یخ میں تپ ۔۔۔ منیر احمد بادینی
بلوچی کہانی
یخ میں تپ
کہانی کار۔۔۔۔۔ مُنیر احمد بادینی
اردو ترجمہ : کے بی فراق
—————————–
عزیز بالکل تیار تھا۔ ساڑھے گیارہ بجے ان کو سینٹ جوزف گرلز اسکول سے اپنی صدف کو لینا تھا۔ آج صدف کی آٹھویں جماعت کا نتیجہ نکلنا تھا۔ عزیز نے سوچا صدف پاس ہوگی۔ اس نے اپنے جوتے کے تسمے بھی باندھ دیئے۔ دروازہ مقفل رکھا اور نوکر کے لیئے صرف باورچی خانہ کھلا رکھا کہ صدف کو اسکول کے گیٹ سے لینے کے بعد ڈیڑھ سو میل کے سفر پر روانہ ہونا تھا۔ گاڑی اپنی ذاتی تھی اسی لیئے شام تک پہنچنے کی امید تھی تاکہ نتیجہ کے دوسرے دن کے لئے اپنے علاقہ کو جانا ہو۔ لیکن عزیز کو پتا تھا کہ صدف اپنے پاس ہونے کی خوشی میں کہاں صبر کرتی کہ ماں اور دادی سے قریب ہونا اس کے لئے ناگزیر تھا اسی لیئے وہ آج کل جانے کا پروگرام بناتی جبکہ کل ویسے بھی جمعہ کی چھٹی تھی لیکن خیر۔۔۔
عزیز کو ڈیڑھ سو میل کے سفر کے خیال نے تھوڑا سا خوش رکھا جس طرح گزرے ہوئے دنوں کی پژمردگی اس کے دل و دماغ سے گھٹ ر ہی ہے اور زندگی کا ایک نیا حوصلہ اس کے دل میں دھیر دھیرے بڑی خاموشی سے ایسے پیدا ہورہا ہے جیسے ساتھ دھند ہی بادِ صر صر اچانک چلنے لگے، اس نے اپنی گھڑی دیکھی کہ ابھی تک ساڑھے نوبجے تھے۔ گھڑی کی سوئی دھیرے دھیرے ہل رہی تھی۔ جبکہ اس نے چاہا کہ یہ تیزی سے حرکت کرے تاکہ وہ اس گھٹن سے دور نکل جائے ۔ یہ وہی دن تھے کہ عزیز کو خود پتا نہیں تھا کہ اسے کون سی بیماری لگ گئی ہے ۔ اس کا معدہ بالکل ٹھیک تھا۔ رات نیند مکمل ہوگئی تھی ، دل اچھی طرح دھڑک رہا تھا ، دماغ بھی اچھی طرح کام کررہا تھا ، فکری پریشانیاں بھی اتنی زیادہ نہ تھیں لیکن اسے اپنی ان بہت سی خوبیوں کے باوجود خیال آرہا تھا کہ دُنیا کے مظاہر کے لئے کسی بھی طرح کی بندش تو نہیں۔۔۔۔
ہر شئے بالکل آزاد ہے، ہر شئے ازخود بے ترتیب ہے جس طرح کیمرہ کی ریل کےپردے پر لوگوں کی تصویریں پہلے سے اُلٹی بنتیں تاکہ واش نہ کرنا پڑے یا جیسے بڑی سخت سردی میں گاڑی کے شیشوں کے پیھچے ، باہر کی ہر چیز تاریک دکھائی دیتی ہے ۔ اسی طرح اب عزیز کو خیال آرہاتھا کہ اس کے اردگرد ہر شئے تاریک تر ، گرد بھری اور بے معنی ہوئی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اس کو محسوس ہورہا تھا کہ اسکے تندرست بدن پر ہزاروں من بار پڑا ہے۔ وہ اسی بار کی وجہ سے بیمار ہے اور اس کا ظاہر میں تندرست دکھائی دینے والا جسم اصل میں بالکل بیمار ہے۔ کبھی کبھی عزیز سوچتا کہ ایسے ہی بیٹھے بیٹھے اس کا دم نہ نکل جائے۔ اور یہی سبب تھا کہ وہ کسی بھی جگہ جانا نہیں چاہتا تھا۔ اور کسی سے بات کرنا نہیں چاہتا تھا ۔ بس اسی حالت میں خوش تھا۔ کچھ دن پہلے ڈاکٹر کے یہاں گیا، ڈاکٹر اس کا دوست تھا، اس کو تسلی دی کہ یہ کچھ بھی نہیں صرف وہم ہے۔ یہ اپنے آپ ہی ٹھیک ہوگا۔ ڈاکٹر نے اس کی تسلی کے لیئے اسے کچھ خواب آوار دوائیاں کھانے کو کہا۔ لیکن عزیز کو ایسے معلوم ہوا کہ اس کی بیماری ڈاکٹر کی دوائیوں سے بڑی بیماری ہے۔ وہ سوچتا تھا کہ یہ دنیا کے تمام ڈاکٹر اور حکیم نہیں جانتے کہ اس کی بیماری کیا ہے؟۔ اور وہ جانتے بھی کیسے؟ کیونکہ اس کی علامتیں جسمانی نہیں بلکہ اس کا تعلق اس کی روح سے تھا۔ اور ڈاکٹر آتما کے بارے میں کیا جان سکتے ہیں ؟ وہ جسم ، بدن اور ہڈیوں ، رستے ہوئے زخموں کے مواد کو جان سکتے ہیں ۔ ان کو روح کے زخموں کا کیا پتا؟ پھر وہ یہ بھی سوچتا کہ کیا ایسانہیں ہے کہ کسی نے گہرا زخم لگادیا ہو؟ وہ سوچتا کہ مَیں شاعر وں کی طرح اپنی چھوٹی ناکامیوں کو بڑا زخم ظاہر کرنے کو مبالغہ سمجھتا ہوں، اسی لیئے مَیں نہیں مانتا کہ مجھے کبھی ایسے زخم لگے ہوں۔ میری زندگی ایک عام سی زندگی ہے۔ بالکل عام سی۔ اس میں محبت کی ناکامی نہیں، زلفوں کی اسیری کا دکھ نہیں۔ مَیں نے زندگی گزارتے ہوئے شادی کرلی ، میرے بچے ہیں ، مجھے قوم میں اپنی حیثیت کے مطابق مقام حاصل ہے۔ مَیں نے کبھی انقلاب کا سپنا نہیں دیکھا۔ کبھی خود کو سیاسی ہیرو نہ بنایا اور نہ ہی ان کا سجدہ کیا۔ مَیں کبھی تنگ دست نہیں رہاہوں جو کچھ ملتاہے کھا کر سوجاتا ہوں۔ مَیں نے اپنے ضمیر کے مطابق کام کیا۔ ہر وقت کوشش رہتی کہ کوئی میری وجہ سے رنج نہ اُٹھائے اور کوئی مجھ سے ناراض نہ ہو اور نہ ہی مَیں نے کسی کو رنجیدہ کیا۔ مجھے کسی سے دشمنی نہ ہوئی اور نہ ہی کسی کی دشمنی کا شکار ہوا ہوں۔ مَیں نے زندگی کو اسی طرح بسر کیا اور میری کوشش رہی کہ زندگی کی نعمتوں سے زیادہ توقع نہ رکھوں۔ اسی لیئے مَیں اپنے خدا،اپنے اردگرد کے لوگوں ، اپنے والدین ، اپنے بیوی بچوں، اپنے ہم جلیس اور رشتے داروں ، سب کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے مجھے کبھی ناامید نہیں کیا اور مَیں نے جو چیز بھی مانگی مجھے مل گئی۔ اور اسی لیئے میری زندگی ایک کامیاب زندگی رہی، معمولی گناہ، بُرائی، لالچ ، حرص و ہوس کے سوا زندگی میں کوئی بڑی غلطی نہ کی۔ جس پر پشیمان ہوں۔اور مَیں نے زندگی کی ہر پسندیدہ چیز کا چارقدم آگے بڑھ کر سواگت کرنا مناسب سمجھا پھر اب اس بیماری کا سبب کیا ہوسکتاہے؟
کیا مَیں چالیس سال گزرنے کے بعد اب اس طرح کی بیماری سے دوچار ہواہوں کہ کوئی نہیں جانتا کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟۔ اور لوگ بھی عجیب ہیں جو فخریہ کہتے ہیں کہ وہ زندگی میں کبھی بھی مایوس نہیں ہوئے۔ ان پر کبھی پژمردگی طاری نہیں ہوئی۔ کبھی پریشانی سے بھینٹ نہ ہوئی اور وہ اتنے منافق ہیں کہ دوسروں کی پریشانیوں سے خوش ہوتے ہیں ۔ میرے خیال میں اس وقت ان کی خوشی کاسبب یہی ہے کہ انہیں اپنے جیسا ایک غمگین دوست مل جائے لیکن منافقت دیکھئے کہ وہ مجھے تسلی دیتے کہ دیکھو ! پریشان مت ہونا!۔۔۔۔۔۔۔ اور مَیں حیران ہوتاہوں کہ یہ آدمی پتھر تو نہیں ہے؟ ۔ پریشان تو آدمی ہی ہوتاہے ہاؐں، لیکن جیسے مَیں نے کہا کہ وہ غمگین ہوتے ہیں لیکن نہیں مانتے۔ ۔ کوئی روٹی کے لیئے، کوئی پیٹ کے لیئے، کوئی بچے کے لیئے، کوئی عورت کے لیئے، کوئی دولت کے لیئے اور کوئی شہرت کے لیئے۔ لیکن مَیں سوچتا ہوں میری پریاشانی کیسی انوکھی ہے کہ اس نے میری ہر چیز کو بکھیر کر رکھ دیاہے۔ یہ دولت کے لیئےنہیں ہے۔ ، شہرت کے لیئے نہیں ہے، روٹی کے لیئے بھی نہیں ہے۔
