بارہ ماہ ۔۔۔ مظہر الا سلام

بارہ ماہ

مظہر الا سلام

واہ دا اے     سیویاں دا گاہ اے

اللہ بادشاہ اے چوربجھے ویندے نیں

کاغذاں دی بیڑی اے        حافظ کعبے ویندے نیں

کبوتر ملاح اے      آکھاں گا ایمان نال

حلوے دی کھبن اے کہانی سنو دھیان نال

یہ میری کہانی کا مڈھ ہے۔ جو اسی چیتر کے مہینے سے شروع ہوتی ہے۔ پھولوں کے رنگ گوہڑے ہورہے ہیں۔ گیلی ہواؤں نے اپنی سبزاوڑھنیاں پہاڑوں پر پھیلا دی ہیں۔ دریا تو ایک طرف چھوٹے چھوٹے ندی نالوں کے منہ بھی بے وقت جھاگ سے بھرے ہوئے ہیں۔ کاغذوں کی کشتیاں رواں ہیں اور کبوتر پروں میں چپو تھامے پانی چیرنے میں مصروف ہیں۔ حافظ حلوے کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور یہ چیتر کے مہینے کی ایک خوش رنگ شام ہے۔ وہ اپنے کمرے میں بیٹھا چائے پی رہا ہے کہ اچانک چائے کی پیالی میں گر جاتا ہے۔ وہ کوئی بچہ نہیں نہ ہی اس کا قد چھوٹا ہے۔ چالیس پچاس برس کا چھ فٹ لمبا آدمی چائے کی پیالی میں گر گیا۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے۔ اسے خود بھی یقین نہیں آیا کہ وہ چائے کی پیالی میں گر گیا ہے اوریہ یقین کرنے ہی میں چیتر کا مہینہ گزر گیا اور وساکھ کی پہلی صبح نے ٹھرے ہوئے گھروں میں نیم گرم انگلیاں پھیریں۔

سارا وساکھ اس کے گھر والے اسے ڈھونڈتے پھرے ۔ گلیوں بازاروں اور دیہاتوں اور پہاڑوں میں سارا وساکھ وہ بھی چائے کی پیالی سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا رہا لیکن چائے میں اتنی چینی پڑی ہوئی تھی کہ چکناہٹ کی وجہ سے بار بار اس کا پاؤں پھسل جاتا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہو گیا ہے۔ بچپن سے پچاس برس کی عمر تک اس نے ہزاروں، لاکھوں پیالیاں چائے کی پی ہوں گی لیکن یہ تواس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ ایک دن چائے پیتے پیتے چائے کی پیالی میں گر جائے گا۔ اس پیالی میں جو پورے سیٹ کے ساتھ اس نے پچھلے وساکھ میں خریدی تھی۔ اس نے پیالی میں پڑے پڑے سوچا پچھلے وساکھ میں گندم پوری طرح جوان تھی اور وہ گاؤں پہنچا تو اس کی کٹائی شروع ہو چکی تھی اور یہ بھی وساکھ کا مہینہ ہے گندم کی کٹائی شروع ہوچکی ہے لیکن سب لوگ اسے تلاش کررہے ہیں اور وہ چائے کی چھوٹی سی پیالی میں گرا ہوا ہے۔پار سال وساکھ میں اس نے جو منصوبے بنائے تھے سب دھرے رہ گئے ہیں اور اب جیٹھ کی نیم گرم ہوا لوگوں کے کوٹوں اور سوئیٹروں کے بٹن کھول رہی ہے۔

اب جیٹھ کا مہینہ ہے پورے گھر کے لوگوں نے گرم کپڑے تہہ کر کے بکسوں میں رکھنے شروع کر دیئے ہیں اور اسے ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس کی باتیں آنسو بن کر لوگوں کی آنکھوں میں تیرتی ہیں۔ بزرگ شام حقہ پیتے ہیں تو ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ پچھلے جیٹھ میں اس کی باتوں سے لگتا تھا کہ وہ ہمیں چھوڑ جائے گا اس موقع پر حقہ یونہی پڑا رہتا ہے اور کوئی واری نہیں لیتا کہ کہیں حقے کی آواز میں اس کا دل نہ بول پڑے ۔ پچھلے جیٹھ میں وہ حقے میں بھی بولتے تھے تو وہ ان کی آواز سن لیتا تھا لیکن اب جانے وہ کہاں کھو گیا ہے لیکن وہ ہے کہ چائے کی پیالی میں ہاتھ پاؤں مار رہا ہے اور جیٹھ بھی گزرتا جارہا ہے۔

