اچھا بچہ ۔۔۔ محمد جاوید انور


اچھا بچہ
مُحمد جاوید انور ۔

اُسے بچپن ہی سے جو کچھ پڑھایا اور بتایا گیا وہ مذہب ، وطن پرستی ، ذات برادری اور گاؤں میں خاندانی امتیازی حیثیت کا ملغُوبہ تھا ۔
بنیادی انسانی قدروں اور عمومی اچھائی کے وعظ کا تڑکا بھی لگتا رہا ۔ ایک سلیم الفطرت ، اوسط سے بہتر ذہانت کے حامل بچے کے طور پر اُس نے اپنے بڑوں اور اساتذہ سے سُنی سنائی باتوں پر کافی حد تک یقین کیا ۔ اُس کے اپنے مشاہدات اور اُسے بتائے گئے معیارات کے اعتبار سے کم اچھے بچوں کی بتائی گئی باتوں نے اُس کے یقین کی پُختگی کو زیادہ متاثر نہ کیا اور وہ گھر ، سکُول اور گاؤں میں ایک اچھا بچہ ہی سمجھا جاتا رہا ۔
اُس کا گاؤں سرحدی علاقے میں ، بین الاقوامی سرحد سے کوئی دس پندرہ میل دُور واقع تھا ۔وہ اپنے گاؤں کے سکول کے پرائمری حصہ میں پڑھتا تھا ۔ روز صُبح اسمبلی میں قومی ترانہ گانے سے پہلے ،جنگ عظیم دوئم میں حصہ لے چُکے جسمانی تربیت کے استاد، ماسٹر عظیم صاحب کے حُکم ،
“ مُٹھیاں بند!
ایڑیاں ملی ہُوئی !
پنجے کھُلے ہُوئے!
چھاتی باھر نکلی ہُوئی !
نظر سامنے سو گز کے فاصلے پر !”
پر عمل کر کے جب وُہ فریاد جٹ اور شجاعت میراثی کی خوش الحان جوڑی سے “ پاک سرزمین شاد باد “ سُنتا تو “سایۂ خُدائے ذُولجلال” تک پہنچتے پہنچتے اُس کی چھاتی کئی انچ مزید چوڑی ہو جاتی ۔
جب عظیم صاحب اپنی پاٹ دار ، پھیپھڑوں کی پوری طاقت صرف کر کے نکالی ، رعب دار آواز میں حُکم دیتے تو ہر حُکم کے ساتھ اُن کی کُلے پر باندھی کلف لگی پگڑی کا اکڑا ہُوا شملہ حرکت کرتا ۔
یُوں محسوس ہوتا جیسے اُن کے ہر حُکم میں غفور موچی کے بنائے دیسی جُوتے میں مقید پاؤں سے لے کر سفید ململ کی ، کلف دار ، اُونچے شملے والی پکڑی میں بندھے گول سر تک پورا جسم اور اُس میں ملفوف رُوح تک شامل ہو ۔
پھر سب مل کر “ لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری “ گا کر پڑھتے اور ترتیب وار اپنی اپنی جماعتوں ، پرائمری حصے والے سکول کے وسیع صحن میں اپنے لئے مقرر کردہ درخت کے نیچے ٹاٹوں پر اور مڈل حصہ والے اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے ۔
کمروں میں شیشم کی لکڑی کے بنچوں پر بیٹھ کر پڑھنے کا احساسِ تفاخر اور شیشم کے درختوں کے نیچے ، کھُلی فضا میں ، چہاردیواری سے محروم سکول میں کھیتوں کے بیچوں بیچ زمین پر لگی پرائمری کلاسز کا کنوارا رُومانس اپنی اپنی جگہ منفرد تھے۔

عموماً نومبر کے آخر میں اُن کے وسیع سرحدی علاقے میں فوج ،معمول کی سرمائی مشقوں کے لئے ،پہنچ جاتی ۔
فوج کا آنا بھی عجیب خوشگوار حیرت ہوتی ۔دیہاتی علاقے کی خاموش سرد رات لحاف میں دبک کر سوتے سوتے کبھی نیم خوابیدہ حالت میں دبی دبی گھُوں گھُوں ، ٹھک ٹھاہ کی آوازیں سنائی دیتیں جو پکی سڑک سے دُور ساٹھ کی دہائی میں مشینوں اور بجلی کی کثافت سے پاک ، بیل اور کنویں کے دور کے گاؤں میں نامانوس ہوتیں ۔
