زندہ در گور ۔۔۔ قیصر نذیر خاور

زندہ درگور

 قیصر نذیر خاورؔ

 اُس کی آنکھ بین اورآہ و بکا سے کھل گئی جس کی گونج ارد گرد کے مکانوں کے اونچے بنیروں سے ٹکرا کر اس کے کانوں میں آئی تھی ۔ وہ رات بھر رچرڈ کلیڈرمین کی پیانو پر بجائی دھنوں کو سنتے ہوئے قرۃ العین حیدر کا ناول ‘ میرے بھی صنم خانے ‘ پڑھتے پڑھتے اس وقت سویا تھا جب ‘ کِھتیاں ‘ بھی ماند پڑ گئی تھیں ۔ اس وقت پو پھوٹے کافی دیر ہو چکی تھی اور سورج کی کرنیں اس کی چارپائی کو ہولے ہولے گرما رہی تھیں ۔ بین اور آہ و بکاہ سے اسے اندازہ ہوا کہ محلے میں کسی کی موت ہو گئی ہے ۔

 گرمیوں میں اس کی عادت تھی کہ جب سب چھت پرپیڈسل فین لگا کر سویا کرتے تھے ، وہ کمرے میں پنکھے کے نیچے بستر بچھائے سوتا اور سردیوں میں جب سب کمروں میں اپنے اپنے لحافوں کے پاس کانگڑیاں رکھے سو رہے ہوتے تو وہ اپنا بستر اور دو لحاف ساتھ لئے پرچھتی میں چارپائی سجا لیتا تھا ۔ ایک تپائی پر کیسٹ پلئیر رکھتا جبکہ دوسری پر وہ کتابیں رکھتا جو اس کے زیر مطالعہ ہوتی تھیں ۔

 کیسٹ پلیئر کو چلانے کے لئے اس نے اس وقت ایک لمبی تار کے ساتھ ‘ ایکسٹینشن ‘ خود ہی بنائی تھی ؛ ایسی ایک تار اس کے والد نے بھی بجلی کے ہیٹر کے لئے بنا رکھی تھی ، جیسی اب چینی پراڈکٹس کی یلغار کی بدولت بنی بنائی مل جاتی ہیں ؛ اب تو خیر ‘ سی پیک ‘ بھی بن گئی ہے ، جیسے کبھی ایسٹ انڈیا کمپنی بنی تھی ، وہ تھی ولائیتی ، ہندوستانیوں سے تجارت کرنے کے لئے آئی تھی اور پھر ہندوستان پرقابض ہو بیٹھی تھی لیکن کہتے ہیں کہ سی پیک میں تو خود اس کے اپنے ملک کے حاکم طبقے بھی اس کے حصےدار ہیں ۔ انگریزوں نے اس خطے کے ساتھ کیا کیا تھا وہ اسے کافی حد تک معلوم تھا ، اس نئی کمپنی نے ، البتہ ، اس کی اگلی نسلوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھنا تھا یہ شاید وہ نہ بتا سکتا تھا کیونکہ وہ پیدا ہی انگریزوں کے جانے کے بعد ہوا تھا اور یہ نئی کمپنی تو ابھی بنی تھی اور اس کے مکمل طور پر قابض ہونے سے پہلے ہی ، اس نے ، اس دنیا سے کوچ کر جانا تھا ۔

اس بین اور آہ و بکا نے اسے اٹھنے پر مجبور کر دیا ، اس نے آنکھیں ملتے ہوئے ، پیروں سے چپل ٹٹولتے اور پھر انہیں پہنتے ہوئے اس صورت حال پرغور کیا تو اسے احساس ہوا کہ موت محلے میں کسی اور کے گھر میں نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کے اپنے ہی گھرانے میں ہوئی تھی ؛ اس کے ہاں گھرانے کا مطلب ایک فرد اوراس کے بال بچے نہیں تھا ، بلکہ پورا کنبہ تھا اور اس کنبے میں اس کے والد کے ساتھ ساتھ اس کی دادی ، چچا اور پھوپھو کے گھر بھی شامل تھے جو اس محلے میں ایک ہی گھرانہ گردانا جاتا تھا ۔

۔ ۔ ” یہ تو میرے جانے کا وقت تھا ، تم کیوں چلے گئے ، اے اللہ تو کتنا بے نیاز ہے ۔ ” اس کے کانوں میں دادی کی آواز پڑی ۔ ” تم تو مجھ سے بھی چھوٹے تھے ، تمہیں کس بات کی جلدی تھی ۔ ہائے ربا ! ” ، یہ اس کی پھوپھو کی آواز تھی ۔

