نظم ۔۔۔ شازیہ مفتی
نظم
(شازیہ مفتی)
یاد کے آخری جزیروں پر
سوچ کا اک کُھلا سمندر ہے
اور سفر بے نشان قدموں کا
اَن کہے اور کہے سے لفظوں کا
جابجا کچھ پرانے دوست پیڑ
پیاسی زمین سے پیوست
کالے سنسان ساحلوں سے پرے
جل پری کا کوئی جزیرہ ہے
جہاں سورج غروب ہوتا ہے
چاندنی اپنے بال دھونے کو
اور اماوس سنگھار کرنے کو
اس جزیرے میں جا نکلتی ہے
زرد رُو خواب چُرمراتے ہوئے
آ کے پیروں تلے سسکتے ہیں
ٹوٹے وعدے بگولے کی مانند
راستے ڈھونڈنے نکلتے ہیں
بس وہیں جا کے چھوڑ آئی ہوں
اپنی آنکھوں کے دھندلے آئینے
ہر صدّی کی تکان اوڑھے ہوئے
، ایڑیوں سے ٹپکتا سُرخ لہو
،ساتھ لے کر میں اپنے سارے عذاب
جانے کب اور کہاں پہ جا ٹھروں ۔
Wah !!
Kya khob nazm hai , shaur o lashaur ke drmyan se guzrti vujud ke sehraun men nachte gardbad ke hathun men hath dale udas muskurahat labun per liye apni hi talassh ke nashy men sarshar nazm
پسندیدگی کے لئے شکریہ۔ امید ہے آپ میگزین کا مطالعہ اور تبصرہ جاری رکھیں گے