حلب کی مریم ۔۔۔ ممتاز شیریں
حلب کی مریم
(ممتاز شیریں)
وہ ایک فٹ اونچے پتھر پر سمٹ کے بیٹھی تھی۔ اس کا چہرہ جھکا ہوا تھا۔ پھولدار اسکارف جو کبھی گلابی ہو گا اب بھوری مٹی جیسا ہو گیا تھا۔ اس کے عبایہ پہ بھی جا بجا مٹی تھی۔ سخت سردی میں بھی اسکے وجود پر کوئی گرم کپڑا نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس نے اپنے کھردرے ہاتھ دیکھے اور بایئں ہاتھ کی تیسری انگلی سے ایک انگوٹھی اتاری۔ کتنی ہی دیر وہ پلک جھپکے بغیر اسے دیکھتی رہی۔وہ انگوٹھی اسے وہاں سے بہت دور لے گئی تھی۔ اسکی آنکھوں کی گیلی سطح پر ایک عکس ابھر رہا تھا۔
وہ قدیم طرز کا، سڑک کنارے ایک خوبصورت گھر تھا۔ یہ داخلی دروازے اور دیواروں پر پھولوں کی دلکش آرائش تھی جو اسے باقی گھروں سے منفرد بناتی تھی۔ اسی گھر کے اوپر والے کمرےکی بالکنی میں کھڑی دوشیزہ بہت بے چینی سے باہر سڑک پر نظریں جمائے کھڑی تھی۔ یہ مریم تھی۔ دور سے نظر آتی ہر سیاہ کار پہ اسکی نظر ٹک جاتی مگر قریب آنے پہ وہ بھنویں سکیڑتی ، اور پھر اسکی نظریں دوبارہ سیاہ کار تلاش کرنا شروع کر دیتیں ۔ اسکے تینوں بچے اندر اپنی دادی کے ساتھ تھے، ان کی طرف سے بے فکر وہ اپنے شوہر کا انتظار کر رہی تھی۔ یہ اس کا روز کا معمول تھا ۔ وقت سے بہت پہلے ادھر آ کے حمدان کا انتظار کرنا، تبھی دور سے آتی سیاہ کار نظر ائی، یہ کار وہی تھی، اس کا چہرہ کِھل اٹھا ۔ تیزی سے سیڑھیاں اترتی وہ اندرونی دروازے پر آئی، کار سے اترنے والا خوش شکل مرد تھا جس کے خدوخال اسے عرب ظاہر کرتے تھے۔ اندرونی سیڑھیوں پہ کھڑی اسکی بیوی مسکرائی ۔ حمدان کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیلی ۔ بلا شبہ یہ گھرانہ محبتوں کا گہوارہ تھا۔ یہ شام کے قدیم شہر حلب میں آباد خاندان تھا۔ مریم حمدان کا خاندان۔
اپنی ہتھیلی پہ رکھی انگوٹھی پہ نظریں جمائے اسے یاد آیا جس وقت یہ انگوٹھی اسے حمدان نے پہنائی تھی تب اسکے ہاتھ بےحد ملائم تھے۔ حمدان کے ساتھ ہی اسے اپنے بچے یاد آئے، خدیجہ اور دودھ پیتا محمد۔ اس نے رونا شاہا لیکن اسکی گیلی آنکھوں سے ایک قطرہ بھی نہ نکل سکا۔ سیاہ حلقوں میں دھنسی آنکھیں لہو رنگ تھین گویا آنسوں کے ساتھ لہو بھی نکل نکل کر انہیں خالی کر گیا ہو۔ اسے یاد آیا شروع شروع میں جب حلب پہ حملہ ہوا تھا تو ہر بات پہ اسکی آنکھوں سے آنسو بہتے رہتے۔ اسے وہ آدھی رات بھی یاد آئی جب اچانک انہیں گھر چھوڑنا پڑا تھا ۔ صرف بچوں اور اماں کو ساتھ لئے وہ نکلے تھے ۔ پیدل بھاگتے، گلیاں بدلتے، گھنٹوں بعد محفوظ جگہ پہنچے تھے۔اسکی نظروں میں پھولوں سے ڈھکا گھر آیا اور پھر جب وہ ادھر آتے ہوئے اپنے گھر کے پاس سے گزری تھی، اسکا دل کٹ گیا تھا، وہاں کچھ نہیں تھا۔ کچھ بھی نہیں تھا۔ ٹوٹی اینٹوں کا ملبہ ، جلے ہوئے مکان، خاک اور خون میں بس وحشتیں تھیں۔ وہاں کوئی پھول نہیں تھے، صرف شعلے تھے، راکھ تھی دھواں تھا۔