 یہ سن کر اس نے سوچا ، تو اس کا چچا فوت ہو گیا ہے ؟ ۔ ۔ ۔ آہ و بکا میں اور جو آوازیں شامل تھیں وہ اس کی ماں ، بہنوں اور پھوپھو کی بیٹیوں ، کچھ رشتہ دارجبکہ کچھ محلے کی عورتوں کی بھی تھیں ، اگر کسی کی آوازیں ان میں شامل نہ تھیں تو وہ چچا کی بیوی اور بچوں کی تھیں کہ نہ اس کی بیوی تھی اور نہ ہی کوئی بچہ ۔

 ایک دانا ہمسائی بولی

 ” اچھا ہوا ، بڑے دُکھوں سے چھوٹ گیا ۔

 ” وہ اٹھا اور جلدی سے نیچے اترا ۔ نچلی منزل کے کمروں میں عورتیں آہ و زاری میں لگیں تھیں جبکہ گلی میں قنات تن چکی تھی اور بہت سے لوگ زمین پر بچھی دریوں پر بیٹھے دو دو تین تین کی ٹولیوں میں دبے لفظوں میں باتیں کر رہے تھے

۔ ” جب زندگی میں سکھ ہی نہ ہو تو مر جانا ہی بہتر ہوتا ہے ۔ ” ، ایک آواز اس کے کان میں پڑی تھی ۔

 اس کا چچا کچھ روز پہلے ہی ہسپتال سے واپس آیا تھا ، اس میں اپنا آپ سنبھالنے کی ہمت نہیں تھی ۔ دادی خود بوڑھی تھی ایسے میں پھوپھو اسے اپنے گھر لے گئی تھی ۔

کچھ ہی دیر میں اس پر چچا کی موت کے وقوعے کی تفصیل واضع ہو گئی ۔ پو پھٹنے کے وقت وہ پیشاب کرنے کی غرض سے غسل خانے میں گیا تھا جہاں اس کا پائوں پھسلا اور نلکے کی ٹونٹی اس کے سر پر لگی اور سر پھٹ گیا تھا ۔ بیماری نے جسم کمزور کر رکھا تھا ، اٹھنے کی ہمت نہ تھی ، گھنٹے سوا گھنٹے بعد جب اس کا ایک پھوپھی زاد بھائی حاجت پر، خود غسل خانے میں گیا تو جمے خون سے بھرے فرش پراس کے ماموں کا جسم سرد ہو چکا تھا ۔

اس نے اپنے والد کو ڈھونڈا تاکہ ان سے پوچھے کہ اس نے اس موقعے پر کیا ذمہ داری سنبھالنی تھی ۔ وہ شاید پہلے ہی مختلف کاموں کو دوسروں کے سپرد کر چکے تھے ، بولے ؛

 ” بس مردوں میں موجود رہو ، باقی انتظام میں دیکھ رہا ہوں ۔ ” ، اپنے سے ڈھیروں چھوٹے بھائی کی موت پر ان کی آنکھیں نم تھیں ۔ مردوں سے علیک سلیک کے بعد ان کا پرسہ وصول کرکے وہ پھوپھو کے گھر کی طرف بڑھا ، سیٹرھیاں چڑھ کر اوپرلی منزل پر گیا ۔ اس کے چچا کا سرد جسم اب اس کی چارپائی پر چادر سے ڈھکا پڑا تھا ۔ اس نے سرہانے کی طرف سے چادر سرکائی ۔ چچا کا جمے خون سے لتھڑا چہرہ دیکھ کر اس کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں ۔ غسل خانے کا فرش دھو دیا گیا تھا البتہ میت کوغسل دینا ابھی باقی تھا جس کے لئے مسجد سے مولوی کا انتظار تھا ۔ وہ واپس اپنے گھر آ گیا ، باورچی خانے میں گیا اور اپنے لئے چائے بنانے لگا ۔ اسے اپنے چچا کی موت کوئی سانحہ یا المیہ نہ لگا کہ چچا جب زندہ بھی تھا تو ایک طرح سے زندہ در گور ہی تھا ۔ وہ پتیلی کو گھورتا رہا جس میں پانی کے ابلنے پر اس نے اس میں پتی ڈالنی تھی ۔ اس کا دھیان اپنے بچپن کی طرف لوٹ گیا

