ہری گود ۔۔۔ ممتاز حسین
ہیری گود
ممتاز حسین
آ آ آ ۔۔۔ آہ
عاصم کے جسم پے جیسے اس کا ہاتھ رینگا۔ آنکھیں بند کرتے ہوئے اس کے گلے سے عجب سی آوازیں نکلیں ۔ اس کا ہاتھ عاصم کے جسم کے اس دورا ہے پے رکا جہاں دونوں سڑکیں ایک بڑی شاہراہ میں ضم ہوتی ہیں۔ وہاں اس کے جسم کے جغرافیے کا وسط اور مرکز تھا۔
مطلع ابر آلود ہوا۔ زلزلے کا ارتعاش جسم کے پہاڑی اور میدانی علاقے میں بھونچال لے آیا۔ زور دار جھٹکوں نے آتش فشاں پہاڑ کو پھاڑ دیا۔ پہاڑ کے پھٹنے کے بعد ایک خاموشی سی طاری ہوئی اور غسل خانے میں ایک سناٹا چھا گیا۔ عاصم نے فوراً سنک میں لگی ہوئی ٹوٹی کو بند کیا۔ جو اس سناٹے کو قطروں کی ٹپ ٹپ سے توڑ رہی تھی۔
ایک اور بھونچال اٹھا۔ اس دفعہ عاصم کے جسم میں نہیں غسل خانے کے دروازے پہ۔ عاصم کی والدہ نے دروازے کو پیٹ کر زلزلہ برپا کیا۔ دھپ دھپ دھپ عاصم دروازہ کھولو ۔ اتنی دیر سے کس سے باتیں کر رہے ہو۔ کون ہے، کون ہے اندر۔ دروزاہ پھر زور سے پیٹا۔
عاصم نے فورا غسل خانے کی کھڑکی کوکھولا۔ اور ٹوٹی کو بھی پوری مقدار سے کھول دیا۔ ہاتھ منہ دھو کرفوراً کپڑے پہن لیے۔
کیا ہے ماں ۔ دروازہ کھولتے ہوئے عاصم نے جواب دیا۔ کون ہے اندر ۔ عاصم کو دھکا دیتے ہوئے عاصم کی ماں اندر گھس آئی۔ اندر کوئی بھی نہ تھا۔ کھڑ کی کیوں کھلی ہے۔ کون تھی اندر کس کو بھگایا ہے۔ کسی سے عجیب اور غریب باتیں کر رہے تھے۔ میں ہوں بس میں ہوں ماں۔ میں یہاں اکیلا ہوں کوئی بھی نہیں ہے۔
عاصم کی ماں نے شاور کرٹن کے پیچھے سے لے کر چھوٹے غسل خانے کی ہر چیز کی پوری طرح تلاشی لی لیکن کچھ نہ پایا۔ کیا بکواس بک رہے تھے اور کیا کر رہے تھے؟
کچھ بھی تو نہیں ماں ۔۔ تمہیں بس وہم ہوا ہے۔
عاصم کی ماں بنا کسی ثبوت کے چپ رہ گئی۔ تمہارے چال چلن ٹھیک نہیں ہیں ۔ آجانے دو تمہارے ابا کو وہی تمہیں سبق سکھائیں گے۔ عاصم کی ماں کی تشویش پریشانی میں بدل گئی ۔ فکر کی سوچ نے دل اور دماغ پہ قبضے کے ہاتھ جمانے شروع کر دیئے ۔ عاصم کی ہر حرکت کی نہ صرف خود کڑی نگرانی شروع کی بلکہ پوری سیکرٹ سروس کی ٹیم بنا کر عاصم کی سراغ رسانی پر نافذ کر دی۔ چھوٹے بیٹے کو جیمز بانڈ کا عہدہ سونپا جو اس نے بڑی خوشی اور جوش کے ساتھ قبول کر لیا اور فوراً اس پر کارروائی عمل میں لے آیا۔ اس کی ہر حرکت کی اطلاع چھوٹی بہن منی بنی سے براہ راست ہیڈ کوارٹر کو پہنچتی لیکن والدہ حضور کی سیکرٹ سروس کو کوئی خاطر خواہ ثبوت مہیا نہ ہوا۔
رات کو پھر عاصم کے جسم کو کسی نے چھوا۔ اس کے ہاتھ کا چھونا عاصم کے جسم کے ہر مسام کو لطف سے بھر دیتا۔ خوشی اس کے چہرے سے غصے اور تکلیف کے حیرت انگیز لطف سے پھول کی طرح کھلتی صبح کی اوس اس کے ننگے پاؤں کو میٹھی ٹھنڈک سے بھگو دیتی۔ سکون کی میٹھی نیند اس کے پاؤں دباتی ۔ تھکاوٹ اس کی کن پٹیوں پہ مالش کر کے بھاگ جاتی ۔ ہر رات عاصم کے کمرے سے سسکی بھری دھیمی دھیمی آوازیں آتی رہتیں۔ کئی مرتبہ پوری ٹیم نے کمرے پہ دھاوا بولا لیکن ہر دفعہ عاصم دروازہ کھلنے سے پہلے کمرے کی کھڑکی کو کھول چکا ہوتا۔ اور پوری ٹیم کی ہر خاطر خواہ کوشش کے باوجود گولڈ فنگر تو کیا اس کا ناخن بھی نہ ملا۔