یہ عجیب طرح کی بیماری اور پریشانی ہے۔ اب مَیں کس طرح واضح کروں، کیسے دکھائوں ،کیسے کہوں؟ بات یہ نہیں ہے کہ مَیں کسی سے اس کا ذکر نہیں کرتا لیکن مَیں اگر کہنا چاہتا ہوں تو لفظ میرا ساتھ نہیں دیتے۔ اور میرے لیئے دل میں اپنی بیماری کے بارے میں بتانے کی حسرت رہی مگر شبدوں کے ٹوٹے ہوئے تاروں پر میرے احساسات اکٹھا ہوکر آپ تک پہنچ نہ سکے، لیکن نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ مَیں اپنے بیماری کو ازخود جاننا چاہتا ہوں ۔ کیا دوسروں کو بتانے سے میرا درد ختم ہوسکتا ہے؟ یا یہ بیماری ختم ہوسکتی ہے ؟ کبھی نہیں۔۔۔۔
جب مَیں پیدا ہوا تو اسی دن سے یہ بیماری مجھے لگ گئی اور اب یہ بیماری میری موت کے دن تک رہے گی۔ لیکن کوئی اس بیماری کو نہیں مانتا یہ بھی نہیں مانتے کہ وہ کبھی پریشان بھی ہوئے تھے ۔ کوئی اگر اتنا بھی نہ مانے پھر وہ اتنی بڑی بیماری کو کیسے مان لے کہ یہ ان کی زندگی کے ساتھ اس کے وجودی رشتے سے ظاہر ہوتی ہے۔ جب آپ خود کو بے تعلق سمجھیں تو واقعی پریشانی ہوگی؟ لیکن اگر آپ اپنے رشتوں کی بنیادیں تلاش کرنے لگیں تو بھی ضرور پریشان ہوں گے کیونکہ یہ آپ کی بنیادیں فراہم کرتی ہیں اور ان پر آپ فخر کرتے ہیں ۔ یہ بنیادیں کہاں واقع ہیں۔؟ یہ توکسی بھی جگہ پر استوار نہیں ہیں۔ باہر کی طرف ایک باہم بہتی ہوئی تاریکی ہے اور تاریکی کے پیھچے کیا ہے؟ پھر تاریکی؟ کون جانتاہے۔ رہنے دیجئے ان باتوں کو۔ جڑوں کو تلاش کرنا، ان کو نام دینا اور خوش ہونا کہ یہ میرا بھائی ہے، وہ میرا باپ ہے، یہ میرا قبیلہ ہے۔ وہ میری قوم ہے۔ یہ میرا ملک ہے۔ یہ سب میری تہذیب اور رسم و رواج کے سرچشمے ہیں۔ یہ میری قوم ہے۔ مَیں دلیر اور نڈر قوم سے تعلق رکھتا ہوں ۔ باقی سب بزدل اور ڈرپوک ہیں۔ مجھے دن کے اُجالے سے کام ہے تو آپ رات کے پروردہ ہیں۔ کیا یہ سب کچھ اس رشتے کے سامنے ہیچ تو نہیں؟ وہی رشتہ ، جس کا نہ سمجھنا میری بیماری کا ایک سبب ہے۔ اس کے سوا مجھے اور کیا بیماری ہے اس کا علاج کون کرسکتا ہے۔ جب مَیں مر گیا تو کہاں گئے میرے رشتے جن پر مَیں نے اکثر فخر کیا تھا؟ کیا یہ میرے من کی شانتی کے لیئے نہ تھے؟ مجھے تو پہلے ہی سے ہر چیز کیمرہ کی ریل پر اُلٹی دکھائی دے رہی تھی۔ اس کو میرے لیئے کون سیدھا کرے گا؟ کیا مَیں چالیس کے پیٹے سے گزرگیا ہوں کہ اب یہ چیزیں میرے دماغ میں آرہی ہیں۔ پہلے میں اتنی گھٹن زدہ بیماری کیوں نہ دیکھ سکا۔ جو اب دیکھ رہا ہوں۔ لیکن اے خدا یہ کتنی ہولناک ہے، کرب انگیز ہے کہ مَیں اس کے گمان سے لرزتا ہوں ۔ اور لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ پریشانی کو اپنے لیئے بُری علامت سمجھتے ہیں اور دوسروں کو بچوں کی طرح تسلی دیتے ہیں کہ دیکھو بیٹے مت روئو، کچھ نہیں ہوگا۔ تم صحت مند آدمی ہو، تم نوجوان ہو، تمہیں زندگی میں بہت کچھ کرنا ہے، پھر تم اتنی سی چیز سے پریشان ہوتے ہو۔
اسی لیئے مَیں ایسے لوگوں کو کیسے کہہ دوں کہ میری بیماری کیا ہے۔ میرے لیئے بہتر یہی ہے کہ مَیں خاموشی سے اپنی بیماری کو سہہ لوں۔ لیکن مجھ سے سہا نہیں جاتا اور اس کی شدت اور بڑھ جاتی ہے۔ جب مَیں لوگوں کو اپنے بڑوں پر فخر کرتا ہوا دیکھتا ہوں کہ مَیں بہادر اور نڈر قوم سے تعلق رکھتا ہوں اور باقی سب ڈرپوک ہیں۔ میری بیماری شدت اختیار کرجاتی ہے اور میرا دم گھٹنے لگتاہے جیسے کسی گہری کھائی میں جارہا ہوں۔
” یا خدا۔۔۔۔۔”