؛ وہ شاید تیسری جماعت میں تھا جب اس کے چچا کی شادی ہوئی تھی اوروہ چمکیلے پیتل کے زیورات سے سجی سفید گھوڑی کی پشت پر چچا کے پیچھے شہ بالا بن کر بیٹھا تھا اور بارات ، جس کے آگے آگے بابو بینڈ کے باوردی سازندے اونچی آواز میں اپنے وقت کی مشہور فلمی دھنیں بجا رہے تھے ۔ ۔ ۔ ویر میرا گھوڑی چڑھیا ۔ ۔ ۔ ، وسن پورہ گئی تھی ۔ چچا کو سلامیاں ملی تھیں اوراسے بھی بہت سے پیسے ملے تھے ۔ اسے یاد آیا کہ سب سے پہلے اس کی ہونے والی چچی کے والد نے اس کے والد کے ایک کندھے پر کشمیری شال اور دوسرے پر لنگی رکھی تھی ، پھر اس نے چچا کو لنگی باندھی تھی ، اس کی کلائی پر کیمی کی سنہری گھڑی باندھ کر ایک سو ایک روہے کے نئے نوٹ اس کے ہاتھ پر دھرتے ہوئے کہا تھا ؛

”سنا ہے کہ تم اکھڑ مزاج کے ہو ۔ ۔ ۔ میری بچی کو پیار سے رکھنا ۔ ”

تام چینی کی کیتلی میں پانی ابلنے کی سرسراہٹ ہوئی اور بھاپ اٹھی تو اس کی سوچ کی ڈور ٹوٹی اور اس نے ہاتھ بڑھا کر طاق سے لپٹن کا پیلا ٹین کا ڈبہ پکڑا اور دو چمچ چائے کی پتی ابلتے پانی میں ڈال دی ۔ پھر اس نے جالی دار ڈولی سے دودھ کی پتیلی نکالی اور موٹے شیشے کے مٹھ والے بڑے گلاس میں ، دودھ پر سے بالائی ہٹا کر ، اسےایک چوتھائی حد تک بھر دیا ، دو چمچ چینی ڈالی اور گلاس کے باقی حصے میں قہوہ ڈال کر چمچ سے چینی ہلائی اور چائے پینے لگا ، کھڑکی کے باہر نیم کا درخت اپنی پوری سبز رعنائی اور رس بھری ‘ نیمکولیوں ‘ سے لدا کھڑا تھا ۔ جس پر زیادہ پکی ہوئی نیمکولیاں ہوا کے جھونکوں سے ٹپ ٹپ کرتی نیچے گر کر اپنے رس سے صحن کو جگہ جگہ سے دودھیا کر رہی تھیں ۔ اس کا چچا بھی تو ایک ایسی ہی نیمکولی تھا جس کا بوجھ زیست سنبھال نہ پائی تھی اور اسے غسل خانے کے فرش پر پٹک دیا تھا ۔

 چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اس کا دھیان پھر اُس وقت کی طرف لوٹ گیا جب اس کے چچا کا دوسرا بیاہ ہوا تھا ، پہلا اسے اس لئے یاد نہ تھا کہ وہ اس کی پیدائش سے پہلے کی بات تھی اور وہ اپنے ہی ماموں کی بیٹی سے بیاہا گیا تھا ۔ اس نے سُن رکھا تھا کہ وہ شادی ناکام رہی تھی ، کیوں ؟ یہ اسے کوئی نہیں بتاتا تھا ۔ اس کے چچا کی ماموں زاد طلاق لے کر کسی اور جگہ بیاہی گئی تھی اور اس روز بھی وہ اپنے بچوں کے ہمراہ چچا کی مرگ پر آئی ہوئی تھی اور عورتوں کے درمیان بیٹھی تھی ۔

 اس کا چچا ایک اچھا کمپوزر تھا اور چھاپے خانوں میں اس کا نام عزت سے لیا جاتا تھا ۔ اس نے ، گو ، کبھی اپنے چچا کو چھاپے خانے میں کام کرتے نہیں دیکھا تھا لیکن یہ ضرور سن رکھا تھا کہ سکے کے حروف جوڑتے ہوئے اس کے ہاتھ بجلی کی طرح ایک خانے سے دوسرے تک کوندتے تھے ۔ بچپن میں جب وہ شام کو کھیل کر گھر واپس آتا تھا تو گھر کے باہر تھڑے پر بیٹھا ، اس کا چچا اسے روکتا اور گڑ کی ڈلی سے کچھ حصہ توڑ کر اسے کھانے کو دیا کرتا ۔ یہ گڑ اسے ہفتہ وار ملنے والی تنخواہ کے ساتھ چھاپے خانے کے مالک کی طرف سے ملتا تھا ؛ ‘ گڑ ‘ سکے کے حروف کی کمپوزنگ کے اس پیشے سے یوں جڑا تھا جیسے کنگرو کا بچہ اپنی ماں سے لپٹا ہوتا ہے ۔ اس نے سن رکھا تھا کہ گڑ سانس کی نالی اور پھیپھڑوں کو صاف رکھنے میں مدد دیتا تھا اور یہ بھی کہ سکے کے حروف کو کمپوز کرنے والوں کے لئے اسے کھانا اس لئے ضروری تھا کہ سکے کا برادہ نظام تنفس میں اگر گیا ہو تو وہ گڑ اسے گلا دے ۔