ہاڑھ آیا ہے۔ سورج بکریوں کو ہانک کر پہاڑوں پر لے گیا ہے مگر وہ اس گرمی میں بھی چائے کی پیالی میں جھلس رہا ہے۔ ہاتھ پاؤں مارتا ہے لیکن تھک ہار کر گر پڑتا۔ آسمان ننگا پھررہا ہے۔ ایک پرانا کیمرہ شہر کے چوک پر رکھا ہے اور رنگ دار بارعب کپڑوں والے کیمرے پر پڑے کالے کپڑے میں ہاتھ ڈالے ایک دوسرے کی انگلیوں سے کھیل رہے ہیں۔ چرواہے کا بیٹا بوہڑ کے نیچے کہہ رہا ہے:

واہ دا اے     اللہ بادشاہ اے

کیڑیاں دودھ دیندیاں گل دا دستو ر اے

سرمے دانیاں رڑک رڑکیندیاں    اللہ جانے سچ اے کوڑ اے

دریا لسیاں دے وگدن       گل سوہنی کریسوں

آندا د ویند ا تسیا مردا اے  کوڑ زری نہ دیسوں

گل تے لگدے نیں پیے      پیسے دیواج گل سنوی سائیں

اور چرواہے کے بیٹے کی یہ بات پوری ہوتے ہی ہاڑھ کے آخری دن آجاتے ہیں۔ وہ پیالی سے نکلنے کے لیے بھر پور کوشش کرتاہے۔ لیکن سے بے بس ہو کر گر پڑتا ہے۔ چائے کے چھینٹے میز پر بکھر جاتے ہیں۔ وہ نڈھال ہو کر کوشش ترک کر دیتا ہے لیکن یہ سوچ کر کہ لوگ اسے ڈھونڈتے پھررہے ہیں پھر کوشش شروع کر دیتا ہے، آوازیں دیتا ہے لیکن چائے کے بلبلے ان آوازوں کو نگل لیتے ہیں۔ وہ پہلی تکلیفیں بھول جاتا ہے اور اسے یوں لگتا ہے جیسے وہ آج پہلی بار چائے کی پیالی میں گرا ہو۔

اب سون شروع ہوگیا ہے۔ آسمان روتا ہے۔ پہاڑوں کے گالوں پر آنسوؤں کی قطاریں لگ گئی ہیں۔ چڑیاں انڈے دینے کی فکر میں گھروں کی چھتوں پر منڈلاتی پھرتی ہیں اور ککھ اکٹھے کررہی ہیں۔ عورتیں بھیگی ہوئی ہیں اور ان کے کپڑوں سے آگ نکلتی ہے زمین پناہ مانگ رہی ہے۔ دریا اس کی دکھاں چاٹ رہا ہے۔ یہ سب عورتیں اور زمینیں انہیں کی ہیں جنہوں نے ان پر قبضہ کر رکھا ہے اور یہ سون کا مہینہ ہے اور وہ ابھی تک چائے کی پیالی میں گرا ہوا ہے اور اس کی آوازوں کے بلبلے پانی کی سطح پر تیر رہے ہیں۔ بجلی کڑک رہی ہے۔ اس کے گھر کے لوگ اسے ڈھونڈ رہے ہیں۔

