بن بیاہی بات ۔۔۔ مظہر الا سلام
Mazhar ul Islam is a Pakistani short story writer and novelist. His short stories weave together themes of love, pain, ecstasy, separation and death.
بن بیاہی بات
( مظہر الاسلام )
جب وہ اس کے گھر پہنچی تو سارا گھر جھنڈیوں سے سجا ہوا تھا۔ میز پر چائے کے برتنوں کے درمیان ایک بڑا سا کیک سجا ہوا تھا۔ قریب ہی موم بتیوں کا ایک پیکٹ بھی پڑا تھا جسے ابھی کھولا نہیں گیا تھا۔
وہ اسے دیکھ کر کرسی سے اٹھ گیا اور انتظار سے تھکی ہوئی مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر سنبھالتے ہوئے بولا، ” اتنی دیر کر دی تم نے، گھر ڈھونڈنے مین دقت تو نہیں ہوئی۔ “
وہ کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی، ” سواری نہیں مل رہی تھی ۔۔۔۔ چھوڑو اس بات کو۔ یہ بتاو آج کس کی سالگرہ ہے ؟ “
میز پر رکھے ہوئے برتنوں پر نظریں گھماتے ہوئے وہ بولا، ” سچ آج میری سالگرہ نہیں اور یہ گھر بھی میرا نہیں۔ ۔۔۔ یہ میرے ایک دوست کا گھر ہے۔ میں نے تو آج تک کبھی اپنی سالگرہ نہیں منائی۔ مجھے تو پتہ بھی نہیں چلتا اور میرا جنم دن گزر جاتا ہے۔بس یوں سمجھو میرا جنم دن بلی کی طرح ہے با لکل جیسے بلی کمرے سے گزر جاتی ہے اور پتہ بھی نہیں چلتا۔ اسی طرح میری سالگرہ کا دن میاوں کئے بغیر گزر جاتا ہے۔ “
وہ ہولے سے مسکرائی اور کندھے جھٹک کر بولی ، ” کہاں ہے تمہارا دوست۔۔۔” کچھ دیر خاموشی رہی۔۔۔ اتنی ہی دیر جتنی دیر میں وہ دوسرے میز پر پڑی ایش ٹرے اٹھا لایا اور بولا، ” ۔۔۔۔میرا دوست ۔۔۔ وہ کچھ دنوں کے لئے شہر سے باہر گیا ہوا ہے۔ آج واپس پہنچنے والا ہے۔ میں نے سوچا اسے سرپرائز دینا چاھئے کیونکہ اسے تو یاد بھی نہ ہو گا کہ آج اس کی سالگرہ ہے۔ ویسے میرے خیال میں تم اسے ضرور جانتی ہوگی۔ اکثر لڑکیاں اسے جانتی ہیں۔ ” وہ حیران ہوتے ہوئے بولی، ” وہ کیسے ۔۔۔ میں اسے نہیں جانتی۔ ” وہ سگریٹ کا ایک کش لیتے ہوئے بولا، ” اکثر لڑکیاں یہی کہتی ہیں بلکہ جب وہ کئی بار ان کے سامنے ہوتا ہے تو وہ اسے پہچاننے سے انکار کر دیتی ہیں۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ تم بھی۔۔۔” وہ بات کاٹتے ہوئے بولی، ” نہیں میں اسے با لکل نہیں جانتی۔ ” وہ سگریٹ ایش ٹرے کے کنارے پر رکھتے ہوئے ہاتھ ملتے ہوئے بولا، ” میں نے ایک بار اس سے تمہارے بارے میں پوچھا تھا اور اسے بتایا تھا کہ تم میری دوست ہو مگر وہ بھی یہی کہتا رہا کہ وہ تمہیں نہیں جانتا مگر محسوس ہوتا تھا کہ وہ تمہیں جانتا ہے۔۔۔اچھی طرح ۔۔۔اور یوں ہی بن رہا ہے۔”
