گھسٹتا انسان ۔۔۔ ممتاز مہر
سندھی کہانی
۔ میں چل رہا ہوں۔ مسلسل چل رہا ہوں بہت تھک گیا ہوں۔ لیکن رکتا نہیں۔ بیٹھتا نہیں۔ جب چل نہیں سکتا تو گھسٹتا ہوں۔
۔ پیچھے دیکھتا ہوں میرے چھوٹے چھوٹے ننھے ننھے بچے بھی میرے پیچھے چلتے آ رہے ہیں۔۔ ان کے پیچھے ہمارا گھر بھی گھسٹتا، ڈولتا، ڈگمگاتا چلا آ رہا ہے مڑ کر دیکھنے میں چند منٹ لگ گئے۔۔ مڑ کر دیکھنا بھی ضروری تھا۔بچوں کا خیال کرنا ہی پڑتا ہے۔ اپنے بچے دور سے دھندلے دھندلے نظر آ رہے ہیں گھر بھی مٹی کے کسی غبار میں پھنسا ہوا ہے۔ بچوں کی رفتار بہت سست ہے ۔ گھر بھیڈگمگاتا ڈولتا چلا آ رہا تھا۔۔ اتنی سی دیر میرے رکنے کی تھی کہ ٹخنوں تک میرے پاؤں میرے اپنے ہی خون میں ڈوب گئے۔ یہ خون میرے بدن کی نس نس نکل رہا تھا۔ یہ خطرے کی نشانی تھی کہ مجھے ایک جگہ روکنا نہیں چاہیے بلکہ چلتے رہنا چاہیے۔ خون نکلنے سے کمزوری اور بڑھ گئی سست رفتاری سے دوبارہ چلنا شروع کر دیا۔۔ مجھے اپنی فکر نہیں۔ زیادہ فکر مجھے اپنے بچوں کی ہے جو میری وجہ سے اس بڑے عذاب میں ہیں۔ بچوں کو گھر میں رہنا چاہیے انہیں ہر طرح کا سکھ اور آرام میسر ہونا اور یہ تب ہوگا جب گھر ایک جگہ مرکوز ہوگا لیکن گھر مرکوز نہیں۔ وہ بھی میرے پیچھے پیچھے چل رہا ہے قیمتی سامان۔ خاص کر بڑے بوڑھوں کی گزرے ہوئے عزیزواقارب اور بھائیوں بہنوں کی نشانیاں بہت کچھ۔۔ گھر ایک جگہ مرکوز نہیں۔میں ہمیشہ چلتا رہتا ہوں ہلتے جلتے گھر میں بچے سکون سے نہیں رہ سکتے اور انہیں ہمیشہ میری یاد ستاتی رہتی ہے لیے وہ مجھ سے ملنے کو بہت بے تاب رہتے ہیں اور میرے پیچھے پیچھےچلتے آتے ہیں۔ انہیں تکلیف میں دیکھ کر میں اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہوں۔ مجبوری ہے۔ میں ایک جگہ رک نہیں سکتا بیٹھ نہیں سکتا گھڑی بھر کو اپنے بچوں سے بھی نہیں بہلا سکتا۔ اپنے گھر کو ایک جگہ مرکوز نہیں کر سکتا۔ گھر میں پڑے سامان کی حفاظت نہیں کر سکتا
۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے۔ موسم بہت خراب تھا۔ بچے میرے پیچھے گرتے پڑتے چلے آرہے تھے۔۔ پکار رہے تھے، ” ابا ۔۔۔ ابا ۔”
ان کی آوازیں سن کر میرا دل بھر آیا۔ رک گیا سوچا۔ارادہ کرلیا۔ چاہے میرا خون بہے میں اپنے ہی خون میں ڈوب جاؤں لیکن میرے بچوں کی یہ حالت زار نا قابل دید ہے۔۔ ناقابل برداشت تھے۔ میں کھڑا رہا بچے گرے پڑے گھسٹتےمیرے قریب آگئے۔” ابا۔۔۔ ابا ” انکے خشک منہ سے بارہا ایک لفظ نکل رہا تھا۔۔ کتنا درد تھا۔ ایک لفظ میں۔ پیار کی شدت تھی اس ایک لفظ میں۔ میں نے بازو پھیلا کر انہیں باہوں میں لے لیا۔ ان کے ساتھ زمین پر بیٹھ گیا۔ کل چار بچے تھے اپنے پیارے پیارے بچے۔۔ سب سے چھوٹا بچہ میری گود میں لیٹ گیا تھا۔ دوسرا اپنی چھوٹی چھوٹی باہیں میرے گلے میں ڈال کر جھول گیا تھا۔ بچے بہت تھکے ہوئے تھے۔ تھکا ہوا تو میں بھی تھا۔لیکن بچوں کی معصوم خوشبو نے میری تھکن دور کر دی تھی۔۔احساس نہیں ہوا کتنا وقت گزر چکا ہے کتنی گھڑیاں بیت گئی ہیں۔پتہ ہی نہیں چلا بچے تو۔۔بچے تو مجھے لپٹ گئے تھے مجھ پر نشہ بھی طاری تھا۔ کچھ دیر بعد ہوش سنمبھالا تو کیا دیکھتا ہوں۔۔ اف۔ بچے۔ میرے اپنے ہی بے خون میں ڈوب رہے تھے میرے چاروں طرف خون کا ایک چھوٹا سا تالاب بن چکا تھا۔ جھپٹ کر اٹھا ڈوبتے ہوئے بچوں کو کھینچ کر خشک زمین پر لے آیا۔۔۔ اپنے پھٹے ہوئے کپڑوں سے ان کے جسم پر لگا خون جلدی جلدی صاف کیا۔ پھرانہیں وہیں چھوڑ کر ڈوبتے دل کے ساتھ قدم آگے بڑھا دیے۔ مڑ کر پیچھے کبھی نہیں دیکھا۔۔ فقط آوازیں کانوں میں آ رہی تھیں، ” ابا ۔۔۔ ابا “
اس واقعے کے بعد میں کبھی ایک لمحے کو بھی نہیں رکا۔ نہ ہی کبھی اپنے بچوں سے ملا ہوں۔۔ چلتے چلتے میرے پاؤں چھلنی ہوگے ہیں۔ اب تو میں زیادہ تر گھسٹتاہوا چلتا ہوں۔ اب تو اتنی طاقت بھی نہیں کہ گردن موڑ کر پیچھے دیکھ سکوں۔ دور سے۔ بہت دور سے ۔۔۔۔اب بھی۔ کبھی کبھی ہلکی بہت ہی پلکی آواز کانوں میں پڑتی ہے، ” ابا ۔۔۔۔ ابا۔”
Read more from Mumtaz Mehr
Read more Urdu Stories