سلطنت ( ایلچی ) ۔۔۔ محمود احمد قاضی
سلطنت
محمود احمد قاضی ایک کہنہ مشق اور منجھے ہوئے لکھاری ہیں۔ کہانی ان کے خون میں رچی ہو ئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’’کہانی جبر کو نہیں ،صبر کو مانتی ہے۔ میں جیسی بھی کہانی لکھ رہا ہوں، اسے میں ہی لکھتا ہوں۔ کہانی مجھے ہرگز نہیں لکھتی۔‘‘ ’’سلطنت‘‘ محمود احمد قاضی کے افسانوں کامجموعہ ہے، جس میں اُن کی 18 کہانیاں شامل کی گئی ہیں۔دلچسپ طور پر ہر کہانی ایک کردار کے احوال پر مشتمل ہے جیسا کہ بادشاہ، دربان، غلام، مسخرہ، ایلچی، مؤرخ، بہروپیا، مکینک، بازی گر وغیرہ۔
ادارہ پینسلپس کی کوشش ہے کہ، اپنے قاری کے لئے ہر شمارے میں ایک کہانی شامل کرے۔۔۔۔ ۔بادشاہ، شہزادی، کنیز، دربان، غلام، جلاد، مسخرہ، خواجہ سرا کے بعد اس ہفتے کی کہانی:
ایلچی
اس کے بارے میں کئی باتیں مشہور تھیں اور ان میں سے ایک یہ تھی کہ اسے آج تک کسی نے سوتے ہوئے نہیں دیکھا تھا. تھی تو یہ انہونی بات مگر لوگوں کے بیان کے مطابق اتنی ہی سچی تھی جتنی سورج کی روشنی یا پھر رات کی سیاہی. اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ شایدبچپن ہی سے اس کے پاوں میں چکر تھا اور تب سے اب تک وہ مسلسل چل رہا تھا اسے ہمیشہ مسافرت ہی میں دیکھا گیا تھا اوراس کی ذات سے نتھی ایک اور کہانی بھی زبان زد عام تھی کہ وہ راز کو ایک امانت کی طرح سینے میں پالے رکھتا تھا. ایک بات جو اس تک پہنچ گئی، کوئی ایسا پیغام جو اس نے موصول کر لیا اور وہ دوسروں کو بتانے والا نہیں تو لاکھ جتن کے باوجود اب وہ سوائے اس کے اصل حقدار کے کوئی اور اگلوا نہیں سکتا تھا. تو یہ وہ چند باتیں تھیں جو بادشاہ کے اس خاص ایلچی کے متعلق خاصی مشہور ہوچکی تھیں. اس کا باپ جو ایک معمولی لکڑہارا تھا اپنے بیٹے کے متعلق ایسی باتٰن سن سن کر خوش ہوتا تھااس کے بیٹے کی ذات کا فخر اس کی لاٹھی بن کر اس کے ساتھ ساتھ چلتا تھا. جب وہ شادی کرکے بیوی گھر لایا تو اس کی بیوی البتہ ان باتوں کو سن کر زیادہ خوش نہیں ہوئی تھی انہی باتوں یا اس کی اس مشہوری کی وجہ سے ہی اس کی ساری زندگی اجیرن رہی۔ اور وہ ٹھنڈی سانسوں کے ساتھ زندگی بتاتی رہی. جب وہ ایک بچی کا باپ بن گیا تو بھی اس کے معمولات میں کوئی فرق نہ آیا یہ ضرور ہوا کہ اب وہ گھر کی طرف کھنچتا چلا جاتا تھا اور جو وقت بھی ا سے میسر آتا بچی کے ساتھ ہنستے کھیلتے میں گزارتا مگر اس کے کان دروازے پر ہونے والی دستک پر لگے رہتے ۔۔۔۔۔ پتہ نہیں کب بلاواآجائے۔.