ہر دفعہ کی ناکامی نے ماں کو اور بھی تشویش کے بھنور میں پھنسا دیا۔ عاصم کی ماں نے اس مسئلے کو اور بھی سریس لیا۔ بچوں کی ٹیم کو برخواست کیا کہ مسئلہ کچھ زیادہ پیچیدہ ہے۔ اور اڑوس پڑوس کے بزرگوں سے رجوع کیا۔ لیکن کوئی خاطر خواہ حل نظر نہ آیا۔ لیکن گھر کی نوکرانی کا مشورہ دل کو لگا۔ مشورے کی تصدیق نوکرانی کے خاوند نے کر دی تو بیگم صاحب کو یقین آگیا کہ شادی سے پہلے نوکرانی کے خاوند پہ ایک پری کا سایہ تھا۔ وہ بری طرح اس پہ عاشق ہوگئی تھی۔ بڑی مشکل سے پیر جھنڈے شاہ کے چلے سے اس نےنوکرانی کے خاوند کو چھوڑا۔
عاصم کی ماں تعلیم یافتہ تو تھی لیکن بیٹے کو کھو دینے کے خوف نے عجیب و غریب خیالوں کے جال نے جکڑ لیا تھا۔
ہاں ۔۔۔ عاصم ہے تو وجیہہ و شکیل نو جوان بچہ ۔ کرکٹ کھیلتے ہوئے جب ہاتھ گھماتا ہے تو لڑکیوں کے دل گیند سے پہلے گھومتے عاصم کے بلے سے جاٹکراتے ہیں۔ ہوں۔۔ لیکن میں نے کبھی عاصم کو کسی لڑکی میں دلچسپی لیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ بس یہ تو اپنے باپ کی طرح بڑا مغرور ہے۔ کوئی پری ہی ہوگی جو اسے پسند آئے گی۔ عاصم کی ماں ڈر کے مارے کھڑی ہو گئی ۔ اور فوراً نوکرانی کو حکم دیا۔ پیسوں کی پرواہ کیے بغیر جو بھی نذارا نہ ہو ہر قیمت پر پیر جھنڈے شاہ کا بندو بست کرو۔ لہذا جمعرات کو پیر صاحب نے گھر کے صحن میں مرچیں، پیاز اور نہ جانے کیا کیا جلا کر دھویں سے پورے گھر کو چھینکوں سے ہلکان کر دیا۔ جتنی چھینکوں کی تعداد بڑھتی پیر صاحب اور جلال میں آجاتے۔ سرخ آنکھوں سے نعرہ دار آواز میں چیتے ۔ نکل اس گھر سے جان چھوڑ عاصم کی ۔ بوتل میں دم کیا ہوا پانی عاصم کے کپڑوں ، بستر اور ہر اس جگہ چھٹر کا جہاں عاصم کی پہنچ تھی۔ عاصم کی ماں کو کچھ سکون آیا۔ بڑی مقدار میں مٹھائیاں ، کھانا مسجد میں نیاز کی نذر کیا ۔ صدقہ بھی نکلا اور گوشت عاصم پے وار کے پانی میں پھینکا۔
سب کا سب رائیگاں گیا کیونکہ عاصم کے کمرے سے آوازیں آنے کا تنا تا بند نہ ہوا۔ عاصم کی ماں نے پیر جھنڈے شاہ کو بہت کو سا۔ عاصم کی ماں نے سارا معاملہ عاصم کے والد کے آگے کھول دیا۔ دو بہت بنے اور ان کا مذاق اڑایا کہ اس ترقی یافتہ دور میں تم کیسی جاہلوں والی سوچ رکھتی ہو۔ مجھے تو تم وہ پری چڑیل لگتی ہو جو اس سے چھٹی ہوئی ہو۔ چھوڑ والے ۔ کچھ بھی ایسا نہیں ہے۔ وہ اب اپنی حفاظت خود کر سکتا ہے۔ جینے دو اس کو اس کی زندگی میں وہ بڑا ہو گیا وہ بچہ نہیں رہا۔
کچھ عرصہ تک تو عاصم کی ماں کو تسلی رہی کہ اس سائنسی دور میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ لیکن جلدی ہی انسانی رشتوں کے تجسس کے ایک اور خوف نے آن گھیرا۔
کہیں عاصم لڑکیوں کی بجائے لڑکوں کو پسند نہ کرتا ہو۔ کیا پتہ اس جدید دور میں رشتوں کی مختلف زاویوں کی آشنائی کا۔ آج کل کیا پتہ ہم جنس ہونا تو فیشن ہے۔ اب تو شہر میں ہم جنسوں کے کلب بھی کھلتے جارہے ہیں ۔ کہیں عاصم غیر فطری بہاؤ میں تو نہیں بہہ گیا۔
