افتاد ۔۔۔ مجید امجد
اُفتاد
( مجید امجد )
کوئی دوزخ، کوئی ٹھکانہ تو ہو
کوئی غم، حاصل ِ زمانہ تو ہو
لالہ و گل کی رت نہیں، نہ سہی
کچھ نہ ہو شاخ ِ آشیانہ تو ہو
کہیں لچکے بی آسمان کی ڈھال
یہ حقیقت کبھی فسانہ تو ہو
کسی بدلی کی ڈولتی چھایا
کوئی رختِ مسافرانہ تو ہو
گونجتے گھومتے جہانوں میں
کوئی آواز ِ محرمانہ تو ہو
اُس گلی سے پلٹ کے کون آئے
ہاں مگر اس گلی میں جانا تو ہو
میں سمجھتا ہوں ان سہاروں کو
پھر بھی جینے کا اک بہانا تو ہو
Facebook Comments Box