بھادوں بھی آگیا ہے۔ خدائی ننگے پیر پھرتی ہے۔ پرندوں نے اپنی چونچیں گھونسلوں میں چھوڑ دی ہیں۔ حاملہ عورتوں کی آنکھوں میں حیرانی تنی ہوئی ہے۔ نیکیاں سبزی والے کی دکان پر توریوں کے بھاؤ بکتی ہیں۔ بچے الٹی سلیٹوں پر تقویم کے سوال نکالتے ہیں۔ رنگدار کلینڈر چھپ رہے ہیں۔ آٹے کے ٹین پر کاکروچوں نے ہلہ بول دیا ہے۔ سیلن نے گھروں اور عورتوں کو پچ پچا کر دیا ہے۔ طوطے کترنے کے لیے اور مانگتے ہیں۔ گدھوں نے آسمان کی دوستی کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ یہ بھادوں کا مہینہ ہے اور وہ ابھی تک چائے کی پیالی میں گرا ہوا ہے۔

اسوں کی ابتدا بھی جدائی کے آنسوؤں سے ہوئی ہے۔چڑیا کا بچہ گھونسلے سے گر گیا ہے اور بڑے بوڑھوں کا خیال ہے کہ اب یہ گھونسلے میں نہیں بیٹھے گا۔ چوہا لوگوں کے ہاتھوں سے روٹی چھینتا ہے۔ جوانی محبوب کے انتظار میں پھاوی ہو چکی ہے۔ اس نے ایک مدت سے دوپٹے کا نیا رنگ نہیں چڑھایا۔ پرانے سوئیٹروں کی اون ادھڑ رہی ہے اور نئے گولے سلائیوں پر چڑھ گئے ہیں۔ چرواہے کا بیٹا سوت جولاہے کے گھر چھوڑ آیا ہے اور کہتا ہے:

واہ دا اے     اللہ بادشاہ اے

گل سوہنی کریسوں کوڑزری نہ مریسوں

درختوں پر پھل پک گئے ہیں لیکن پارسال کے اسوں کی طرح اس میں ذائقہ نہیں۔

کتیں کی ہوا چلی ہے مگر پھلوں کے ذائقے چوری ہو گئے ہیں چور ناصح بن رہے ہیں۔ مائیں بچوں کو دودھ پلانے سے کترانے لگی ہیں۔ ان کے دودھ میں کتیں کے مہینے کی خوشبو نہیں بلکہ وہ خوف اور گھٹن سے پتلاہوگیا ہے بیلیں اور پودے بوڑھے ہو گئے ہیں لیکن سبزیاں ابھی کچی ہیں۔ گھر کا چور گھر کی عورت کے ساتھ ہے۔ چیونٹی غصے میں اپنی دم کاٹ رہی ہے۔ کتیں کا مہینہ ہے بزرگ کہہ رہے ہیں خدا سے نہ ڈرو برے آدمی سے ڈرو۔ پرایا تیر کمان میں جوڑا ہوا ہے۔ کتیں اب کنارے لگ رہا ہے لیکن وہ چائے کی پیالی میں گرا ہوا ہے۔۔۔ اس بات کا اسے گمان بھی نہ تھا اور اب طرح طرح کے اندیشے لوگوں کاماس نوچ رہے ہیں۔ سرشام ہوا میں ٹھر بڑھ گئی ہے۔ چرواہے کے بیٹے کا دل مسافر ہوگیا ہے اور وہ خود بھی سفر کی تیاری میں مصروف ہے اور کہتا ہے:

واہ دا اے     اللہ بادشاہ اے

گل سوہنی کریسوں کوڑزری نہ مریسوں

اتنے میں مگھر چڑھ آیا ہے۔ اور لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، مگھر کی آج کتنی ہے ان کی آوازوں میں وہ بیزاری ہے کہ بیان نہیں ہو سکتی۔ چور گھر کی چھت پر چوری کا سامان بانٹتے ہیں۔ وہ سب نیچے بیٹھ کر سنتے ہیں مگر بول نہیں سکتے۔ پاجی آوازیں لوگوں کے کان چھید رہی۔ مگھر کی شام ٹھنڈی ہوا اور آسمان پرڈار سے وچھڑی کونج تھکاوٹ کا عذاب اور جدائی کاروگ۔ آنکھوں نے اعتبار کرنا چھوڑ دیا اور وہ ابھی تک چائے کی پیالی میں گرا ہوا ہے۔ لوگ اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک ہار گئے ہیں۔ جدائی کا ذائقہ کڑوا زہر ہو گیا ہے۔ عورتیں کانوں میں بندے نہیں پہنتیں اور ان کی رنگدار دھاریوں والی چوڑیاں ان کی وینی جکڑ رہی ہیں۔ مگھر کا مڈھ ہے مگر دھوپ ہسپتال کے بنچ پر بوتل پکڑ کر لیٹی بڑھیا لگ رہی ہے۔ اسے پیالی میں گرے نہ جانے کتنے موسم بدل گئے ہیں۔ لکھنے والوں کے قلم تیز بخار میں تپ رہے ہیں اوردرختوں کے پتے ٹہنیوں سے جد اہوکر ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں۔ مگھر کی آج کتنی ہے۔

