سلطنت ( کنیز ) ۔۔۔ محمود احمد قاضی
سلطنت
محمود احمد قاضی ایک کہنہ مشق اور منجھے ہوئے لکھاری ہیں۔ کہانی ان کے خون میں رچی ہو ئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’’کہانی جبر کو نہیں ،صبر کو مانتی ہے۔ میں جیسی بھی کہانی لکھ رہا ہوں، اسے میں ہی لکھتا ہوں۔ کہانی مجھے ہرگز نہیں لکھتی۔‘‘ ’’سلطنت‘‘ محمود احمد قاضی کے افسانوں کامجموعہ ہے، جس میں اُن کی 18 کہانیاں شامل کی گئی ہیں۔دلچسپ طور پر ہر کہانی ایک کردار کے احوال پر مشتمل ہے جیسا کہ بادشاہ، شہزادی، کنیز،دربان، غلام، مسخرہ، ایلچی، مؤرخ، بہروپیا، مکینک، بازی گر وغیرہ۔
ادارہ پینسلپس کی کوشش ہے کہ، اپنے قاری کے لئے ہر شمارے میں ایک کہانی شامل کی جائے۔
کنیز
ساری رات کا جگراتا ایک نہ سنبھالے جانے والی شدید قسم کی اونگھ کی صورت میں شہزادے کی آنکھوں میں امڈ آیا تھا اس لیے وہ اس صبح کی پاکیزہ اور معطر ہوا کے جھونکوں کے ساتھ اپنی اونٹنی پر سوار لڑھکے جاتا تھا ۔شہزادہ اس وقت اپنے ملک سے باہر ایک دوسرے ملک کی حدود میں تھا۔ وہ رات کو آوارہ گردی کی عادت سے مجبور ہوکر اکیلا ہی نکل پڑا تھا اور عین اس لمحے جب اس کی اونٹنی بھی تھکن سے چور ہوکر اس نقرئی جھروکوں والےنہایت خوبصورت محل کے سامنے سے گزر رہی تھی تو اوپر سے کسی نے اس پر موتیے کا ایک باسی پھول پھینک دیا۔ وہ اپنے ماتھے تک ہاتھ لے جاتے ہوئے اوپر دیکھنے لگا۔ جھرو کے کے جھل مل کرتے مہین پردے سے لگا ایک نہایت حسین چہرہ اس کی جانب حیرانی اور شرمندگی کے ساتھ دیکھے جا رہا تھا۔ شہزادہ کود کر اونٹنی سے نیچے آیا اور زمین پر پڑے اس پھول کو ہاتھ میں لے کر بھینچنے لگا۔ انہیں بے چین اور مضطرب لمحوں کے دوران جب اس نے دوبارہ جھروکے کی طرف دیکھا توچہرے کا وہ تروتازہ پھول اپنی جھلک دکھا کر پردے کے پیچھے غائب ہوچکا تھا۔ لیکن شہزادے کا سارا قرار اور چین بھی اپنے ساتھ ہی لے گیا تھا۔ شہزادہ کچھ دیر تک بے قراری سے محل کے سامنے ٹہلتا رہا۔ ایک لمحے کے لئے شہزادے نے یہ بھی سوچا کہ محل کے دروازے پر اونگھنے والے دربان کو جگا کر اس واقعے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرے لیکن پھر فوراً ہی اپنے رتبے اور اجنبی مملکت کے قوانین سے ناواقفیت کی بنا پر اس نے ایسا کرنے سے گریز کرتے ہوئے اس محل سے پیچھے ہٹنے کو ترجیح دی۔ ویسے بھی اس وقت تک کوئی کوئی راہگیر ادھر کا رخ کرنے لگا تھا ۔اس لئے بھی شہزادے نے تماشہ بننے کی بجائے ادھرسے ٹلنے ہی میں عافیت سمجھی لیکن اس کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے پیش نظر اب چونکہ اس کی واپسی ناممکن سی ہوئی جاتی تھی اس لئے وہ اس محل کے سامنے والی ایک صاف ستھری سرائے میں جا ٹھہرا۔
یہاں اس نے اپنی اصل شخصیت ظاہر نہیں کی تھی۔ شہزادہ اپنی اصل حیثیت کو چھپائے سرائے میں تین دن تک ٹھہرا رہا۔ اس دوران اس نے یہاں کی خوب سیر کرلی تھی۔ یہاں کے بازفراخ، خوراک صاف ستھری اور اشیاء خوردونوش اور دوسری قسم کی اشیا سے لدے پھندےتھے۔ لوگ باگ دھیمے مزاج والے تھے اور ملنسار تھے محلات والا علاقہ زیادہ پرسکون اور روشن روشن تھا اور یہیں وہ محل بھی تھا جسکی نامراد چوکھٹ پر وہ دن دھاڑے اپنا سکون لٹا بیٹھا تھا۔ ایک ملکوتی اور جادوئی لمحے کے بعد اسے دوبارہ اس چہرے کی جھلک دکھائی نہ دی تھی اور اسی لئے اسکی بے چینی عروج پر تھی۔ شام کو وہ اپنا دھیان بٹانے کے لئے قریب ہی بہنے والے دریا پر چلا جاتا۔ وہاں گھاٹ پر لوگوں کا ایک ہجوم ہوتا۔ لگتا تھا کہ سب لوگ اس وقت گھروں سے نکل کر دریا ہی ک رخ کرتے تھے۔ ان ہی میں امراء کے خاندان بھی ہوتے وہ سب سجی سجائی کشتیوں اور بجروں میں دریا کی سیر کا لطف اٹھاتے۔ وہ بھی روزانہ ایک بجرا کرائے پر حاصل کر کے دریا کی ٹھنڈی موجوں کے حسن میں مگن ہو جاتا اور یوں چوتھے روز وہ شام بھی آئی جب ایک بار پھر اس نے پوش اڑانے والے وجود کو دیکھا۔ یہ ایک شاہی بجرا تھا اور لوگوں کو اس سے دور رہنے کا حکم دیا جا رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ یہاں کی شہزادی کا بجرا تھا تو کیا اس کا سکون غارت کرنے والی یہاں کی شہزادی تھی۔ اپنے آپ سے صرف یہی سوال کرسکتا تھا کیونکہ سرعام کوئی اور حرکت کرنا نہ صرف معیوب تھا بلکہ اس کے اپنے منصب اور حیثیت کے بھی منافی تھا۔ یوں اس شام کو کچھ زیادہ ہی مایوس ہوکر لوٹا۔ اب اس کی کرید بڑھ رہی تھی لیکن حقیقت کی تہہ تک پہنچنے میں اسے دیر لگ رہی تھی اور یہ ا سے منظور نہ تھا۔
کامیابی کی کوئی صورت نہ نکلتے دیکھ کر شہزادے نے عام کپڑوں میں ملبوس ہوکر محل کے دربان سے جان پہچان کی ٹھانی۔ یہ تدبیر کارگر ثابت ہوئی کہ چند سکوں کے عوض وہ دربان اندر کی خبر لانے پر رضامند ہوگیا۔ پھر جو خبر دربان اس کے لئے لایا وہ اس کے لئے حیران کن ضرور تھی لیکن پریشان کن نہیں تھی۔کیونکہ یہ دل کا معاملہ تھا۔ اس دربان کی اطلاع کے مطابق گرایا جانے والا موتیے کا باسی پھول شہزادی کا نہیں بلکہ اس کی کنیز کا تھا۔ یہ پھول اسی نے اپنے بالوں میں اڑس رکھا تھا اگر یہاں شہزادہ اپنی شہزادی کو مدنظر رکھتا تو اسی روز اپنے ملک واپس ہوجاتا لیکن نہیں۔ اس نے اپنا ارادہ بدل کر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا اور مزید سکوں کی چملک دکھا کر دربان کے ہاتھ رقعہ پہنچانے میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے اس تحریر کے ذریعے شہزادی سے استدعا کی تھی کہ وہ اس کی کنیز سے عقد کرنے کا ارادہ رکھتا تھا اور اس کے لیے جوابا جو پیغام آیا وہ شہزادے کے سٹپٹانے کے لئے کافی تھا۔ پرچے میں درج تھا، ” کہ وہ یہاں کے رواجوں سے ناواقفیت کی بناء پر ایک بڑی غلطی کا مرتکب ہو رہا تھا۔ اصل یں اس کنیز سے عقد صرف اسی صورت میں ہو سکتا تھا کہ وہ اعلانیہ بولی میں قیمت لگائے اور اگر قسمت یاوری کرے تو کنیز اسکی ہوجائے گی ورنہ۔۔۔”
شہزاد نے رواج کے مطابق قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ گھر ایک ہرکارہ اپنی سلطنت میں بھجوا کر اس نے رقم کا بندوبست کیا اور بولی کے دن کا انتظار کرنے لگا ۔شہزادہ اب اپنی حیثیت کے مطابق ایک شاہی سرائے میں منتقل ہوچکا تھا۔اسے اب یہاں ایک مہمان کی حیثیت بھی حاصل تھی اور مصاحبوں وغیرہ کی سہولت بھی مہیا کی جا چکی تھی۔ وہ دن رات بتاتے انتظار کھینچتا رہا۔ آخر دن اور راتوں کے طویل فاصلے درمیان میں سے ہٹے اور وہ گھڑی آ پہنچی۔ ڈھنڈورا پیٹا گیا اور بولی لگنے لگی۔