اسکے گلے میں نمکین پانی پھنسا، پھول سی نازک خدیجہ کی سوال کرتی نظریں اسکے سامنے تھیں۔ وہ جانتی تھی اسکی بیٹی بھوک سے نڈھال ہے مگر اصرار کر کے کھلانے والی ماں بھوک سے بلکتے بچوں کو دیکھ کر بھی خاموش لبوں پہ قفل ڈالے بیٹھی تھی۔ دن بھر حمدان کو رضاکارانہ کام کرتے دیکھتی رہتی ۔ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ بھی لہو لہو گولوں کو اٹھائے پھرتی۔ وہاں سخت سردی تھی اور فضاء میں جلتے شعلے ، ایسے ہی فضائی شعلے برف پہ برسے تھے۔ تاریکی میں بمباری ہوئی تھی اور شعلے اس کا آشیانہ جلا گئے تھے۔ دھواں، چیخ و پکار، آہیں، ایک قیامت تھی۔ صرف احمد اور وہ بچ گئے تھے۔ حمدان، خدیجہ اور محمد کی دائمی جدائی پہ وہ ریزہ ریزہ ہوئی تھی۔ اسے یاد نہیں وہ سب سے زیادہ کس کے لئے روئی تھی، حمدان کے لئے ، جس سے جدائی کا تصور بھی سوہاں روح تھا۔ خدیجہ، اسی کے وجود کاحصہ، نیلی آنکھوں والی بیٹی، اسکا دل سکڑنے لگتا یا دودھ پیتے معصوم محمد کئ لئے جس کے لمس کا احساس اسے اب بھی نیند سے جگا دیتا تھا۔ اس پر سکتہ تھا ۔مگر احمد، وہ ایسے تڑپ تڑپ کے رویا تھا کہ ہر آنکھ اشک بار تھی ۔ اور پھر وہ احمد کا ہاتھ ایسے تھام کے رکھتی کہ نیند میں بھی نہ چھوٹتا۔ وہ خوفزدہ تھی، وہ بزدل تھی ۔ اسے نہیں معلوم وہ کیسے یہاں ترکی کی سرحد پہ ان لاکھوں شامی مہاجرین کے ساتھ تھی ۔ اس نے اپنے پپڑی زدہ خشک ہونٹوں کو زبان پھیر کے تر کرنا چاہا ۔ اس سے چند قدم دور چند بچے بیٹھے تھے، احمد کو آواز دے کے بلایا ۔ اس نے دیکھا احمد کے جوتے بالکل پھٹ چکے تھے ۔ احمد کو انگوٹھی دیتے ہوئے اس نے صرف اسکی طرف دیکھا تھا ۔ بغیر سوال کئے احمد سمجھ چکا تھا کہ اس وقت ضرورت اس زیور میں چھپی تمام داستانوں پہ بھاری تھی ۔ اہل حلب کو دینے کے لئے اسکے پاس یہ آخری متاع تھی۔
مریم نے اپنے پیروں سے لیڈیز جوتے اتارے ۔ وہ خستہ تھے لیکن احمد کے جوتوں کی طرح مکمل پھٹ نہیں گئے تھے۔ کٹتے دل کے ساتھ اس نے اپنے لخت جگر کو بڑے سائز کے زنانہ جوتوں میں جاتے دیکھا۔ دور کہیں آدان ہو رہی تھی۔ وہ اٹھی، سجدہ کرنے کا وقت آ گیا تھا ۔ ننگے پاوں خیمے کی طرف جانے والی یہ دوشیزہ، حلب کی مریم تھی۔