مگھر کیا اب تو پوہ کا پالا کمبل اوڑھے پھررہا ہے اور دوسروں کے کھیسوں کو چھیڑتا ہے۔ وہ اب صبح پانی بھرنے نہیں جاتیں۔ پالاکی انگلیاں مروڑتا ہے اور انہیں جگہ جگہ سے چاٹتا ہے۔ ساری رات لومڑی کی آوازگھروں کے دروازے کھٹکھٹاتی ہے۔ وہ لومڑی جس کے بارے میں محافظوں نے چیتر یا بھادوں میں کہا کہ ظالم خونخوار لومڑی کو موت کے گھاٹ اتاردیاگیا ہے۔ گاؤں والوں کو خوش ہوناچاہیے۔ یہ کوئی زبانی بات نہ تھی بلکہ اسے لکھ کر تقسیم کیاگیا تھا لیکن مری ہوئی لومڑی کی آواز پھر بھی آرہی ہے۔ بزرگوں سے پوچھا تو پتہ چلا ۔ لومڑی مرجاتی ہے اس کی آواز کبھی نہیں مرتی۔ یہ پوہ ہے اور وہ ابھی تک چائے کی پیالی میں گرا ہوا ہے اور اس کی آنکھیں چائے کی پیالی پرتیرتی ہیں اور چرواہے کا بیٹا کہتا ہے:

واہ دا اے اللہ بادشاہ اے

گل سوہنی کریسوں کوڑزری نہ مریسوں

لوگو مگھر دوسرے مہینوں سے کچھ زیادہ ہی بھاری ہو رہا ہے۔ تم ہونے کانام ہی نہیں لیتا۔ انتظار بھی لمی تان کر سوگیا ہے۔وہ اپنے محبوب کو ڈھونڈتی ہے۔ ککر پر بھاگتی پھرتی ہے۔اس کے دوپٹے کارنگ کچا ہوگیا ہے اور چرخے کی تند ٹوٹ ٹوٹ جاتی ہے۔ پونیوں کی پچھی میں پالا بیٹھ جاتا ہے تو وہ سارا سارا دن پلاکاتتی ہے اور کاتتے کاتتے مانہہ آجاتا ہے۔

خیال تھا کہ وہ چیتر یا ساون بھادوں میں بچھڑا ۔ مانہہ یا پھگن میں آملے گا مگر ابھی تک تو گلیاں اور بازار سونے پڑے ہیں۔ وہ صبح شام قبروں پر پھول چڑھانے لے جاتی ہے اور اس کے لیے دعا مانگتی ہے کچھ خود قبریں اللہ کھلی کرے گا۔ میرا مطلب ہے کشادہ۔۔۔ بہرحال قبروں کو سب کا انتظار ہے۔ چرواہے کا بیٹا کہتا ہے:

