غزل ۔۔۔ نجیب احمد
غزل
( نجیب احمد
)
شب
بَھلی تھی نہ دن بُرا تھا کوئی
جیسا جی کو تِرے لَگا تھا کوئی
ہر
کوئی تُجھ کو دیکھ لیتا تھا
دل تھا میرا کہ آئنہ تھا کوئی
اَشک
تھے، کِرچیاں تھیں، آنکھیں تھیں
آئنے سے اُمنڈ پڑا تھا کوئی
ٹوُٹ
کر کِس نے کِس کو چاہا تھا
کِس کا مَلبہ اُٹھا رہا تھا کوئی
لاکھ
آنچل ہَوا کے ہاتھ میں تھے
سر بَرہنہ مگر کھڑا تھا کوئی
اپنے
ہی سَر میں ڈالنے کے لئے
خاک اپنی اُڑا رہا تھا کوئی
اپنی
مرضی سے کون قتل ہُوا
اپنی مرضی سے کب جیا تھا کوئی
آخرِ
کار دِن نِکلنا تھا
وَرقِ شب پَلٹ رہا تھا کوئی
حَشر
بَرپا تھا میرے دل میں نجیبؔ
کِھڑکیاں کھولنے لگا تھا کوئی
Facebook Comments Box