صُبح جب سب جاگتے اور معمولات سے فراغت کے لئے کھیتوں کا رُخ کرتے تو ہر بڑے درخت کے نیچے کوئی جیپ ، کوئی فوجی ٹرک ، کیچڑ پوت کر چھپائے گئے نمبروں اور یونٹ کے شناختی نشانوں سمیت کیموفلیج کے کپڑے کی ہری خاکی اور بھوری دھجیوں والے جال اوڑھے نیم پوشیدہ کھڑے نظر آتے۔
گاؤں سے میل بھر کے فاصلے پر ، نرم بھُربھری مٹی بھری کچی سڑک سے فرلانگ بھر دُور ،آم کے باغ اور اُس کے قریب امرودوں کے دو باغیچوں میں خیمے ایستادہ ہوتے ۔ ان باغات سے کچھ فاصلے پر واقع جامن کے درختوں کے دو چھوٹے جھُنڈ ، قدرے کشادہ خیموں کو،جو یقیناً افسران کا کیمپ ہوتا ، سمیٹے ہوتے ۔
ذیلداروں کے بڑے کنویں کے پاس شیشم کے درختوں کے نیچے لنگر کے چُولہے ، جھلنگا سفری کرسیاں ، بنچ ، برتنوں کا ڈھیر اور چولہوں میں چمکتی آگ بتا دیتی کہ پراٹھے تلے جانے کی خُوشبُو لنگر میں ناشتہ بننے کی نوید ہے ۔
فوج بھی کوئی جادوگر قبیلہ ہی محسُوس ہوتا جو راتوں رات کہیں سے نمودار ہوکر دن نکلنے تک جنگل میں منگل بنا کر بیٹھ جاتا ۔
ابھی گاؤں میں موٹر سائیکلوں ، کاروں اور ٹریکٹروں کے آنے میں کئی دہائیاں باقی تھیں ۔ ریکائل لیس توپوں سے لیس ، یا وائیرلیس سیٹس کے لچکیلے ایریلز لہراتی ،بغیر چھت کی کھُلی ، چھوٹی چھوٹی فوجی جیپیں کھیتوں میں بھاگتی پھرتی کھلونے لگتیں ۔ اُن کے پہئے خُوب تیار کھیتوں کی نرم بھُربھری مٹی میں نشان چھوڑتے اور کہیں تو گندم کی نومبر میں بوئی فصل کی زمین سے نکلتی نرم بالیوں کو کُچل بھی دیتے جس کا کسان بُرا نہ مناتے کہ یہ اپنی فوج تھی اور بہت ضروری کام میں مصروف تھی ۔
کوئی جیپ یا ٹرک گزرتا تو اُس میں استعمال ہوتے ڈیزل یا پٹرول کی ، گاؤں کے غیر مشینی ماحول کی خالص صاف ہوا میں تیرتی نامانُوس بُو بھی خوشگوار لگتی ۔
ہر بڑی مینڈھ کے پیچھے یا قدرتی ٹیکری کی چوٹی پر سپاھی انگریزی حرُوفِ تہجی کے ہم شکل مورچے کھودتے ، اُنہیں دھجیوں والے جال ، درختوں کی شاخوں اور جنگلی جھاڑیوں سے ڈھک کر اُن کے نیچے چھُپ کر بیٹھتے ۔ اُن کی مشین گنوں کی نالیاں بہت قریب جانے پر ہی نظر آ سکتیں ۔ پیدل فوج کی کچھ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں راکٹ لانچروں کے پائپ اٹھائے، رائفلیں لٹکائے ایک مورچے سے دوسرے مورچے اور ایک درخت سے دوسرے درخت تک آتے جاتے دیکھے جا سکتے ۔
یہ رونق کوئی دو مہینے کے لگ بھگ دیہاتی منظر کا حصہ بنی رہتی اور پھر کسی صبح جب گاؤں والے بیدار ہوتے تو رات والی گھُوں گھُوں اور کھٹ پٹ کا نتیجہ سامنے پاتے ۔
نہ کوئی خیمہ نہ ٹرک ، نہ لنگر نہ دو ٹائیروں پر سوار پانی والا خاکی ٹینک ، نہ عارضی والی بال گراؤنڈ میں نصب والی بال کا نیٹ ،نہ کچی سڑک سے کیمپ کی سمت تیروں کے نشانوں اور چھپائی گئی شناختی علامتوں اور نظر آنے والے اعداد والے کالے بورڈ ۔
گاؤں کے متجسس بچے بھاگ بھاگ کر مٹی سے بھر کر برابر کردئیے گئے مورچوں ، خیموں اور لنگر کی جگہ دیکھتے کہ یہ علاقے کئی ہفتے تک اُن کی دسترس اور دست بُرد سے باھر رہے ہوتے ۔