عزیز، دسمبر کی سردیوں میں اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس باہر دیکھ رہا تھا کہ چمنی سے دھویں میں تمباکو کا گمان ہوا اور اوس کی چادر تن گئی، جس طرح اس کے فکر وخیال بھی رُک جائیں۔
دوسرے ہی لمحہ اس نے اپنی گاڑی اسٹارٹ کی اور اسکول کی طرف روانہ ہوا ۔ اس کی پندرہ سالہ بیٹی صدف گیٹ پر اس کے لیئے کھڑی تھی ۔ اس سے معلوم ہواکہ نتیجہ جلدی نکل گیا۔ ادھر کچھ گاڑیاں اور کچھ بچے دکھائی دیئے۔ لیکن صدف کے چہرے سے ظاہر ہورہاتھا کہ فیل ہوگئی۔ عزیز نے ایک ہاتھ سے اسٹیرنگ پکڑے رکھا اور دوسرے ہاتھ سے وہ صدف کے لیئے دروازہ کو باہر کی طرف دھکا دیتے ہوئے کہنے لگا۔
“کیا ہوا؟”
صدف کا چہرہ اُترا ہوا تھا وہ کچھ نہ کہہ سکی اور اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کے قطرے گرتے رہے۔ اس کاچہرہ انار کی طرح سُرخ ہوگیا جیسے اسے سخت بخار ہوگیا ہو۔ عزیز نے گاڑی کا رُخ موڑ دیا۔
” فکر نہ کرو، دوسرے سال پھر کوشش کرنا” اس نے صدف سے کہا۔
صدف اس طرح رو رہی تھی کہ اس کے جسم کی ساری توانائی ختم ہورہی تھی۔ اس طرح جیسے گرم دن ہو اور جسم کا پسینہ تیزی سے نکل رہا ہو یا جیسے زمستان کے شفاف دن میں چلتن کا برف بہہ جائے۔ عزیز نے اس کو زیادہ تسلی نہیں دی لیکن اس سے پوچھا۔
” کون سے مضمون میں رہ گئیں؟”
“میتھ میٹکس”
“کتنے نمبروں سے؟”
“دس نمرسے”
” حیف ہے مِسوں پر کہ دس نمبر سے تمہیں فیل کردیا، لیکن ایسا ہوتا ہے بیٹی، فکر مت کرو، رو مت”
عزیز لٹن روڈ پر جارہاتھا۔ صدف رو رہی تھی لیکن اس طرح جیسے آنسو خاموش بارش کی طرح بہہ رہے تھے ، نہ گرج چمک اور نہ ہوا کا تیز جھکڑ۔
گاڑی کے شیشے بند تھے اور ہیٹر چل رہاتھا ۔ صدف پیچھے بیٹھی ہوئی تھی ۔ کبھی کبھار عزیز اس کو شیشوں میں سے دیکھتا لیکن عزیز زیادہ تر اس کے چہرے کو نہ دیکھتا کیونکہ یہ معصوم چہرہ آج واقعی ہمدردی کے لائق تھا اور باپ کے لیئے اولاد کا اداس چہرہ دیکھنا بہت ہی مشکل ہے۔ اسی لیئے وہ صرف اپنی تسلی کی خاطر اس پر اس طرح نگاہ ڈالتا کہ وہ وہاں آرام سے بیٹھی ہے حالانکہ وہ رو رہی تھی لیکن اس کو سوچتارہنے دو، وہ رورہی ہے تو بہتر ہےتاکہ من ہلکا رہے۔ ویسے بھی یہ ایک فطری عمل ہے۔
گاڑی چلتن کے پُل پر سے گزرتی ہوئی پہاڑی علاقے میں اوپر نیچے ہورہی تھی۔ ایک دو موڑ کے بعد بارش ہوئی۔ اس نے ایک بار پھر شیشے میں صدف کو دیکھا، ادھر بھی آنسو بہہ رہے ہیں ۔ تیز بارش اور سردی نے سامنے کے شیشے کو دھندلا کردیا کہ آگے بھی کچھ دکھائی نہ دیا۔ وائپر شیشوں کو جیسے ایک دیو کے ہاتھ کی طرح سختی سے گھس رہا تھا۔ کبھی کبھی شیشےاور ربڑ کے گھسنے سے رگڑکی سی آواز پیدا ہوتی تھی صرف یہی آواز عزیز، صدف اور بارش کے درمیان ایک رشتے کا نشان تھی۔ اگر یہ نہ ہوتی تو ہر ایک اپنی جگہ پر اکیلا اور تنہا تھا۔
عزیز اپنی سیٹ پر، صدف اپنی جگہ پر اور باہر برستی بارش اپنی جگہ پر۔ عزیز پھر سوچنے لگا۔۔۔۔۔