اس صبح بھی جب بادشاہ کا پیغاماس تک پہنچا تو اس نے جلدی سے لباس بدلا پہلو میں تلوار لٹکائی ، سر پر دستار سجائی اور نکلا چلا گیا. حسب معمول بادشاہ نے اسے ایک خاص مہم پر بھیجنے کے لیے بلایا تھا نہایت رازداری سے ملفوف پیغام اسے دیا گیا جو اس نے اپنی کمر کے گرد بنی پیٹی میں اڑس لیا اور پھر بادشاہ کی ڈیوڑھی میں تازہ دم کھڑے اپنے گھوڑے کی طرف بڑھا اس نے گھوڑے کی پیٹھ پر تھپکی دی تو سفید گھوڑا ہنہنایا ۔وہ لپک کر اس کی پیٹھ پر سوار ہوا اور پھر گھوڑے کو ہوا ہوتے دیکھا گیا. کئی دنوں کی لمبی مسافت کے دوران دریا ندی نالے پار کرتا مختلف جگہوں پر رات دن بتاتا بڑھتا دوسری مملکت کی حدود میں جا پہنچا تو رات سر پر تھی اور شہر کا دروازہ بند ہو چکا تھا۔ اس نے رات سرائے میں پڑاؤ کیا لوگوں نے اسے ساری رات جاگتے اور بے قراری سے ٹہلتے ہوئے دیکھا ہر دم اس کا ہاتھ کمر پر بندھی بیٹی پر رہا. صبح کے دھندلکے میں سورج طلوع ہونے سے پہلے وہ پیغام اصل مقام تک پہنچا کر وہاں سے جوابی پیغام وصول کرکے گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہوا اور جلد ہی اسے دھول کے غبار میں گم ہوتے دیکھا گیا. پھر وہی مسافت….. سفر کی صعوبتیں.. دن میں سورج کی گرمی اور رات میں رات کی سیاہی اسے نگلتی رہی. مختلف بڑاؤ آتے رہے گھوڑے کو تازہ دم کرتا اور اپنے پیٹ کے دوزخ کو بھرتا وہ رواں دواں رہا اور پھر واپس اپنی مملکت کی راجدھانی کے صدر دروازے پر اس کی آمد کی اطلاع کے ساتھ ہی دروازہ اس کے لئے کھل گیا. پیغام بادشاہ تک پہنچا کر گھر پہنچا تو اس کے ہاتھ میں ایک پوٹلی تھی جس میں اسکی بچی کے لئے مٹھائی اور مٹی کےبنے رنگین کھلونے تھے، البتہ اسی پوٹلی میں راستے کی مٹی دھول میں اٹی، پوری نہ ہوسکنے والی خواہشات بھی تھیں کہ اپنی بچی کےارمان پورے نہ کر سکنے پر اسے کچھ مزید نے جھوٹ از بر کرنا تھے بیوی کی ناراض نظروں کا سامنا کرنا تھا اور ایک بار پھر، کل یا شاید آج ہی بلکہ ابھی واپسی کے لئے مڑنا تھا کہ شاید ابھی ایک اور سفر اسے اپنی طرف بلانے کو تھا ۔ یوں دن کو رات کرتے اور رات کو دن کرتے اس نے دیس دیس کی سیر کی ملک ملک کی خاک چھانی ان گنت جہر وں کو شمار کرنے کی کوشش ان کے دکھ درد سنے انکے خوشی سے لبریز قہقہے سنے ۔ داستان گویوں کی داستانیں سنیں۔وہ فقیروں اور سنیاسیوں کے ٹولے میں بیٹھا۔ طوائفوں کی اداؤں سے اس نے اپنا دل لبھایا اور شریف زادیوں کی گھٹی گھٹی سسکیاں اور آہیں بھی اس نے سنیں ۔ اس نے محبتوں کو سر بازار رسوا ہوتے اور شرفا کو زمین چاٹتے دیکھا۔
