غزل ۔۔۔ نیئر رانی شفق
غزل
نیئر رانی شفق
کرچی کرچی من کے اندر سارے خواب سجائے ہیں
سچ کی خاطر دیکھو ہم نے کیا کیا درد اٹھائے ہیں
سچ کا پرچم لے کر نکلی جھوٹوں کی اس بستی میں
زخمی زخمی جسم ہے میرا پتھر کیسے کھائے ہیں
تپتے جلتے پتھر جیسے لوگ یہاں بازاروں میں
ہر سو چھایا سناٹا ہے یاس کے گہرے سائے ہیں
چپ کی گہری گھاتوں میں شوریدہ کچھ آوازیں ہیں
بستی بستی صحرا صحرا کیسے طوفاں چھائے ہیں
کیسے کوئی بات کرے اب تعزیریں ہیں سوچوں پر
امن کو یوں محکوم کیا حاکم نے لب سلوائے ہیں
جھوٹ دغا الزام تراشی جن کا شیوہ عام ہوا
حرص زدہ سوچوں کے حامل اندر سے گھبرائے ہیں
شفق ابھی سے چھوڑو گی دل، کیا تجھ کو معلوم بھی ہے
راہ حقیقت میں کس کس نے اپنے سر کٹوائے ہیں
Facebook Comments Box