باتیں کرتے کرتے وہ اٹھ کر ٹہلنے لگے۔ لگتا تھا جیسے اندر سے وہ لڑکی بھی اس کے دوست کا انتظار کر رہی ہے۔ ڈرائنگ روم سے نکل کر جب وہ بیڈ روم کے سامنے سے گزرے تو سامنے پلنگ کے قریب رکھے جوتے دیکھ کر لڑکی نے پوچھا ، ” یہ تمہارے دوست کے جوتے ہیں” اور جواب کا انتظار کئے بغیر بولی، ” لگتا ہے یہ کسی بے سفر آدمی کے جوتے ہیں “۔
” نہیں نہیں ” اس نے جلدی سے وضاحت کی، ” وہ بے سفر نہیں بلکہ میں اکثر اس سے کہتا ہوں تمہارے پاوں میں چکر ہے۔ وہ بہت زیادہ سفر کرتا ہے۔ دیکھو نا آج بھی سفر سے واپس آ رہا ہے۔ “
لڑکی اس کی بات سنی ان سنی کر کے وارڈروب کی طرف بڑھی اور اسے کھول کر تھوڑا سا پیچھے ہٹی اور بولی، ” اس کے کپڑوں کے رنگ سے لگتا ہے جیسے وہ بے محبت آدمی ہے “
” پتہ نہیں بے محبت سے تمہاری کیا مراد ہے۔ اگر تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ اس سے کسی نے کبھی محبت نہیں کی تو یہ درست ہے مگر وہ خود بے حد محبت کرنے والا ہے۔ کبھی کبھی میں اس سے کہا کرتا ہوں کہ تم گاوں کی اس عورت کی طرح ہو جوکئی سالوں سے دل کی چاٹی میں دہی رڑک رہی ہے مگر مکھن کی ایک پھٹکی بھی نہیں نکلی مگر میری بات سن کر وہ ہمیشہ ہنس دیتا ہے۔ اس وقت اسکی ہنسی سے کچے دودھ کی مہک آتی ہے۔ وہ ابھی تک پیار کی ڈولی میں نہیں بیٹھا۔ وہ ایسی بات ہے جو ابھی تک بیاہی نہیں گئی۔
لڑکی اس کی قمیص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی، ” میں نے سنا ہے کہ ایسی شکنیں عام طور پر ہٹ دھرم لوگوں کی قمیضوں پر ہوتی ہیں ۔”
” ہو سکتا ہے وہ ہٹ دھرم ہی ہو مگر اس کی قمیض پر جو شکنیں تمہیں نظر آرہی ہین وہ اداسی کی ہیں۔ اس کی زندگی بھی اس کی قمیض کی طرح شکنوں سے بھری ہوئی ہے۔ جب کوئی لڑکی اس سے ملتی ہے اس کی زندگی پر ایک نئی شکن ڈال دیتی ہے۔ وہ ایک ایسی کشتی کی طرح ہے جس کے بادبان میں نے کئی لڑکیوں کی آنکھوں میں کھلے دیکھے ہیں مگر پانی کی لہریں جنہیں تم شکنیں کہہ سکتے ہو اسے دھکیل کر لڑکیوں سے دور لے جاتی ہیں۔ وہ بہت زایدہ انا پرست ہے۔ اپنے آپ کو سزا دیتا رہتا ہے۔ میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔ ۔۔۔۔۔ ہم دونوں بچپن سے اکٹھے پڑھتے اور کھیلتے رہے ہیں۔ آج میں نے اس کی سالگرہ منانے کا پروگرام اسی لئے بنایا ہے اور تمہیں بھی اسی لئے بلایا ہے کہ شاید ہم دونوں مل کر اس کی شکنوں سے بھری ہوئی زندگی سے ایک شکن کم کر سکیں۔ “
لڑکی جو اب ایش ٹرے پر نظریں جمائے ہوئے تھی، بولی، ” یہ دیکھو، وہ سگریٹ بھی پورا نہیں پیتا ۔۔۔ آدھ میں ہی بجھا دیتا ہے”