رذیلوں کی مکاریاں اور سازشیں اس کے سامنے تھیں۔ وہ ان سب کا گواہ تھا اس کے پاس تمام چمکیلے دنوں اور کڑوی کسیلی راتوں کا ریکارڈ تھا وہ سب کچھ دیکھتا سنتا مگر بہت کم بولتا اور یوں راز…. بے شمار راز ایک غیر رقم شدہ تاریخ بن کر اس کے سینے کے سمندر میں اتر گئے. وقت اپنی تمام تر سفاکی اور شقاوت کے ساتھ اس کے اندر سے ہوکر گزرتا رہا. جب بھی وقت آن پڑا تو رازداری کا فریضہ اسے ہی سونپا گیا وہ اپنے اس کام سے خوش بھی تھا مگر کبھی کبھی اسے اپنا گھر اور اس کا آنگن اور اپنی جوان ھوتی بچی کی امنگیں گھوڑے کی پیٹھ پر آ گھیرتیں تو وہ دل مسوس کر رہ جاتا اس کی آنکھوں کے کو نے بھیگ جاتے اور وہ ایک آہ بھرتا ، مگر سفر…. وہ تو اسے ہر حال میں جاری رکھنا تھا اور راتوں کو جاگنا اس کا معمول تھا کہ راز کی حفاظت اس کی نیند سے افضل ہے. نیند کی جگہ فرض کی ادائیگی نے اس کی آنکھوں میں بسیرا کر لیا تھا اس لیے نیند رانی آتی بھی تو روٹھ کر پاوں پٹختی چلی جاتی اور یوں نیند سے اس کی دوستی کبھی نہ ہو سکی اور اس لئے اگر اس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ ا سے کسی نے سوتے ہوئے نہیں دیکھا تو یہ ایسا ہی سچ تھا جیسے کہ شام کو آسمان پر نمودار ہونے والا پہلا ستارہ ایک سچ تھا. یا جیسے چاند کا گھٹنا بڑھنا…. زمین کا سورج کے گرد گردش کرنا. رات کا پیدا ہونا… موسموں کا بدلنا.. بری بات پر لوگوں کا غصہ کرنا..اچھی بات پر خوش ہونا… ایک معشوق کا اپنے عاشق کے لیے اندھے کنوئیں میں کود کر جان دے دینا. یا اپنی بیٹی کا اسے کبھی کبھار گھر میں موجود پاکر خوشی سے دوہرے ہو جانا سچ تھا۔ ہاں کبھی کبھی وہ گھبرا ضرور جاتا تھا ویسے اسے اس گھبراہٹ کے معنی نہیں معلوم تھے۔ بس وہ بیٹھے بیٹھے لیٹے لیٹے. کسی الاو کے پاس ایک لمحے کے لیے اونگھتے اونگھتے.. سماوار میں کھولتے پانی سے بنتی بھاپ کے قریب اپنا چہرہ لاتے لاتے اور کمر کے گرد بندھی پیٹی میں اڑسے ہوئے راز کی پوٹلی کو تھپکتے تھپکتے یوں ہی گھبرا جاتا تھا اور پھر اس کا دل گھر لوٹنے کو چاہتا کیونکہ ایسی گھبراہٹ اسے ہمیشہ گھر سے دوری اور مسافرت کے وقت ہی ہوتی تھی۔مگر اس کے لئے جلد گھر لوٹنا ہمیشہ ہی ناممکن رہا تھا۔ اس نے اس لایعنی ہنگامے سے اکتا کر جب بھی اپنے جسم پر جمی کو اتار پھینکنےکا عزم کیا اور چاند یوم کی رخصت چاہی تو ہمیشہ اسکی درخواست رد کر دی گئی اوراسے کسی نئے مشن پر…. نئے سفر پرروا نہ ہونے کا حکم ملا۔
زمانہ یونہی دھیرے دھیرے بیتتا رہا۔ وقت اپنی چال چلتا رہا اور وہ اس جال کے ساتھ چلتا رہا.. وقت کی گرد میں گرد ہوتا رہا اسے یوں سے لگتا کہ وہ خود تو شاید وقت سے باہر ہیں کہیں اٹک گیا تھا۔ اس کا وجود اس کی سانسیں ، خواہشات، دم لینے کا خیال، کہیں رکنے کا تسلی سے بیٹھنے، آرام سے بیوی کے پاس لیٹنے ،اس کے گرم بوسوں کا سواد پالینے اور بچی کی ہنسی کی آواز سننے سےپہلے پہلے اسکا سب کچھ داؤ پر لگ چکا ہوتا تھا ۔ شاید وہ کوئی ایسا کردار تھا جسے زندگی کی سٹیج پردوسروں کی زندگی کی عکاسی کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ مگر اسکی اپنی زندگی کہاں تھی ؟ وہ جب بھی اپنی? و جبیں گم شدہ زندگی کو پا لینے کی کوشش کرتا تو کوئی نہ کوئی روڑا پتھر اس کی راہ میں حائل ہو جاتا وہ جب بھی ایسی کسی رکاوٹ کو عبور کرنے کی کوشش کرتا تو واپس اپنے تھکن سے چور وجود کی دیوار تلےہی پناہ لینے پر مجبور ہو جاتا۔ .
