سچ ۔۔۔ نائلہ راٹھور
سچ
نائلہ راٹھور
سچ
کڑوا ہوتا ہے
جھوٹ کا ذائقہ میں نے کبھی چکھا نہیں
نفرت کے موسم حبس آلود ہوتے ہیں
زیادہ دیر تک سانس لینا ممکن نہیں
محبت تو کب کی ہجرت کر گئ ہے
منافقت کی سیلن زدہ مشک
نے گھر کی دیواروں میں گھر کر لیا ہے
یاد کو پھپھوندی لگ گئ ہے
من کے بھیتر چھپی رنجشوں کا تعفن
جزبوں کو آلودہ کر گیا ہے
الفاظ اور لہجوں کے ڈنگ نے وجود میں وہ زہر بھر دیا ہے کہ
باتوں کی کڑواہٹ پر کوئی ویکسین کارآمد نہیں
بیمار روح کی مسیحائی کے لئے حرف تسلی ابھی ایجاد نہیں ہوا
الفاظ کی بوطیقا میں کوئی لفظ نہیں ملتا جو روئیے کی بدصورتی کو مفہوم پہنا سکے
معیار دوستی
مفاد پرستی ہو تو چاہت
ندامت کا پھندا لگا کر خود کشی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے
تیقن ہے کہ
وفا کے مرقد پر نوحہ کناں ہوں