
خاموشی کا موسم ۔۔۔ ناجیہ احمد
خاموشی کا موسم
ناجیہ احمد
صدا نہیں آتی،
اب الہام نہیں ہوتے—
جیسے لفظوں نے خود کو
کسی ویران غار میں چھپا لیا ہو۔
دروازے سب بند ہیں،
کھڑکیاں خاموش،
اور سورج—
روشنی کی بجاۓ تپش بن کر
ذہن کو بیمار کر رہا ہے۔
خیالات کی راکھ اڑتی ہے،
اور احساسات،
کسی پرانی الماری میں مقیم
دھندلے کاغذ بن گئے ہیں۔
قلم ہاتھ میں ہے
مگر کاغذ ڈرتا ہے
کہ شاید اب
کوئی نیا خواب جنم نہ لے۔
خاموشی کا یہ موسم
بس یونہی گزر جائے—
یا شاید،
اسی خاموشی میں
کوئی نئی صدا چھپی ہو؟
۔ شاید کوئی لفظ
کسی دن لوٹ آئے،
کوئی خیال
جاگ اٹھے،
کوئی صدا—
پھر سے الہام بن جائے۔
تب تک،
میں خاموشی کی چادر اوڑھے
اک ان جانے لمحے کے
انتظار میں
سناٹے کےکاندھے پر سررکھ کر
سانس لیتی ہوں
کہیں کوئی آواز
میرے اندر جاگ نہ جائے
___ناجیہ احمد