ہر خاص و عام اس بولی میں حصہ لے سکتا تھا لیکن بولی میں حصہ لینے والے زیادہ تر خواص ہی تھے امراء کے نوجوان شوخ اور کھلنڈرے لونڈے سکوں سے بھریتھیلیاں لئے بڑے چوک میں جمع تھے۔ بولی ہوتی رہی بھاؤ بڑھتا رہا اور بولی شام کو کسی نتیجے پر پہنچے بغیر بند ہوگی۔ رواج کے مطابق پولی تین دن تک دی جاسکتی تھی اور قیمت کا تعین کنیز پر منحصر تھا کہجسے وہ چاہے منظور کرے۔ بھاو کم یا زیادہ ہونے سے زیادہ اس میں کنیز کے رضامند ہونے کا زیادہ عنصر تھا اس لیے یہ ایک طرح کا وہ کھیل تھا جس میں کامیابی محض اور محض سکوں کی زیادہ مقدار پر نہ تھی۔دوسرے دن دلچسپی اپنے عروج پر تھی ۔ بولی کی حد اور بھی بڑھ گئی مگر اس دن بھی شام کو نتیجہ وہی رہا یعنی صفر۔۔۔۔ کنیز نے کسیبولی کی منظوری نہیں دی تھی۔تیسرے دن شام سے ذرا پہلے جب لوگوں کا اشتیاق عروج پر تھا اور بڑھ چڑھ کر بولی دی جا رہی تھی تو ایک تھکا ہارا چڑی مار اس محل کے جھروکے کے نیچے آ پہنچا۔ بے حال معلوم کرکے ہنسا اور بولا، ” اس دو ٹکے کی کنیز کے لئے اتنا جوکھم”۔۔۔ اس کی آواز کے غرور اور لہجے کے استہزائیہ بانکپن کو محسوس کرکے سب نے اس کی گردن اور جلاد کی تلوار کے درمیان ہوتے محسوس کیا۔ مگر اسی سانپ سونگھےہوئے مجمع کی طرف نظر کر کے جب چڑیمار نے نہایت بے خوفی کے عالم میں یہ جملہ کسا کہ، “اگر میں بولی لگاؤں تو یہ ایک ٹکے کی نکلے گی ” تو سب کو معلوم ہو گیا کہ یہ جان سے گیا۔ لیکن جب جھروکے جھروکے میں بیٹھی ہوئی کنیز نے اپنی آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ اس چڑیمار کو دیکھتے ہوئے اپنا رومال اس پر گرایا تو سب دم بخود رہ گئے کہ یہ کنیز کی رضامندی کا اعلان تھا۔ اس نے اپنا پر ایک ٹکے کے عوض ج چنلیا تھا۔ یوں چڑی مار نے اپنی گرہ سے ایک ٹکے کی ادائیگی کی اور اس کنیز کا حقدار بن گیا۔ اس خوشی میں اس نے اس دن کے پکڑ ے ہوئے تمام پرندے اپنے پنجرے سے آزاد کر دیے۔ کچھ ضروری کارروائیوں کو انجام دینے کے بعد چڑیمار کا نکاح اس کنیز کے ساتھ کر دیا گیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی ہوا کہ چونکہ شہزادی نے یہ محل اپنی کنیز کے نام کر دیا تھا اس لیے اسے وہ یہ محل بخش دینے کے بعد یہاں سے کوچ کرنے والی تھی۔۔۔۔۔۔ سارے امیدوار بے نیل و مرام واپس ہوئے تو شہزادہ بھی اپنی قسمت کو کوستا ہوا سرائے کی جانب چل دیا۔
کہتے ہیں یہ رات اس راجدھانی کی سب سے زیادہ خاموش رات تھی لوگوں نے اس دوسرے ملک کے شہزادے کو جس کی وجہ سے یہ سارا ہنگامہ کھڑا ہوا تھا بے اس رات کو سرائے میں بے چینی سے ٹہلتے ہوئے پایا۔ پھر آدھی رات کے بعد اس کے فلک شگاف قہقہے سنے گئے اور یوں خبر نکلی کہ شہزادہ صدمے کو برداشت نہ کر سکا اور پاگل ہو گیا۔۔۔۔ لیکن رات ختم ہونے سے پیشتر وہ محل جس میں اس وقت وہ کنیز اور چڑیمار رہائش پذیر تھےآگ کے شعلوں میں جلتا ہوا پایا گیا۔ اگلی صبح تک محل راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ اس کا کوئی مکین زندہ نہ بچا تھا۔
استاد نے اپنا لیکچر ختم کرکے گہری سانس لی تو ایک شاگرد ج نے پوچھا
” سر ! کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ آگ کس نے لگائی تھی؟”
استاد نے پھر ایک گہری سانس لی اور کہا
” آئی ایم سوری۔۔۔۔تاریخ اسکے بارے میں با لکل خاموش ہے۔ “