وہاں انہیں تب کچھ نہ ملتا سوائے عارضی گزرگاہوں کی دُھول اور کھیتوں کی بھُربھری مٹی پر موجود ٹائیروں کے خاموش اُداس نشانوں کے ۔
اُنّیس سو پینسٹھ آگیا ۔
پڑوسی ملک کے ساتھ جنگ چھڑ گئی ۔
اُس نے اپنے والد اور گھر کے دوسرے افراد کے ساتھ ، مرفی کمپنی کے بھدی شکل والے سخت جان ریڈیو پر اپنے فوجی سربراہ کا خطاب سُنا کہ “بُزدل دُشمن نے رات کے اندھیرے میں ، بغیر اعلانِ جنگ کئے ہمارے ملک پر حملہ کردیا ہے۔ ہمیں للکارا ہے۔”
ساری رات توپوں کی گھن گرج اُس کے گاؤں میں سنائی دیتی ۔ دُور جنگی محاذ سے رات کے وقت بڑی توپوں سے داغے گئے گولوں کی روشنی بھی نظر آ جاتی ۔
ایک دن صُبح کے وقت جنگی جہازوں کی غیر معمولی تیز آواز کہیں قریب سے سنائی دی ،پھر دو زبردست دھماکے ہوُئے اور گاؤں سے کافی دور کھیتوں میں ایک جہاز کا دُھواں دیتا ملبہ بکھر گیا ۔
کچھ دیر کے لئے دھواں پھیلا ، آگ دکھائی دی جو خُود ہی بُجھ گئی اور خاموشی چھا گئی ۔
سب قریبی دیہات کے مرد اور بچے بالے جہاز کا ملبہ اور گرے ہُوئے جہاز کا مُردہ پائلٹ دیکھنے جمع ہو گئے تا آنکہ فوج نے آکر سب چیزوں پر قبضہ کر لیا ۔ گرے ہوئے جہاز اور پائلٹ کی لاش کے قصے آنے والے کئی سالوں تک دیہاتیوں کی زبان پر رہے ۔
جنگ کے دوران ریڈیو سے نشر ہوتے نئے نئے جنگی ترانے سُنائی دیتے تو رگوں میں خُون کی گردش تیز ہو جاتی ۔پیدل فوج کی کوئی ٹکڑی گاؤں کے پاس سے قطار بنائے گزرتی تو لوگ بھاگ بھاگ کر اُنہیں بھُنے ہُوئے چنے ، گُڑ ۱ور دوسری ایسی چیزوں کی تھیلیاں پیش کرتے جو محاذ پر اُن کے کام آ سکیں ۔
بچے اُنہیں سلیوٹ کرتے اور گاؤں کی خواتین دُور ہی سے دعائیں دیتیں ۔
کچھ ہی دنوں میں جنگ بند ہو گئی ۔
بتایا گیا کہ جنگ ہم نے جیت لی تھی ۔
اگرچہ اس علاقے کے قریب کچھ علاقوں پر دشمن فوج نے قبضہ کر لیا تھا لیکن بتایا گیا کہ ہماری افواج نے بھی کسی سیکٹر میں دُشمن کا نسبتاً زیادہ علاقہ قبضہ میں لے لیا تھا ۔
خوش قسمتی سے اس گاؤں کے قریب نہ تو دُشمن کی فوج پہنچ سکی نہ اُن کی کسی توپ کا کوئی گولہ۔
سب محفوظ رہا ۔
بہت جلد گاؤں کی زندگی واپس معمول پر آگئی لیکن طرح طرح کے قصے کہ کیسے ہمارے بہادروں نے دُشمن سے تعداد میں بہت کم ہونے کے باوجود دُشمن کو تہس نہس کیا ،کیسے بہادر سپاہیوں نے ٹینکوں کے نیچے لیٹ لیٹ کر ٹینک تباہ کئے اور کیسے سبز چُغوں میں ملبوس بزرگوں نے بھی دُشمن کے بم دبوچ دبوچ کر دریاؤں اور ندی نالوں میں ٹھنڈے کر دئیے تا دیر محفلیں گرماتے رہے ۔
گاؤں کی سُست رو زندگی کے چند سال گزر گئے ۔ اچھا بچہ اپنے مڈل سکول کے پرائمری حصہ میں پانچویں کے وظیفہ کے امتحان میں شامل ہونے قریبی قصبہ کے امتحانی سنٹر اپنے پانچ مُنتخب ،قابل ترین ساتھی لڑکوں کے ساتھ گیا ۔
تین بچے وظیفہ خوار ہُوئے جن میں وُہ شامل تھا۔
