عطیہ ۔۔۔ نثار ناسک
عطیہ
( نثار ناسک)
میں
جب جائوں گا
اس دنیا میں
اپنی دونوں آنکھیں چھوڑ جائوں گا
کہ ڈھلتی شام میں
سڑکوں
کے دو رویہ
گرے
سوکھے ہوئے پتوں پہ
جب
جوڑے چلیں
ہاتھوں
میں ڈالے ہاتھ
اور
سسکاریوں کے درمیاں
ہنستے
ہوئے جذبوں کے گھنگرو
بج
اٹھیں
تو
یہ آنکھیں انہیں دیکھیں
مجھے
روئیں
میں
جب جائوں گا
اس
دنیا میں
اپنی
دونوں آنکھیں چھوڑ جائوں گا
تلاش رزق میں نکلے پرندے
مہرباں
سورج تلے
اڑتے
ہوئے تھک ہار کر
جب
شام اپنے گھونسلوں
کی
سمت لوٹیں
تو
انہیں دیکھیں
اسے
ڈھونڈیں
میں
جب جائوں گا
اس
دنیا میں
اپنی
دونوں آنکھیں چھوڑ جائوں گا
سنہری صندلیں شاموں کو
جب
مے کے لئے
ترسے
ہوئے شاعر
اداس
اجڑے ہوئے
چہرے
لئے
سڑکوں
پہ آ جائیں
تو
یہ آنکھیں
انہیں
روئیں
مجھے
ڈھونڈیں
میں
جب جائوں گا
اس
دنیا میں
اپنی
دونوں آنکھیں چھوڑ جائوں گا
مساجد کے مناروں سے بھی
اونچی بلڈنگوں کے درمیاں
بازار میں
روٹی کے اک ٹکڑے کی خاطر
سانولا معصوم سا لڑکا کوئی
روتا ہوا دیکھیں
تو ان آنکھوں میں
دو آنسو امڈ آئیں
جو آنسو دوسروں کے ہوں
کہ وہ محسوس کر پائیں
میں ان کے ملک میں
جتنے برس زندہ رہا
کس کربلا میں تھا
میں جب جائوں گا
اس دنیا میں
اپنی دونوں آنکھیں چھوڑ جائوں گا