ہوا سرگوشیاں کرتی ہے ۔۔۔ قائم نقوی
ہوا سرگوشیاں کرتی ہے
قائم نقوی
ہوا سرگوشیاں کرتی ہے پھر سے کوچہ ء جاں میں
کسی کے ہاتھ میں پتھر
کسی کے لب پہ گالی ہے
ہجوم عاشقاں سے کون نکلا ہے
یہ کیسا رقص جاری ہے
ہوا سرگوشیاں کرتی ہے
پھر سے کوئے مقتل میں
کہیں پر روح گھائل ہے
کہیں پر جسم زخمی ہے
سر مقتل یہ کون آیا
یہ کیسا رقص جاری ہے
یہ کیسا رقص جاری ہے
ہمیں تو اپنے ہونے کی گواہی ڈھونڈنی ہو گی
کسی در پر کوئی تختی بھی اپنے نام کی باقی نہیں اب تو
ہوا کے ہاتھ میں اپنا تشخص ہے
کہ ہم حرفوں کی سچائی کے منکر ہوتے جاتے ہیں
ہمارے رابطے اور سلسلے سب ایک جیسے ہیں
Facebook Comments Box