مڈل حصہ میں ترقی پا کر اُس کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں کارکردگی اور بہتر ہو گئی ۔سکول کی ہفتہ وار بزم ادب میں اُس کے والد کی لکھی حُبِّ وطن ، عظمتِ اسلاف ، شرفِ انسانیت اور عظمتِ رفتہ پر رٹی ہوئی پُر جوش تقاریر پر اُسے کئی انعامات ملے اور بالآخر وہ سکُول میں اوّل پوزیشن حاصل کرکے آٹھویں جماعت پاس کر گیا ۔
گاؤں کے ، مڈل پاس کر لینے والے دوسرے بچوں کی اکثریت کی تقلید میں اُسے قریبی قصبہ کے ہائی سکول میں داخل کروا دیا گیا ۔اُسے ہائی سکول میں داخلہ پر اُس کے متمول والد نے نئی ، بھُورے رنگ کے کاغذوں میں ملفُوف بہترین بائسکل اور ایک کلائی گھڑی خرید کر دی ۔ یہ دو چیزیں ایسی تھیں جن کی ضرورت گاؤں والے چھوٹے سکول میں کبھی محسوس ہی نہیں ہوتی تھی لیکن ہائی سکول جا کر تعلیمی سلسلہ شروع کرنے پر یہ چیزیں انتہائی اہم اور بنیادی ضرورت بن جاتی تھیں ۔
گاؤں کے درجن بھر لڑکے ،کبھی ٹولی کی شکل میں اور کبھی علیحدہ، سائیکلوں پر سوار ، چھ سات کوس دُور واقع قصبے تک سہولت سے آتے جاتے ۔ پُختہ سڑک گاؤں سے ڈیڑھ دو میل دُور تھی ۔ بائسکل ، تانگے اور بیل گاڑیاں کچی سڑک پر سفر کرتے ہُوئے پکی سڑک پر جا چڑھتے اور آگے راستہ آسان ہو جاتا ۔ برسات کے دنوں میں کچی سڑک دشوار گزار ہو جاتی لیکن مٹی کیچڑ دیہاتی لوگوں کے لئے نہ تو کوئی انوکھی چیز تھی نہ غیر متوقع ۔
فوج اب بھی سرمائی مشقوں کے لئے سال میں کم ازکم ایک بار ضرور اس علاقے کا رُخ کرتی ۔نومبر ،دسمبر کے عمومی طور پر خُشک موسم میں ٹرک اور جیپیں سڑک کی مٹی کو خُوب پیس کر باریک دُھول میں بدل دیتیں اور اس دُھول میں سائیکل چلانا برسات کی کیچڑ میں سائیکل چلانے جتنا ہی دُشوار ہوتا ۔
اُسے پڑھنے کا بہت شوق تھا ۔
جُونہی تعلیم کا ایک سال ختم ہوتا اُسے سب سے زیادہ خوشی اُس وقت ہوتی جب اگلے درجہ کی پڑھائی شروع ہونے سے بھی پہلے اُس کے والد اُسے قصبہ کی مشہور کتابوں کی دکان سے نئی جماعت کے نصاب کی کتابیں خرید کر لا دیتے ۔ اُسے نئی کتاب دیکھنے ، محسُوس کرنے بلکہ سُونگھنے تک کا شوق تھا ۔
اکثر نئے تدریسی سال کے شروع ہونے سے بھی پہلے وہ ,سوائے ریاضی کے , ساری نصابی کتب کی قرات مکمل کر لیتا ۔
ریاضی سے اُسے نفرت تھی۔
اس کے پسندیدہ مضامین اُردو ، مطالعۂ پاکستان ، تاریخ اور دینیات تھے ۔
اُس کی والد پڑھے لکھے اور سُلجھے ہُوئے ادبی ذوق کے حامل بڑے نفیس انسان تھے ۔وہ پڑھنے میں اُس کی ہر طرح سے مدد کرتے تھے ۔والد ہی نے گھر میں بچوں کے رسالے لگوا رکھے تھے ۔ وہ قومی شاعر کے بہت بڑے مداح تھے اور اُن کے پاس مضبُوط جلد والا اُن کے پسندیدہ شاعر کی کتابوں کا پورا سیٹ کتابوں کی الماری کے سب سے اُوپر والے خانے میں قرینے سے سجا کر رکھا تھا ۔
ہر وقت کوئی نہ کوئی کتاب اُن کے زیرِمطالعہ رہتی ۔ یہی شوق اولاد میں منتقل ہوا تھا ۔
مڈل سکول میں لائبریری کے نام پر لکڑی کی بنی دو الماریاں تھیں جس میں موجود تقریباً ساری کتابیں اُس نے پڑھ ڈالی تھیں ۔
