غزل ۔۔۔ قائم نقوی
غزل
قائم نقوی
ٹوٹتے خواب کی کرچیاں رہ گیئں
آنکھ میں کتنی بے خوابیاں رہ گیئں
کب دیا بادبانوں نے اذن سفر
ساحلوں پہ کھڑی کشتیاں رہ گیئں
بند کمرے سے کوئی بلاتا رہا
چیختی فون کی گھنٹیاں رہ گیئں
تیز آندھی تو پھل پھول سب لے اڑی
سر پٹختی مگر ٹہنیاں رہ گیئں
پھر خزاں رت میں کوئی جدا ہو گیا
کان میں جھولتی بالیاں رہ گیئں
حبس بڑھتے ہی احساس ہونے لگا
بند کمرے میں کچھ کھڑکیاں رہ گیئں
رت بدلتے ہی خوشبو ہوا ہو گئی
بستر گل پہ کچھ پتیاں رہ گیئں
Facebook Comments Box