اب اپنے کام سے ریٹائرمنٹ لینے کی خواہش اس کے اندر بہت تیزی سے بھڑکنے لگی تھی اس کی بار بار کی تکرار اور بک بک سن کر نانہہ نانہہ ہی کہا جاتا البتہ اب اسے کہیں بھیجنے سے پہلے یہ ضرور کہا جاتا تھا… آخری بار… یہ آخری مشن ہوگا… مگر ہمیشہ ہی ٹال مٹول سے کام لیا گیا. اوپر سے احکامات آتے اور وہ پھر دھر لیا جاتا۔
اب کی بار جب وہ واپسی کے لیے مڑا تو اس نے جی میں ٹھان لی تھی کہ خواہ کچھ ہوجائے اب وہ اپنے سفید ہوتے بالوں، کبڑی ہوتی بیوی اور دھریک کی طرح جوان ہوکر بے ثمر جنڈ کریر میں تبدیل ہوتی اپنی بچی کا واسطہ دے کر ہمیشہ کے لئے اس پیشے سے جان چھڑا لے گا۔ مگر برا ہو آس کتے بخارکا جس نے اسے سے راستے ہی میں اچانک اس قہوہ خانے کے باہر دبوچ لیا تھا. قہوہ خانے کے نوکر چھوکرے نے اس شاہی ایلچی کو اپنے سامنے پتھر بنے دیکھا تو وہ اس کے بخار کی بھٹی میں جلتے جسم کو سہارا دے کر اندر لے آیا تھا قہوہ خانے کے کچے فرش پر بچھی بوسیدہ چٹائی بادشاہ کے اس خاص ایلچی کے شایان شان تو نہیں تھی مگر مجبوری کے تحت اسے وہیں لٹا دیا گیا اور ایک تکیہ اس کے سر کے نیچے دے دیا گیا. اب وہ وہاں بڑا یوں کرا ہتا تھا اس کی دستار اور تلوار بھی قریب رکھ دی گئی تھی۔ غنودگی کے عالم میں بھی اسکا ایک ہاتھ اپنی کمر کے گرد بندھی بیٹی پر تھا نوکر چھوکرا سوتی کپڑے کا ایک ٹکڑا پانی میں بھگو بھگو کر اس کے ماتھے پر رکھتا تھا مگر بخار اترنے کا نام ہی نہ لیتا تھا اور پھر وہ ہاتھ پیر پٹخنے لگا اور ہذیان بکنے لگا۔.