” بیماری کو لوگ علامتوں اور نشانیوں سے پہچان لیتے ہیں ، پر میری بیماری کی علامت کیا اور نشانی کیا ہے؟ سوا اس کے کہ یہ میرے پورے وجود کو اپنی مٹھی میں اس طرح جکڑے ہوئے ہے جیسے کتا اپنے شکار کو جھپٹ لے۔ مَیں اس سے خود کو الگ تو نہیں کرسکتا۔ یہ گرفت اس قدر مضبوط ہوتی ہے کہ اس کی ایک ایک ٹھوکر ہڈیوں کو اندر سے پیس ڈالتی ہے۔ آدمی ادھڑتا جاتاہے۔ پھر ڈھلکتا جاتاہے۔ کندے کبڑے ہوجاتے ہیں ۔ بال چاندی ہوجاتے ہیں اور وہی گردن جو کبھی اکڑایا کرتا تھا اب پرانی بندوق کی مانند ادھڑ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کو مالیخولیا، ہذیان اور شیزوفرینیا یا کوئی اور دماغی عارضہ کہہ دیں۔ لیکن اس طرح بھی نہیں ہے۔ یہ ایک بالکل الگ چیز ہے شاید یہ صدف کے آنسوئوں کی طرح ہے۔ بے رنگ وگرم اور تھوڑا سا نمکین لیکن کون جانے۔ مَیں نے اس کاذکر کبھی کسی سے نہیں کیا، لیکن اب مَیں ڈررہا ہوں کہ یہ مجھے ہمیشہ کے لیئے ختم نہ کردے، نگل نہ جائے اور یہ مجھے نگل جائے تومَیں کیا ہوجائوں گا؟ کچھ نہیں ہوں گا؟کیا ہوگا اگر مَیں نہ رہوں ! میرا نام ،میری عزت، میرا علم، میری قوم، میراقبیلہ، میری ماں، میراباپ،میرے بچے ،میرے دوست اور میراخاندان اور میرا آپ کے بارے میں اپنا خیال! یہ سب تو ہیں؟ پھر کیا ہوسکتاہے؟ مجھے یاد ہے کہ میری یہ بیماری مجھے اس دن سے ہے جب میں نے اس دُنیا میں اپنی آنکھیں کھولیں۔ لیکن پہلے پہل مَیں نے اسے کمزور سمجھا، خود کو کج فہم ٹہرایا کہ مَیں اور ایسا پاگل پن! لیکن مَیں بڑا ہوتا گیا اور اس کی شدت بھی بڑھتی گئی اور کالج، یونیورسٹی کے زمانے میں مَیں اتنا ڈر گیا کہ کہیں پاگل نہ ہوجائوں۔، لیکن مِیں نے خود کو سنبھالا۔ اس طرح جیسے سیلاب میں ڈوبتا ہواآدمی اپنا چہرہ اچانک تنہا دیکھتا ہے۔ ایسے میں خود کو روکتا ہے۔
اب مَیں کہہ نہیں سکتا کیسے؟ لیکن مَیں نے خود کو سنبھالا ۔۔۔۔ مَیں ادھڑ کر نیچے گرتارہا۔ سمجھئے کہ میرا نیچے گرنا اسی دن سے شروع ہواتھا جب مَیں پیدا ہوا اور یہ بیماری بھی جیسے ازل سے میرے ساتھ ہے لیکن مَیں اس کو مانتا نہیں تھا کیونکہ میرے معاشرے میں ایسی بیماریوں کو پاگل پن کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اسی لیئے کسی سے اس کا تذکرہ نہ کرتا کہ میرے لیئے اچھا نہیں ہے۔ پھر بہتر یہی تھا کہ مَیں اسے دل سے نکا ل دوں۔ اسی لیئے مَیں نے کوشش کی کہ اپنے لیئے نام پیدا کروں۔ قوم میں اپنا مقام بنائوں اور خوشحال ہوجائوں لیکن جیسا کہ مَیں نے پہلے عرض کیا کہ ان سب چیزوں کے باوجود مَیں خوش نہیں تھا مجھے کیمرہ کی ریل میں سے ہر شئے اُلٹی دکھائی دیتی تھی۔ اور ان دنوں سےلے کر آج تک مجھے یہی دکھ تھا کہ کوئی میری بیماری کو نہیں سمجھ سکا۔ پھر کیا صدف کے بے رنگ اور نمکین آنسوئوں کی شدت کو مَیں جان سکتا ہوں؟
عزیز نے ایک دوبار صدف کی جانب دیکھا ،وہ سو رہی تھی ۔ جب اس کا سر اور گردن سیٹ پر تھے ۔ اس کے گالوں کی سُرخی ویسی ہی تھی ۔ عزیز پھر خیالوں میں گم ہوگیا۔
” خدا کرے وہ اپنے فیل ہونے کو دل سے نکال دے۔ ۔۔ لیکن اتنا رنجیدہ ہونا اس بچی کے لیئے ٹھیک نہیں ہے۔ پر کیا ہوسکتا ہے۔ اسے تو فیل ہونا نہیں تھا۔ مجھے توقع تھی کہ وہ پاس ہوگی لیکن حساب ایک بلا ہی تو ہے۔ مَیں خود حساب میں کمزور تھا لیکن پاس ہوگیا کل صدف بھی پاس ہوگی ۔ وقت گزرتا ہے، پرانے زخم بھرتے ہیں نئے گھائو لگتے ہیں۔ مایوسی آتی اور چلی جاتی ہے۔ لیکن اس سے کیا؟