اب ہائی سکول میں لائبریری کے نام پر ایک پورا کمرہ تھا جس میں درجن بھر الماریوں میں سینکڑوں کتابیں محفوظ تھیں ۔
لائبریری کا کوئی علیحدہ لائبریرین نہیں تھا ۔
مولوی مشتاق صاحب کے پاس لائبریری کا بھی چارج تھا جبکہ اُن کی اصل حیثیت اُردو ، فارسی اور عربی کے اُستاد کی تھی ۔
وُہ مولوی صاحب سے اُردو لازمی اور فارسی اختیاری پڑھتا تھا اور اُن کا چہیتا شاگرد تھا ۔
جماعت کے انچارج اُستاد ملک غلام محمد صاحب نے اُسے اپنی جماعت کا مانیٹر مقرر کر رکھا تھا ۔
ہائی سکول کی نسبتاً بڑی لائبریری اُس کا کتب بینی کا شوق پُورا کرنے کا بہترین ذریع بن گئی۔ موٹے موٹے مذہبی تاریخی ناول ، کلاسیک افسانوں کے مجموعوں اور الف لیلیٰ کی کہانیوں سے لے کر فسانۂ آزاد جیسی انمول کتابیں اُس کی دسترس میں آ گئیں ۔ چند الماریوں میں سائنسی کتابیں بھی بھری پڑی تھیں لیکن وُہ کونا اس کے لئے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا ۔ الجبرے اور جیومیٹری سے اُس کی نفرت برقرار تھی لیکن طوعاً و کرہاً اُن پر بھی کچھ وقت لگانا پڑتا اور پاس ہونے کے لئے گزارا ہو جاتا ۔
ہائی سکُول میں یہ اُس کا دوسرا سال تھا اور فوج کچی سڑک سے ذرا ہٹ کر باغ باغیچوں یہاں تک کہ اکیلے دو کیلے درختوں کے نیچے پھر خیمہ زن تھی ۔
ہائی سکُول کی لائبریری کی وُہ بڑی الماری جس میں نوجوانوں میں مقبول ایک تاریخی ناول نگار کے موٹے موٹے درجنوں ناول پڑے تھے اُس کے تصرف میں تھی ۔وُہ اُن ناولوں کے مسلسل مطالعہ میں اتنا منہمک تھا کہ رات کو خواب میں کئی بار خُود کو زیرمطالعہ ناول کے خُوبرُو، طاقت ور ہیرو کی طرح فولادی زرہ بکتر میں ملبوس ، نیام میں اُڑسی تلوار کمر سے باندھے ، چمکتی انی والا نیزہ دائیں ہاتھ میں اور مُنہ زور اسپِ تازی کی لگامیں بائیں ہاتھ میں تھامے، ایڑ لگاتا ،گھوڑا دوڑاتا ، دُھول اڑاتا کھجوروں کے جھُنڈ سے برآمد ہوتا محسُوس کرتا ۔ عین اسی وقت میلوں دُور کسی بستی میں سفید لباس میں ملبُوس حُور جیسی پاکیزہ، معصٗوم ، دیندار ہیروئن عبادت ختم کرکے اُس کی عافیت اور فتح کی دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتی ۔
وُہ سکُول آتے جاتے ہُوئے دیکھتا کہ جہاں سے کچی سڑک سے اُتر کر کھیتوں کی مینڈھ کے ساتھ عارضی کچا راستہ آموں کے باغ تک جانے کے لئے نکالا گیا تھا وہاں ایک کالے رنگ کا دھاتی بورڈ لگایا گیا تھا جس پر سفید پینٹ سے انگریزی لفظ “مین” (MAIN) اور ساتھ کچھ اعداد لکھ کر نیچے باغ کی جانب اشارہ کرتا تیر کا نشان بنایا گیا تھا ۔ عین اُس مقام پر ایک سفری کُرسی اور چھوٹی سی فولڈنگ میز ٹکائے ایک فوجی سپاھی اپنی رائفل لئے کبھی کُرسی پر بیٹھا ڈائیجسٹ یا رسالہ پڑھتا اور کبھی کھڑا نظر آتا ۔ چھوٹی میز پر ایک رجسٹر بھی پڑا ہوتا لیکن اُس نے کبھی کسی کو اُس پر کچھ درج کرتے نہ دیکھا ۔چند فلمی سے رسالے اور کالے رنگ کا ایک میگنیٹو ، فیلڈ ٹیلی فون سیٹ بھی میز پر دھرا رہتا جس کی کالی تار سیٹ سے نکل کر کچے راستے کے ساتھ ہی ساتھ باغ تک بچھی رہتی ۔