” ارے کوئی ہے تو سنو. میں آج ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔ کہ میرے متعلق آج تک جو قصے کہانیاں مشہور رہی ہیں. وہ جھوٹ کا پلندہ ہیں. میں کوئی سورما ہرگز نہیں. ایک نکما اور بزدل شخص ہوں۔ بس مجھے سچاہونے امین ہونے کا عارضہ لاحق ہے۔ بادشاہ کے بہترین نمک خوار کی کلغیسر پر سجانے کے شوق میں میں نے بے شمار نالے اور دریا عبور کر ڈالے میں کئی بار دو رویہ درختوں کے درمیانگھری تنگ گزرگاہوں سے گزرا۔ میں نے کئی بادشاہوں کے ٹھنڈے چشموں کے پانی سے اپنے آپ کو سراب کیا میں نے اس دوران سینکڑوں ہزاروں جھوٹے سچے قصے سنے۔ میں نے رنگ برنگی چڑیایئں، فاختایئں، بلبل کبوتر اور عقاب دیکھےفقیر کی گپھا دیکھی۔ میں نے محبت کرنے والے دل کو ٹوٹتے دیکھا. فقیر کی صدا کو بکھرتے اور ظالم کی سزا کے کوڑے کو برستے دیکھا میں نے پرتشدد طریقے سے زنا بالجبر کا شکار ہونے والی نابالغ لڑکی کو پاگل ہوتے انصاف کو خاک میں روتے دیکھا.. میں نے بےجرم لوگوں کو پھانسی چڑھتے اور مسخروں کے سر پر تاج شاہانہ دیکھا میں نے نٹ، بازیگر. شاعر، حکیم اور فصد کھولنے والوں کو دیکھا میں نے بے تحاشا. ہنسنے والی کنجری اور روح میں اتر جانے والی آواز میں گانے والی مغنیہ کو دیکھا میں نے ادھل جانے والی عورت کو اپنے سر میں خاک ڈالتےاور اغواکرتے والے کو مول تول کرتے دیکھا۔ میں نے زندگی سے بغاوت نہ کرنے والے نامرد کو دیکھا. ناکارہ لولا لنجا نطفہ ٹھہرانے والے مکار بوڑھوں کو بھی میں نے دیکھا. میں نے اپنے آپ میں مرتی بوسیدہ ہوتے حسن کی سرانڈ سونگھتی اونگھتی نائکہ دیکھی. میں نے خربوزے اور تربوز لاد کر لے جانے والے چھکڑا بان بچے کو دیکھا. بیل گاڑی میں جتے بیل کے لہو لہان کوہان کا گاڑھا گندہ مواد اور اس پر منڈلاتی بھنکتی مکھیاں بھی میری نظروں میں آئیں. میں نے اس بیل گاڑی کے نیچے مسلسل چلتے رہنے والے کتے کو دیکھا۔۔۔۔ میں نے بارہ من کی دھوبن تو نہیں دیکھی مگر میں نے دھوبی گھاٹ پر چھو چھو کی آواز منہ سے نکال کر کپڑے پٹختا دھوبی ضرور دیکھا مگر دھوبی کا وہ کتا میری نگاہوں میں آنے سے رہ گیا جو نہ گھر کا ہوتا ہے نہ گھاٹ کا ہوتا ہے، شاید اس لیےکہ وہ میں تھا۔”
” ارے کوئی ادر ہے تو وہ رک کر ٹھہر کر سنے ۔۔۔۔ میری اس ” بکواس ” کوسنے کہ اس لمبی مسافرت کے دوران میں نے فیل ڈ وباو گھاس کے کئی سمندر عبور کئے۔ میں نے چٹیل میدان لق دق صحرا اور. جنگل پار کئے۔ میں نے اس دوران تاریخ کو ذبح ہوتے دیکھا.تاریخ کی کتابوں کو کترنے والے چوہے بھی دیکھے۔ میں نے بھیڑوں کو ہنکانے والے.ہش ہش کرتے گڈریے دیکھے اور پھر بھیڑیوں کی یلغار کے سامنے میمنوں کو ممیاتے دیکھا۔ میں اوڈھ عورتوں کی اپنے مردوں کے ساتھ پر اعتماد ہمبستری کا بھی گواہ ہوں۔ میں نے حماموں کی گرم فضا میں تیرتے ٹھنڈے میٹھے، ترش اور کسی قدر فحش لطیفے بھی سنے ہیں۔. میں نے طبلے کی تھاپ پر رقص کرتے رقاص دیکھے ہیں میں نے لڑکیوں کوکیکلی ڈالتے ،لکن میٹی کھیلتے اورلڑکوں کو باندر کلا، شٹاپواور پٹھو گول گرم کھیلتے ہوئے دیکھا ہے. میں چشم دید گواہ ہوں محلسراؤں کی سرگوشیوں اور سازشوں کے بھیدی خواجہ سراوں کا۔۔۔ مجھے یہ راز بھی معلوم ہے کہ ہمارے بادشاہ کے مثانےمیں پتھری ہے اور پیشاب کرنے. میں اسے بہت دقت ہوتی ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ بادشاہ اپنی گئی گزری قوت مردمی کوشاہی طبیبوں کی معجونوں اور کشتوں کی بھینٹ چڑھا رہا ہے۔ ہیں میں یہ بھی جانتا ہوں کہ.. بوڑھا وزیراعظم اپنے پرانے دمے اور اکھڑتی سانسوں کو ہلکی سی مصنوعی کھانسی کے پیچھے چھپانےکی ناکام کوشش میں لگا رہتا ہےاور باقی تمام وزیر مشیر امیر کبیر مصاحب درباری اور مسخرے. یہ سارے لوگ خود کو خواص کہلوانے کے موذی مرض میں مبتلا ہں۔ “
” بھلے لوگو سن رہے ہو تو سنو کہ میں جو اپنے آپ کو بادشاہ کا خاص ایلچی کہلواتا ہوں. اپنی تاریخ کا ایک بزدل گواہ ہوں۔۔۔۔ میں سب کچھ دیکھتا ہوں سنتا ہوں مگر سچ یہی ہے کہ تاریخ یوں ہی لوگوں کا مذاق نہیںاڑاتی بلکہ اس کے لئے خود.اس وقت کےکردار ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔”
وہ اپنے خشک ہوتے ہونٹوں تو پر زبان پھیرتا ہے اور وہ بڑبڑاتا ہے
.. ” لوگو ! . تاریخ کو گالیاں نہ دو ۔ وہ تو تمھاری جڑواں بہن ہے وہ تو تمہارے اپنے ہی اچھے برے اعمال کا گوشوارہ ہے..” اس کا بخار کا زور بھی ٹوٹا نہیں تھا وہ کر بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے
.
نوکر چھوکرا اسے کندھوں سے پکڑ کر دوبارہ لٹانے کی کوشش کرتا ہے… چھوڑو……ہٹو ۔۔۔ میں رہائی چاہتا ہوں. وہ ہذیان بکے چلا جاتا ہے
اسی لمحے. زمین پر اتر تی رات کی سیاہی میں دو سایے اپنے گھوڑوں کی طرف بڑھتے اور پھر راجدھانی کی طرف اڑے چلے جاتے دیکھے گئے تھے۔
صبح بخار اترنے پر جب وہ واپس بادشاہ کی ڈیوڑھی پر پہنچا تو گھوڑے کی پیٹھ سے نیچے آنے سے پہلے وہ فرمان پڑھ کر سنایا گیا جس میں درج تھا
” حالانکہ کے بادشاہی کو اعتراف ہے کہ مذکورہایلچی نے پچھلے پینتیس سال میں اپنے فرض کی بجاآوری نہایت احسن طریقے سے انجام دی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس دیرینہ خادم سے ان تمام سالوں میں ایک ایسی بھول چوک یا فرو گذآشت بھی ہو چکی ہے جس کی بناء پر بادشاہی کو نقصان کا اندیشہ لاحق ہونے کو تھا۔
مثلا ایک باردوسری بادشاہی میں اس کے پیغام کو ایک پہر دیر سے پہنچانے پر جنگ ٹل گئی تھی اور دشمن صلح کے لئے آمادہ ہوگیا تھا جبکہ شاہی ہر قیمت پر جنگ کرکے دشمن کو سزا دینا چاہتی تھی۔
اس دوران ایک بار ۔۔۔ ہاں ایک بار ہی سہی حکم عدولی کرتے ہوئے اور اپنے وعدے کا پاس نہ کرتے ہوئے ایک خفیہ پیغام کو پڑھنے کی ناکام کوشش کی.اور یوں وہ فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کا مرتکب ٹھہرا۔ ایک تیسرے موقع پر مخبر کی اطلاع کے مطابق وہ سفر کرتے کرتےاپنے گھوڑے کی پیٹھ پر ہی اونگھنے لگا تھا۔ ان تمام الزامات کی سچائی چونکہ روز روشن کی طرح عیاں ہے بادشاہی یہ فرمان جاری کرتی ہے کہ مذکورہ شخص کو نااہل گردانتے ہوئے اس کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے اسے فی الفورملازمت سے برخاست کرتی ہے۔
دیکھنے والی آنکھوں نے دیکھا کہ شخص مذکورہ نے نہایت تحمل اور بردباری سے فرمان کو سنا اور گھوڑے کی پیٹھ پر اسی آسن میں بیٹھے بیٹھے خاموشی سے مر گیا۔