” زندگی اتنی وسیع اور بھاری پتھر کی طرح ہے کہ اس کو نہ میری تڑپ سے اور نہ ہی صدف کے آنسوئوں سے کوئی غرض ہے۔ اس کے باوجود اسے اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کررہا ہوں ۔ اگر محسوس نہ کروں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ کچھ بھی تو نہیں ۔ وقت گزرجائے گا۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ ہم آزادی کی اُس نعمت سے محروم ہوں گے۔ جو اس ہولناک بیماری کے بعد پیدا ہوگی لیکن ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم کو اس سے شرم آتی ہے اور ہم اس سے خود کو اس طرح الگ رکھتے ہیں کہ جس طرح طاعون ہو ، گرم بخار ہو لیکن یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ تم اس بیماری سے منکر ہوجائو اور آزادی کے تصور میں خود کو خوش رکھو۔ یہ سب اُلٹی تصویروں کا سلسلہ تو نہیں ۔؟”
عزیز نے اپنی نظریں وائپروں پر جما دیں۔ بارش سڑک پر آگے پیھچے دائیں بائیں ہر طرف برس رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ آج بادلوں نے ابد تک ٹوٹ کر برسنے کی ٹھانی ہے۔ اس نے سوچا صدف کوکیسے سمجھائوں کہ فکر مت کرو۔اس کا ننھا سادل ٹوٹ گیا اور اس کے دل کا ٹوٹنا اچھی بات نہیں ہے لیکن کیا ہوسکتاہے۔؟”
عزیز چاہتاتھا کہ وہ گاڑی کو روک کر اس کی نبض دیکھ لے کہ اس کو بخار تو نہیں ہے لیکن آگے تقریباۤ ایک کلومیٹر پر کانک کا ہوٹل دکھائی دیا۔ کانک کے ہوٹل کے قریب ہی جب گاڑی رُک گئی تو صدف نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ لیکن پھر بند کرلیں۔ عزیز نے اس کے گلاب رخساروں پر ہاتھ رکھا تو واقعی اسے بخار تھا اور سخت بخار تھا۔ عزیز نے دروازہ بند کیا تاکہ سرد ہوانہ لگے وہ پریشان ہو اآخر کرے کیا؟ ہوٹل میں لوگ کرسیوں اور میزوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ بہت رش تھا کیونکہ کچھ بسیں ابھی چند لمحے پہلے آئی تھیں ۔ مسافروں کا ہجوم ،سردی اور بارش کی تھکان اور صدف کا بخار عزیز کو زیادہ رنجیدہ کئے ہوئے تھا۔ وہاں ڈاکٹر بھی نہیں تھا جو کچھ بتاتا۔
اس نے دکان سے بسکٹ کا پیکٹ اور کچھ ٹافیاں خرید لیں۔ جونہی گاڑی میں آیا۔ صدف کبھی آنکھیں کھولتی اور بند کرتی۔ اس کا بخار جیسے خاموش بارش کی طرح چاروں طرف پھیل گیا۔ بہتر یہی ہے کہ سا ٹھ میل کا سفر جلد از جلد طے کیا جائے۔
اس نے صدف کے ہاتھوں کو تھامنے کے بعد سوچا اور سگریٹ جلا کر پھر روانہ ہوا۔ ٹافی صدف کے ہاتھوں میں ایسے ہی پڑی ہوئی تھی۔ بسکٹ پیکٹ کھلنے کی وجہ سے ایک ایک کرکے گاڑی کی جمپ کے ساتھ ہی سیٹ کے نیچے گر رہے تھے۔ کہ ان میں ایک دانہ بھی بچی نہ کھا سکی۔ شیخ واصل کی پہاڑی پر برف گرنا شروع ہوئی۔ دھند کی طرح برف گررہی تھی اور وائپر خراب ہوگیا۔ ” پنچ پائی” کا میدانی علاقہ برفانی طوفان میں تھا۔جب گاڑی انگریزوں کے زمانے کی لانڈھی کے قریب رُکی۔ ریلوے کراسنگ سے گزر گئی تو گھو گھو کرتی ہوئی بند ہوگئی۔ عزیز اترا گاڑی کو دیکھا ۔ ظاہر میں کچھ ایسی خرابی نہ تھی۔ شاید اوورفلو ہوگیا ہو۔ اس نے ایکسیلیٹر کے بغیر سوئچ لگایا لیکن گاڑی اپنی جگہ پر سے کولھو کے بیل کی طرح ہل نہ سکی۔ وہ باہر نکل گیا اور ایک بار پھر بونٹ کھولا اور پھر اس نے کھڑکی کی برف کو اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے ہوئے دیکھا کہ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ بخارکے عالم میں اب وہ سر کو بے ہوشی سے ہلا رہی تھی ۔ عزیز نے دوڑ کر دروازہ کھولا اور اس کے پاس جاکر بیٹھ گیا اور پھر آواز دی۔