چونکہ فوجی گاڑیوں کی نقل و حرکت محدود تھی تو اس کچے راستے پر بہت زیادہ آمد و رفت نہیں تھی ۔ کبھی تو کئی کئی گھنٹے بھی کوئی گاڑی یا کوئی پیدل فوجی اس راستے سے نہ گزرتا لیکن سپاھی ہمیشہ اپنی ڈیوٹی والی جگہ پر موجود رہتا ۔
وُہ اپنے ساتھی طالب علموں کے ساتھ یا کبھی اکیلا بھی آتے جاتے اُس جگہ کھڑے سپاھی کو ضرور سلام کرتا اور اُسے جواب بھی ملتا ۔اگرچہ مختلف اوقات میں مختلف سپاھی ہوتے لیکن گھنی مُونچھوں , دراز قد اور موٹی موٹی آنکھوں والا سپاھی جو کبھی اُسے سکول جاتے ہوئے نظر آتا اور کبھی واپسی پر ، اُسے اپنے تاریخی ناولوں کے ہیرو سے مشابہ نظر آتا ۔
اٗس سپاھی کی کشادہ، سانولی، پیشانی پر مُندمل زخم کا نشان اُسے یقیناً کسی بہت بڑے معرکے میں فتح کے حصُول کے لئے شدید جنگ میں داد شجاعت دیتے ہُوئے آیا لگتا ۔
اُس رات اُس نے ایک موٹا تاریخی ناول ختم کیا تھا۔ اپنے اسلاف کے عظیم کارناموں میں سے ایک اور فاتحانہ قصہ اُس کے دل و دماغ پر قابض تھا ۔ رات ناول اختتام کے قریب تھا سو وُہ کہانی کا شاندار انجام، جہاں کامران و فتح مند مجاہد کا مِلن نیک خُو، پری وِش ، حُور شمائل ہیروئن سے بالآخر ہونا متوقع تھا ادھورا چھوڑ کر معاملہ کل پر ٹال کر سو نہیں سکتا تھا ۔
بس تمت بالخیر تک پہنچتے رات آدھی سے زیادہ گزر گئی ۔
صُبح جاگنے میں معمول سے تاخیر ہو گئی ۔ اُس کے ساتھیوں کی ٹولی خوش گپیاں کرتے ، سائیکلوں کی گھنٹیاں بجاتے ریس لگاتے جا چُکی تھی اور اب اُسے اکیلے ہی سکول کے لئے روانہ ہونا تھا ۔اُس نے جلدی سے یونیفارم پہنا ، تکیے کے ساتھ رکھا ناول کتابوں میں گھسیڑا ، بستہ کیرئیر میں پھنسا کر سائیکل نکالی اور روانہ ہُوا ۔ماں نے آواز دی کہ ناشتہ تو کر تے جاؤ ۔ اُس نے کہا کہ وقت نہیں ہے اور وہ کنٹین سے نان چھولے کھالے گا۔
ماں کی احتجاجی پکار نے گلی کے نُکڑ تک اُس کا پیچھا کیا ۔
وُہ جلدی جلدی پیڈل مارتا ، سائیکل بھگاتا کچی سڑک پر جا رہا تھا کہ رات کے پڑھے قصے کے کئی مناظر اُس کے ذہن کی سکرین پر ظاہر ہُوئے ۔ جلد ہی اُسے فوجی سپاہیوں کے پریڈ کرنے کے احکامات کے نعرے سنائی دینے لگے ۔اُس کے ذہن میں آیا کہ یہ لشکر بھی تو رات والے فتح مند لشکر ہی کی جدید شکل ہے ۔پھر اُسے یاد آیا کہ سڑک اور راستے کے ملاپ والی جگہ پر ڈیوٹی دیتا سپاھی بھی تو اس کے ناول کے ہیرو جیسا ہی ہے ۔ صرف اُسے شائد اپنے مقام کا پتہ نہیں ۔ اگر اسے اپنے مقام اور مرتبے کا پتہ ہوتا ، اپنے کام کی تقدیس کا ادراک ہوتا تو وُہ بیہودہ فلمی رسالے تو نہ پڑھتا ۔
اچانک اُس کے ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا۔
“ اگر اس مجاھد کو فلمی رسالوں کی بجائے تاریخی ناول پڑھائے جائیں تو وہ اپنے مقام سے آشنا ہو جائے ۔ اُس میں ایمان کی حرارت پیدا ہو جائے اور وہ اسلاف کی شاندار روایات کا امین بن جائے ۔