وہ ایش ٹرے میں پڑے ادھ بجھے سگریٹ کی طرف دیکھ کر مسکرایا ۔۔۔۔ ” آدھا سگریٹ بجھا دینے کی عادت اسے اس وقت پڑی تھی جب ایک لڑکی نے اس سے کہا تھا کہ تم یہیں انتظار کرو میں ابھی آئی۔ اس نے پوچھا کتنی دیر میں آوگی تو لڑکی نے اس کے ہاتھ میں ابھی ابھی سلگائے سگریٹ کی طرف دیکھا اور بولی کہ جب تک تم آدھا سگریٹ پیو گے میں آ جاوں گی ۔۔۔ مگر اس نے آدھا سگریٹ پی کر بجھا دیا تاکہ وہ کبھی واپس نہ آئے۔ کوئی لڑکی اس کی نظروں میں جچتی ہی نہیں ۔۔۔۔ وہ ہر کسی میں کوئی نہ کوئی عیب نکال لیتا ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ اسی لئے وہ کئی سالوں سے آدھا سگریٹ پی کر بجھا دیتا ہے “
لڑکی کی نظروں میں غالبا اب بھی کوئی سوال تھا لیکن وہ چپ رہی۔ ویسے بھی لگتا تھا کہ اب وہ اس کے بارے میں اندر ہی اندر خود ہی سوال کرتی ہے اور پھر خود ہی اس کا جواب دے دیتی ہے۔
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ کہنے لگا، ” مجھے ایک بار ایک لڑکی نے بتایا تھا کہ وہ جب بھی کسی لڑکی سے ملتا ہے اسے اداس کر دیتا ہے۔ اداسی اس کا پکنک سپاٹ ہے اور جب کوئی لڑکی اس سے ملتی ہے تو وہ اسے اس پکنک سپاٹ پر لے آتا ہے۔ ” پھر اس نے میز پر پڑی کتاب اٹھائی اور بولا، ” میں نے اس سے ایک بار بے تحاشہ رونے کا سبب پوچھا تو اس نے کہا تھا کہ میں جب کسی سے ملتا ہوں میری انا زخمی ہو جاتی ہے۔ ۔۔۔۔ کبھی کبھی تو میں کسی سے ملنے سے پہلے ہی بچھڑ جاتا ہوں اور رو رو کر اپنی انا کو مناتا ہوں۔۔۔رونا اس کا لباس ہے وہ آنسو اوڑھتا ہے۔۔۔۔گہری سردیوں میں اور تپتی دوپہروں میں ۔۔۔ بچپن ہی سے اسے آنسووں سے محبت ہے ۔۔۔ بے پناہ محبت۔۔۔ خوشبو ۔۔ ۔۔ اس کے بغیر وہ ایک پل زندہ نہیں رہ سکتا۔ وہ کہتا ہے دنیا کی سب سے خوبصورت چیز آنسو ہے”
لڑکی جو بہت غور سے اس کی باتیں سن رہی تھی، بولی، ” اس کمرے میں جو خوشبو پھیلی ہوئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بہت خود سر ہے، ضدی ہے، اپنے آپ کو بڑی شئے سمجھتا ہے۔ “
” ہاں کبھی کبھی مجھے بھی یہی احساس ہوتا ہے ۔۔۔۔ اس نے ایسی ایسی صورتیں اور خواب اپنے ذہن کے البم میں سجا رکھے ہیں کہ بار بار اصرار کے باوجود بھی انہیں اکھاڑ کر نہیں پھینکتا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہمیشہ کے لئے ناراض ہو جاتا ہے ۔۔۔ حد سے زیادہ جذباتی ہے “
” بس کرو ۔۔۔ اب میں اس کے بارے میں کچھ نہیں سننا چاھتی۔ ۔۔۔ کچھ دیر پہلے مجھے اس کی باتیں سن کر اچھا لگا تھا مگر اب مجھے اس سے نفرت ہو گئی ہے۔”
بات بدلنے کے لئے وہ بولا، ” چلو چھوڑو، آو اس کی سالگرہ کا کیک کاٹتے ہیں۔ ” مگر وہ غصے سے بھری باہر کی طرف لپکی ۔۔۔۔ ” نہیں، میں ایسے شخص کی سالگرہ میں شریک نہیں ہونا چاھتی ” اور پھر تیز تیز قدم اٹھاتی گھر سے باہر نکل گئی اور اب وہ پچھلے کئی سالوں کی طرح اکیلا ہی اپنی سالگرہ کا کیک کاٹ رہا تھا اور اس کی انا تالیاں بجا کر کہہ رہی تھی
ہیپی برتھ ڈے ٹو یو
ہیپی برتھ ڈے ٹو یو