” صدف”
صدف کچھ نہیں بولی۔ اس کے ہونٹ سرمائی قہربھری اور برف آ لود دن کی سردی میں ٹھٹھر گئے تھے۔
” پانی، پانی اماں ، پانی”
عزیز نے دروازہ کھولا اور برف میں خود کو انجن پر جھکایا لیکن نہ اسے انجن کی خرابی کا پتہ تھا اور نہ ہی وہاں انجن اسے دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے باوجود صدف بخار کی گرمی میں جل رہی تھی۔ اور گاری اسٹارٹ نہیں ہوپا رہی تھی۔ اس نے پھر خودکلامی کی۔
یہ مجھے کیا تجربہ ہورہا ہے۔ کیا میری ہولناک بیماری کے آگے یہ بخار کچھ بھی نہیں۔؟ لیکن یہ کیوں؟ میرا دل کیوں ڈوب رہاہے؟صدف نے اپنے فیل ہونے کو اتنا کیوں محسوس کیا؟ اور مَیں زندگی کو اتنا کیوں محسوس کررہا ہوں ویسے بھی آج وہ اپنے فیل ہونے کو دل سے نکال دے اور مجھے زندگی کی تھاہ میں سے نکال دے۔ زندگی کا تمام تر عمل ایک سپاٹ عمل ہے۔ لیکن چالیس سال کی عمر میں میری فکرمجھے اب اس نئے راستے پر لے جارہی ہے۔ اس میں مجھے تمام تر اشیاء اُلٹی دِکھ رہی ہیں ۔ لیکن نہیں، صدف کا بخار حقیقت ہی تو ہے، وہ جل رہی ہے، بخار میں جل رہی ہے ، صدف مر رہی ہے، مَیں مررہاہوں، کائنات مر رہی ہے۔ ہر چیز مر رہی ہے ، اس کے وجود کے تجربوں کی معنویت کیا ہے؟ مراد کیا ہے؟۔ پریشانی کیاہے؟ مَیں کون ہوں؟ وہ کون ہے؟ مَیں کیوں کسی ایک چیز کو بھی اپنا کہہ نہیں سکتا ؟ یہاں تک کہ مجھے اپنا آپ بھی بیگانہ دِکھتا ہے؟۔ کیا میری یہ بیماری صدف کی بیماری سے زیادہ خوفناک نہیں ہے؟ صدف کو فیل ہونے پر دُکھ ہوا ہے، مجھے اپنے ہونے پر، صدف کو مِس نے فیل کیا، مجھے دُنیا میں کسی نے بھیجا، میری منشاء کے بغیر، خدا۔۔۔ اچھا۔۔ لیکن یہ سب جاننا چاہتا ہوں۔
فکری رویے اور نظریے اس راز کو اتنی سادگی سے بیان نہیں کرسکتے ۔ جس طرح ہم خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ ہمیں ایک حد تک لے جاتی ہیں لیکن حقیقت ہے کہاں؟ کون جانتا ہے۔ یہ کیا راز ہے۔ لیکن مَیں کیوں فکر کروں۔؟”
اس نے گاڑی کو پھر سلیف لگایا اور گاڑی اپنے آپ ہی اسٹارٹ ہوگئی جیسے ایک پُراسرار قوت نے اسے دھکا دیا ہو۔ حالانکہ اس کی اُمید نہ تھی لیکن ہوگئی۔ عزیز نے سوچا، سورج ڈوبنے سے پہلے اپنے گھر پہنچ جائیں گے۔ ٹافیاں ایک ہاتھ میں رکھی تھیں کہ ایک دوسری طرف گر گئیں ۔عزیز نے اپنے آنسو پونچھ لیئے۔صدف ۔۔۔۔۔ صدف، پکارتا ہوا ۔ وہ ایسے کبھی نہ رویا تھا جیسے آج رورہا تھا، لیکن شاید صدف کے بخار کے لئے ہی نہیں رو رہا تھا بلکہ کسی اور چیز نے اسے رُلایا تھا، اور یہ رونا اس کو اتنی دور لے گیا کہ وہ سب بندھنوں سے آزاد ہوگیا۔
وہ سوچنے لگا” کیا ہماری آزادی یہی نہیں ہے۔ کہ ہم ہمیشہ کے لئے ان بندھنوں سے خود کو دور لے جائیں، اس طرح کے رونے میں ،اسی طرح ایک بخار میں، اسی طرح کی بیماری میں۔ کیونکہ اگر ایسے ہوتا تو ہم ہمیشہ دوسروں کی پریشانیوں پر خوشی کا اظہار کریں اور اپنی پریشانیوں کو چپھائیں اور ہم کبھی آزردہ نہ ہوں بلکہ دوسرے کے بتانے ہی پر خود کو جانیں کہ نہ ہماری پریشانیاں ،ہماری اپنی پریشانیاں ہیں نہ بخار اپنا بخار ہے۔ نہ ہماری خوشی ہماری ہے۔ بلکہ یہ سب کچھ دوسروں کے دیئے ہوئے قرض ہیں کہ ان کو ہم اپنی ملکیت نہیں کہہ سکتے جب ہم اپنے غموں سے ڈرتے ہیں، تو ایسا ہی ہوگا