پھر وُہ قلعوں پر قلعے فتح کرے گا اور جنگلوں بیابانوں میں حق کی برتری کے پھریرے لہرائے گا“۔
اپنے خیال کی عظمت کا سوچ کر اُس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
اُس نے عارضی فیلڈ چیک پوسٹ کے قریب پہنچ کر اپنے پسندیدہ سپاھی کو سلام کیا اور بائیسکل سے اُتر کر اُسے سٹینڈ پر لگایا ۔ پھر اپنے کتابوں کے تھیلے سے موٹا ناول نکال کر سپاھی کو دیا اور حیرت زدہ سپاھی سے کہا،” آپ یہ ناول پڑھیں ۔ بہت اچھا ناول ہےُ۔ جب آپ پڑھ چکیں تو مجھے واپس کردیں ۔ میں لائبریری کو واپس لوٹا کر آپ کو ایسا ہی ایک اور ناول لا دوں گا۔”
سپاھی کے چہرے پر پھیلی حیرت میں مسرت بھی شامل ہو گئی ۔
وہ واپس سائیکل کی طرف مُڑ ا تو سپاھی نے اُسے آواز دی ،” گرائیں ! تُم بہت اچھے دوست ہو۔ یہ اپنی کلائی گھڑی مجھے دو۔ میں اپنی یونٹ کے گھڑی ساز سے صاف کروا کر چمکدار بنوا کر کل تجھے واپس کروں گا۔ وُہ ایسا پینٹ لگاتا ہے کہ گھڑی کی سوئیاں گھُپ اندھیرے میں چمکتی ہیں اور اندھیری رات میں بھی ٹائم نظر آ جاتا ہے۔تُم میرے دوست بنے ہو تو مُجھے بھی خدمت کا موقع دو نا۔کل سکول جاتے ہُوئے اپنی گھڑی واپس لے جانا ۔
ہم یاروں کے یار ہیں ۔”
اچھے بچے نے تشکر سے سپاھی کو دیکھا اور گھڑی اُتار کر اُس کے حوالے کردی۔
وُہ جلدی سے سائیکل پر سوار ہو کر زور زور سے پیڈل چلانے لگا تا کہ سکُول سے زیادہ لیٹ نہ ہو جائے ۔
سکُول سے واپسی پر اُس نے دیکھا کہ دُوسرا سپاھی ڈیوٹی پر تھا اور سہ پہر کی مٹتی دُھوپ میں بیٹھا فلمی رسالہ پڑھ رہا تھا ۔
اُس نے سوچا کہ کاش مولوی مشتاق صاحب پہلی کتاب واپس کئے بغیر ایک اور ناول اُسے اِشُو کردیتے تو وُہ اس مجاہد سے بھی گندے فلمی رسالے ترک کروا دیتا ۔
کل رات نیند پوری نہ ہو سکنے کی کسلمندی ،سکُول تک جانے آنے میں سائیکلنگ کی ورزش اور سکول میں دن بھر کے معمول کے مشاغل نے اُسے تھکا دیا تھا ۔ خداداد ذہانت نے اُسے اکثر مضامین سے متعلق کُتب میں شامل اسباق کو بار بار دوہرا نے کی مشقت سے بے نیاز کر رکھا تھا ۔ بہرحال الجبرا اور کسی حد تک کیمیا اُس کی جان کا روگ تو تھے لیکن کسی نہ کسی طور گزر گزران ہو ہی رہا تھا ۔
سکول سے واپس گھر پہنچنے تک سرما کا مختصر دن ختم ہونے پر آچُکا تھا۔ماں صبح ناشتہ نہ کر کے جانے پر مُنہ پھلائے بیٹھی تھی ،لیکن تھی تو ماں ، سو پیشانی چُومے بنا زیادہ دیر رہ نہیں سکتی تھی ۔
رات کے کھانے کے لئے خاص اہتمام کے طور پر اُس کا پسندیدہ مُرغی کا سالن بنا کر منتظر بیٹھی تھی اور معمول کے مطابق بھینس کے گاڑھے دودھ کا موٹی بالائی والا فُٹ بھر کا گلاس الگ رکھا تھا ۔
رات اُسے نیند نے جلد آ لیا لیکن سونے سے پہلے تاریخی ناول میسر نہ ہونے پر بھی مطالعہ کی عادت سے مجبُور وُہ اپنے تایا زاد کے کُتب ذخیرے سے ادھار لئے مقبُول سیریز کے جاسُوسی ناول کے چند صفحات پڑھنا نہ بھُولا ۔
