سکوت ۔۔۔ مظہر حسین سید
سکوت
( مظہر حسین سید )
شجر
کلام کریں شہر بھی نیا ہو جائے د
میں ایک اسم پڑھوں اور معجزہ ہو جائے
یہ
لوگ فرطِ تحیّر سے مر بھی سکتے ہیں
اگر یہ خواب حقیقت میں رونما ہو جائے
گلے
ملو کہ سلامت ہیں آج ہم دونوں
کسے خبر کہ یہاں کون کب جدا ہو جائے
یہ
میں جو برملا اقبالِ عشق کرتا ہوں
عجب نہیں کہ مجھے عشق میں سزا ہو جائے
یہ
دل قیام پہ مائل ہے ان دنوں ورنہ
عصا اٹھاؤں تو دریا بھی راستہ ہو جائے
خطِ
شکستہ میں کچھ ریت پر لکھا ہوا تھا
جو میں نے غور سے دیکھا تو گھر لکھا ہوا تھا
کتابِ
زیست میں لکھا نہیں گیا مرا نام
مٹا دیا ہے کسی نے اگر لکھا ہوا تھا
خبیث
بھیڑیے شہروں میں دندناتے تھے
اور ان کی کھال پہ لفظِ بشر لکھا ہوا تھا
مکین
خواب سے جاگے ہی تھے کہ سہم گئے
ہر اک مکان کی چوکھٹ پہ ڈر لکھا ہوا تھا
وہ
جس کو لے کے مری بستیوں پہ ٹوٹ پڑے
کسی کتاب سے کچھ ڈھونڈ کر لکھا ہوا تھا
ہمارے
نام کی تختی پہ ایک دن مظہرؔ
ہمارا نام نہیں تھا شجر لکھا ہوا تھا۔