کیا میری یہ بیماری بیگانگی ہے یا دوسروں کے کہنے پر زندگی گزارنا بیگانگی ہے۔ پاگل نہ ہونا اور ہونے کا فرق شاید یہی ہے ۔ جس طرح میری اور صدف کی بیماری میں ہے یا کوئی اور چیز ہے ۔ کون جانتا ہے؟
تھوڑا آگے چلنے کے بعد برف برسنا تھم گئی اور بارش بھی رُک گئی ۔ دور پہاڑوں کے درے بادلوں کی دھند میں سے نمودار ہوئے۔ بادل ازخود بلندی کی اُور پھیل رہے تھے۔ پہاڑ بھیگتے ہوئے سرسبز اور بہت ہی شفاف دکھائی دے رہے تھے۔
سڑک کے آس پاس بسے لوگ بارش تھمنے کے ساتھ ہی باہر نکل آئے ۔ سورج بادلوں میں تحلیل ہوتا ہوا اب ڈوب رہا تھا۔ اس لیئے تاریکی آہستہ آہستہ نمودار ہورہی تھی اس نے گاڑی کی چھوٹی بتیاں جلا لیں ۔ شہر پہنچنے پر شاید صدف کا بخار اُتر جائے۔ اس نے سوچا اور صدف کو دیکھا ۔ اس نے پیروں پر اپنا کوٹ ڈال رکھا تھا۔ لیکن آنکھیں ابھی تک کھلی نہ تھیں یاخدا! گلاٹی ندی کے پہاڑوں پر بالکل رات پڑگئی اور اس نے بڑی بتیاں روشن کردیں۔ اب شیشوں میں اسے صدف دکھائی نہیں دے رہی تھی جب تک اندر کی بتی روشن نہ کرتا۔ پروہ ہر ساعت بخار دیکھنے میں خود کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا، اسی لیئے گاڑی کو بھگاتا رہا تاکہ تیز رفتار پکڑنے سے منزل کے قریب ہونے کا احساس شدت اختیارکرجائے اور ویسے بھی راستہ کم رہ گیا تھا لیکن ایک دوبار اسے خیال آیا کہ گاڑی کو روک لے اور دیکھے کہ صدف کیسی ہے؟ خدا نہ کرے کہ۔۔۔۔۔ اسی لیئے اس نے آہستہ آہستہ گاڑی روک لی اور صدف کابخار دیکھا ۔ اس کا جسم برف کی طرح سرد تھا۔ کہاں گیا اس کا بخار ؟ کیا وہ زندہ ہے؟ یاخدا ! واقعی میری بیماری صدف کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ پر اس کا جسم کیوں سرد ہے۔ کیا یہ اس کی موت کی ٹھنڈ تو نہیں ہے۔ یہ سب خیالات اس کے دماغ میں بجلی کی چمک کی طرح نمایاں ہوئے اور اس نے اسی وقت اندر کی بتی روشن کردی۔ صدف کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔
“صدف” اس نے پکارا، صدف نے کچھ نہ کہا لیکن وہ خوش ہواکہ وہ زندہ ہے۔ اس نے پوچھا” کیاچاہتی ہو؟” حالانکہ وہ وہاں اسے کچھ بھی نہ دے سکتا تھا لیکن باپ کی محبت کے جزبے سے سرشار اس نے پوچھا۔ کیونکہ وہ خوش ہورہا تھا کہ وہ زندہ تھی اور اس کا بخار اتر گیا تھا۔
“اب پہنچتے ہیں اطمینان رکھو، تمام مسئلوں کو بھلا دو۔ ماں اور دادی اب قریب ہی ہیں ۔ تم نے مجھے مُفت میں پریشان رکھا” یہ کہتا ہوا عزیز اسے اب بھی ڈانٹنا چاہتا تھا لیکن پھر اس نے خود کو روکا اور گاڑی اسٹارٹ کرلی۔ بارش پھر شروع ہوگئی۔ اور اس نے سوچنا شروع کیا۔ کیا میری بیماری بھی اس طرح ختم ہوگی۔ یہ ایک معجزہ ہوگا لیکن اگر ختم ہوگئی تو کیسے ہوئی؟َ ہر چیز غیراہم ہوگئی، خدا کرے ایسے ہی قائم رہے پر مَیں یہ بات جاننا چاہتاہوں کہ آخرش صدف کا بخار دوائی کے بغیر ختم ہوا تو کیسے اور اگر میری بیماری ختم ہوگی تو کیسے ختم ہوگی۔؟