ایک اور بڑی پریشانی نے آن گھیرا۔ یا سر کے ہر دوست پہ شک کرتی ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں نے یا سر کی ماں کے اندر ایک شک کا پہاڑ کھڑا کر دیا۔
کئی پیروں کے دربار پے جا کر پھوٹ پھوٹ کے رو کر دعا مانگتی ۔ اس کو لڑکوں سے بچاؤ ۔ ہم جینے کے قابل نہیں رہیں گے۔ میں آسیب قبول کر لوں گی لیکن لڑکوں والی بدنامی کو برداشت نہیں کر پاؤں گی ۔ جیسے عاصم کالج سے واپس آیا اس کے کمرے میں جا کر ہاتھ جوڑ کر اپنے بیٹے سے روتے ہوئے التجا کی۔ بیٹے سچ سچ بتاؤ تمہیں لڑکیاں پسند ہیں۔ یاسر نے غصے میں تنگ آکر جواب دیا۔ نہیں نہیں نہیں۔ یا سر کی ماں اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اسے یقین ہو گیا کہ یا سرلڑکوں کو پسند کرتا ہے۔
ہائے ہائے ہماری خاندان کی عزت مٹی میں ملا دی تم نے۔ اس سے اچھا تھا پیدا ہی نہ ہوتے ۔ کیسی کالی کلوٹی سے بھنگن اپنا منہ کالا کر لیتے کوئی تجھے چمٹ جاتی میں برداشت کر لیتی ۔ ہائے یہ کیا کیا تم نے۔ یا سر کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ ماں تم سمجھ کیا رہی ہو۔ کہنا کیا چاہتی ہو۔ صاف صاف بتاؤ ۔ یا سرتم قسم کھاؤ تم سچ سچ بتاؤ گے۔
ہاں ماں تمہاری قسم سچ سچ بتاؤں گا۔
بیٹے تم لڑکوں پسند کرتے ہو کیا ؟ عاصم چیخا۔ ماں تمہیں پتہ ہے تم کیا کہہ رہی ہو۔ ہاں کیا تمہیں لڑکے پسند ہیں۔ نہیں نہیں ماں۔ مجھے نہیں پسند کیا اول فول کہہ رہی ہیں آپ۔
عاصم کی ماں نے سسکیاں لیتے ہوئے عاصم کا ہاتھ اپنے سر پر رکھا۔ کھا ؤ قسم تمہیں لڑ کے پسند نہیں ہیں۔ عاصم نے بیچ بیچ ماں کے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی کہ اسے لڑکے پسند نہیں ۔ آپ کو غلط نہی ہوئی ہے۔ اور یہ وعدہ لیا کہ تم مجھے میرے حال پر چھوڑ دو گی ۔
یا سر کی ماں کو تسلی ہو گئی۔ پھر نذرانہ اور نیازیں بانٹی گئیں لیکن یا سرمسلسل کسی کو جلتا رہا۔ آزادی سے کبھی اپنے بیڈ روم میں کبھی غسل خانے میں ۔ کبھی کو ٹھے کی چھت پر لیکن ماں کوتسلی تھی اور اعتقاد تھایا سر کی قسم کا۔ اور کبھی کسی نے اس کا پیچھا نہیں کیا۔
کافی دن گزرنے کے بعد یا سر نے اپنے دائیں ہاتھ میں کچھ تبدیلی دیکھی۔ بالکل ہتھیلی کے وسط میں ایک غبارہ سال آبلہ پھولنے لگا اور بڑا ہونا شروع ہو گیا۔ یا سر خاموش رہا اور اس کا کسی سےذکر نہیں کیا۔ ہاتھ کی سوجن کی تکلیف بڑھنے لگی۔ ایسے لگتا تھا اس کی ہتھیلی حاملہ ہو گئی ہے۔ ایک رات تکلیف اتنی بڑھی کہ اس کے ہاتھ کی انگلیاں درد سے تڑپ رہی تھیں ۔ ہاتھ کے درمیان کی دو انگلیوں کے درمیان درد اور بھی بڑھنے لگا۔ عاصم نے دوسرے ہاتھ سے پھولے ہوئے تھیلی کے پیٹ کو مسلنا شروع کر دیا۔ تکلیف برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے اور زور سے اپنی تھیلی کو بھینچا۔ دو درمیانی انگلیوں کے درمیان والی جگہ سے ایک چاندسی بچی پیدا ہوئی ۔ عاصم نے فوراً اپنا ہاتھ اپنی پسلی پر رکھ کر بچی سے پوچھا۔
کیا تم حوا ہو ؟
ہاں آدم میں تیری حواہی تو ہوں !