غزل ۔۔۔ مقصود وفا
غزل
مقصود وفا
یہ حقیقت ہی نہ ہوں، ھاتھ لگا کر دیکھوں
ساتھ سوئے ہوئے خوابوں کو جگا کر دیکھوں
وہم کو وہم ہی سمجھوں یا خدا کر دیکھوں
اپنے ملبے سے ذرا خود کو اُٹھا کر دیکھوں
خاک مُٹھی میں بھروں اور اُڑا کر دیکھوں
اِس خرابے میں کوئی چیز بنا کر دیکھوں
شاید اِک اور زمانہ بھی مجھے یاد آئے
یہ جو ازبر ہے ذرا اِس کو بھلا کر دیکھوں
بے وفائی بھی کروں یوں کہ تجھے یاد رہے
اور پھر بارِ محبت بھی اُٹھا کر دیکھوں
دیکھنا ہے کہ کہاں تک میں سُلگ سکتا ہوں
تیری تصویر کو کونے سے جلا کر دیکھوں
تجھ کو پلکوں پہ بٹھایا تھا، حیا مارتی ہے
ورنہ تجھ کو تو میں نظروں سے گرا کر دیکھو
Facebook Comments Box