قبرں اڈیکدیاں

جیویں پتراں نوں ماواں

لیکن وہ تو اللہ تعالیٰ کے ٹھیکیدار ہیں۔ پتہ نہیں انسانوں کی تباہی کا ٹھیکہ اللہ مومنوں کو کیوں دے دیتا ہے ان کی آنکھیں ایسی ہیں جیسے چیل کے گھونسلے میں انڈے۔ یہ مانہہ ہے اور وہ لفظوں کی گیند سے پٹھو کھیلتے ہیں شیخیاں اوڑھتے پھرتے ہیں۔ وہ ابھی تک چائے کی پیالی میں گرا ہوا ہے۔ وہ پیالی جو اس نے خود ہی چائے پینے کے لیے خریدی تھی اسے ابھی تک سمجھ میں نہیں آرہی کہ اس کا اتنا بڑا جسم چھوٹی سی پیالی میں کیسے گرپڑا اور پیالی ٹوٹ کیوں نہیں جاتی۔ یہ مانہہ ہے اور لوگ ابھی تک اسے ڈھونڈ رہے ہیں۔ کسی کا خیال سیدھی کروٹ نہیں بیٹھتا سب کہتے ہیں وہ یہاں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ کھڑکی کھلی ہے جس کے اوپر چڑیا نے گھونسلہ بنالیا ہے۔ کرسی خالی پڑی ہے بالکل جوان منتظر عورت کی طرح اور سامنے میز پر چائے سے بھری پیالی دھری ہے اور اب اس کا جسم گلنے لگا ہے۔ جانے یہ پیالی اس کے لیے سمندر جیسی گہری کیسے ہو گئی ہے۔ پیالی کے نیچے پرچ ہے اور پرچ نے اپنا تھلا میز پر گاڑ رکھا ہے۔ اب مانہہ کے آخری دن ہیں اور یہ آواز مانہہ سے پھگن تک پھیل رہی ہے!

واہ دا اے گل سوہنی کریسوں

اللہ بادشاہ اے گوڑزری نہ مریسوں

گل دادستور اے     گل تے لگدے نیں پیسے

اللہ جانے سچ اے کوڑ اے پیسے دیواج گل سنو سائیں

پھگن کی ہوا میں رنگ کھلے ہوئے ہیں۔ سب جدائی چھانتے پھررہے ہیں۔ وہ دریا کے پانی میں آنسو پھینکتی ہے مردہ شیر کے ہوکے داوردلے بن کر سڑکوں پر ناچتے ہیں او ر وہ جوتیوں کے تلوں پر پیشاب کر کے ان پر پھینکتے ہیں۔ سرگوشیاں کانوں میں نئے بندے پہن کر پھرتی ہیں۔ آسمان رنگدار پتنگوں سے بھرا ہوا ہے مگر پتنگ اور ڈور مانگتے ہیں۔ بستنی رنگ کے گھونگھٹ میں شہر کی روشنیوں کی ٹمٹماہٹ لمبے سانس لے رہی ہے وہ جو چائے کی پیالی میں گر گیا ہے لوگ اس بہار میں اس کے منتظر تھے لیکن کچھ نے اس کے نہ آنے کا یقین دلا کر اس کا اثاثہ آپس میں بانٹنا شروع کر دیاہے۔ وہ پھولوں کے ساتھ کھڑی اس کی راہ تکتی ہیں۔ پھول ان کے جسموں کے قرب سے وقت سے پہلے ہی کھلتے جارہے ہیں لیکن اس کی راہیں ابھی سونی پڑی ہیں۔ بازوں نے کبوتروں کے وہ پر اکھیڑدئیے ہیں جن پرعبارت لکھی تھی۔ چرواہے کے بیٹے کا دل مسافر ہوگیا ہے۔ ۔۔یہ پھگن ہے اور وہ چائے پیتے پیتے چیتر یا سون بھادوں میں چائے کی پیالی میں گر گیاتھا ابھی تک پیالی ہی میں ہے۔۔۔ زمین اس کے قدموں کی منتظرہے اور آسمان رنگدار پھولوں سے بھرا ہوا ہے۔ وہ تنکے مارتے ہیں اور کہتے ہیں اللہ انکی پتنگ کو کنی دیتا ہے۔ چرواہے کے بیٹے کی پتنگ کیکر میں پھنسی ہوئی ہے۔۔۔ اور یہ پھگن کا مہینہ ہے۔۔۔ چرواہے کا بیٹا وہی بات بڑبڑا رہا ہے اور میں یعنی مظہر الاسلام اس کی آواز میں آوازملا کر کہتا ہوں:۔

جنوں سمجھ نہیں لی        اینی ساڈی بات

اوہ جائے     اگوں پے گئی رات

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031