اُسے اتنی گہری نیند آئی کہ رات بھر کروٹ بھی بدلی یا نہیں ، اُسے بالکل ہوش نہیں تھا ۔
صُبح ماں کی آواز کان میں گُونجی کہ “اُٹھو ، مُنہ ہاتھ دھو کر ناشتہ کر لو پھر سکول سے دیر ہونے کا بہانہ بنا کر بھُوکے ہی بھاگ نکلو گے اور سارا دن تمہاری آنتیں مجھے بددعائیں دیں گی “ تو وہ ہڑ بڑا کر جاگ گیا ۔
مکھن میں تلا تہہ دار موٹا پراٹھا ، پیالہ بھر دہی اور تازہ لسی کا گلاس اُس کے مُنتظر تھے۔
معمول کے متعین وقت سے بھی ذرا پہلے وہ تیار ہوکر سائیکل پر سوار گاؤں سے باھر نکلا تو اُس کے ساتھیوں کی ٹولی ابھی نہیں آئی تھی ۔
وُہ مزے مزے سے پیڈل گھُماتا سُست رفتار سے بائسکل چلاتا گاؤں سے باھر نکل آیا ۔
اُسے اُمید تھی کہ اُس کے ساتھی اپنی معمول کی رفتار سے نکلے تو جلد اُسے آ لیں گے ۔
سردیوں کی ٹھٹھرتی صُبح کُہر کی ہلکی تہہ میں خُفتہ ، کمزور سُورج کی کپکپاتی روشنی کے بل پر دیہاتی مناظر کی رُونمائی کے درپے تھی ۔ گاؤں سے کچھ ہی دُور آنے پر اسے ماحول میں کچھ تبدیلی کا احساس ہُوا ۔ انجانے خدشے سے دوچار اُس نے بائیسکل کی رفتار بڑھا دی ۔چند ہی منٹ میں وہ گاؤں سے دُور نکل آیا اور سامنے طلوع ہوتے سورج کی ملفوف روشنی میں کُہرے کی چادر سے جھانکتے اُسے آم کا باغ اور جامن کے درختوں کے چھوٹے جھُنڈ دھندلے سے نظر آئے ۔ جلد ہی وہ سڑک سے نکلتے کھیتوں والے راستے پر چیک پوسٹ کے مقام پر آ پہنچا ۔
نہ کوئی بورڈ اور نہ کوئی کُرسی ، نہ کوئی میز نہ رجسٹر نہ ٹیلی فون نہ رسالہ ۔
اُس نے بے تابی اور تشویش سے باغ اور درختوں کے چھوٹے جھُنڈ کی طرف نظر دوڑائی ۔
نہ کوئی خیمہ نہ ٹرک نہ جیپ ۔
کوئی میس نہ دُھواں ۔
دُھول بھری سڑک پر ٹائیروں کے خوابیدہ نشان ، گہری خاموشی ، اُداسی اور کھلے دیہاتی علاقے کی دسمبر کی موثر سردی ۔
مانوس سی آواز اُبھری جو بڑھتی چلی گئی اور چاچا دین محمد اپنی گدھا گاڑی بھگاتا دُھول اُڑاتا آ نکلا ۔
“ چاچا فوجی چلے گئے ؟”
اُس نے مری مری آواز میں پُوچھا ۔
“ ہاں پُتر ۔ رات نکل گئے ۔ سب جگہ خالی کر گئے ۔”
چاچا تیرے تو کھیتوں میں اُن کے مورچے تھے ۔ اچانک ہی حرکت کا حُکم ملا ہوگا جو اچانک چلے گئے ۔ اللہ خیر کرے ۔”
وُہ تشویش ، حیرت اور دُکھ سے بولا ۔
“ نہیں میرے پڑھاکُو پُتر ۔ اُنہیں تو دو ہفتے سے پتہ تھا کہ وہ بُدھ کی رات چلے جائیں گے ۔ دو دن پہلے ہی اُنہوں نے مورچے برابر کرنا شروع کر دئیے تھے ۔اچانک کچھ نہیں ہوا ۔ اپنے پروگرام کے مطابق گئے ہیں “۔
اُسے ایک اور جھٹکا لگا ۔
اُس نے اپنی بائیں کلائی دیکھی جہاں گھڑی ہُوا کرتی تھی ۔
چاچے دینے نے گھُما کر تُوت کی لچکدار چھڑی اپنے گدھے کے کُولھے پر رسید کی تو درد کسی اچھے بچے کے کُولھے پر محسُوس ہو کر رُوح تک اُتر گیا۔”

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

April 2024
M T W T F S S
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
2930