صاحبہ خود میں بھی تو ان کے قریب ہی موجود رہوں گا 11۔ بی بی کے یہاں رہنے سے ڈاکٹر صاحب کا حوصلہ بڑھے گا جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔ اب کے لڑکی بول پڑی ۔۔۔۔ میں یہاں اس کے پاس نہیں رہ سکتی۔ ڈاکٹر توقیر نےآہستہ سے کہا، ۔۔۔لیکن تمہیں تو مجھ سے محبت ہے۔۔۔۔ پہلے تھی اب نہیں۔ اس نے سپاٹ لہجے میں کہا ایک کروناایفکٹڈ بندے کے پاس میرا کیا کام اور وہ چلی گئی۔ تین ہفتوں کے بعد ڈاکٹر توقیر مکمل طور پر رو بصحت ہو گیا تو وہ اپنی اماں صاحبہ کے ساتھ آئی ۔ اماں نے کہا ۔۔۔۔ نیک کام میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔ اپنے ابا، اماں سے کہو کہ وہ یہاں آ جایں۔ اگر نہیں تو پھر بھی ہم تم دونوں کا نکاح کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر توقیر نے کہا مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کی یہ بات نہیں مان سکتا۔۔۔۔ لڑکی بولی ۔۔۔۔ کیوں تمہیں تو مجھ سے محبت ہے۔۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا، پہلے تھی۔ اب نہں۔