دوسری چچی کی ڈولی اس کے مکان کے سامنے والے مکان میں آ کر اتری تھی جس میں کبھی اپنے وقتوں میں اس کا دادا بھی رہا کرتا تھا ۔ اس نے اپنے دادا کو نہ دیکھا تھا کہ وہ اس کی پیدائش سے بہت پہلے ہی فوت ہو چکا تھا جب اس کی ماں کو بیاہ کر اس گھر میں آئے کچھ ہی سال ہوئے تھے ۔ اس نے ہوش سنبھالتے ہی اس گھر میں دادی اور چچا کو ہی رہتے دیکھا تھا ۔ یہ چچی بھی کچھ زیادہ دیر نہ ٹک پائی تھی ۔ کچھ کچھ دنوں کے بعد چچا کے گھر سے جھگڑے کی آوازیں آتیں جن میں دادی بیٹے کی طرفداری کر رہی ہوتی ، پھر دیر تک چچی کے رونے کی آواز آتی رہتی ، وہ کبھی یہ کہتے ہوئے بھی سنائی دیتی ؛

” اپنے بیٹے کو سمجھائو ، بیوی کو خوش کیسے رکھتے ہیں ۔ ۔ ۔”

 اور پھر سال بھی نہ ہوا تھا کہ وہ ایک بار ، اسی کے ساتھ میکے گئی تھی اور جب وہ اس کو چھوڑ کر گھر واپس آنے کے لئے مڑا تھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ اس نے انہیں پونچھتے ہوئے اور اس کا ماتھا چومتے ہوئے بس اتنا ہی کہا تھا ؛” تم مجھے بہت یاد آئو گے ۔ ” وہ لوٹ کر نہ آئی تھی اور طلاق کا کاغذ اس کے گھر پہنچ گیا تھا ۔ کیوں ؟ اسے اس بات کی بھی اس وقت سمجھ نہ آئی تھی ۔

اس طلاق کے بعد چچا کی آواز میں کرختگی اور تلخی بڑھتی گئی ۔ اب وہ دادی سے اکثر جھگڑتا اور اس کا رویہ اس کے والد کے ساتھ بھی اکھڑ ہوتا ۔ جس چھاپے خانے میں وہ کام کرتا تھا اس کا مالک بھی ایک بار اس کے بدمزاج رویے کی شکایت کرنے اس کے والد کے پاس آیا تھا ۔

 ایک رات اسے گلی میں پیتل اور تانبے کے برتنوں کے پھینکے جانے کی آوازوں نے جگا دیا تھا ۔ وہ چارپائی پراٹھ کر بیٹھ گیا ۔ اس نے دیکھا کہ اس کی ماں کھڑکی کی بانسی سِرکی کے ساتھ لگی باہر گلی میں جھانک رہی تھی اور اس بہنیں ڈری سہمی اس کی قمیض کا پلو تھامے پاس کھڑی تھیں ۔ وہ اٹھا اور دوسری کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا ۔ سامنے والے گھر سے اسے اپنے والد اور بڑے بھائی کی آوازیں آ رہی تھیں جن سے اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ چچا کو برتن پھینکنے سے روک رہے تھے؛

” بیبا نہ کر یار ایسے ، کیوں اپنی جان ہلکان کر رہا ہے ۔ ” ، اس کے کانوں میں آواز آئی ، اس کا والد اپنے بھائی کو بیبا کہہ کر بلاتا تھا ۔ لیکن چچا ان سے بے قابو ہو کر کھڑکی میں نمودار ہوتا اور زور سے ایک برتن نیچے گلی میں پھینک دیتا ۔ گالیوں کا ایک طوفان تھا جو اس کے منہ سے ابل ابل کر باہر آ رہا تھا ۔ کچھ دیر بعد اس کے چچا کے منہ سے گالیوں کا طوفان تو جاری رہا لیکن گلی میں برتن پھینکے جانے والا عمل رک چکا تھا ۔ غالباً وہ سامنے نظر آنے والے سارے برتن پھینک چکا تھا ۔ کچھ دیر بعد گالیوں کا طوفان بھی تھم گیا تھا ، شاید اس کے والد اور بھائی اسے چپ کرانے میں کامیاب ہو گئے تھے یا پھر وہ خود ہی تھک گیا تھا ۔ کچھ دیر بعد اس کے والد اور بھائی گلی سے برتن اٹھا اٹھا کر گھر میں لانے لگے تھے اورانہیں چارپائیوں کے نیچے ڈھیرکرتے جا رہے تھے ۔

” وہیں رکھ آئیں نا ، یہاں آگے ہی تل دھرنے کو جگہ نہیں ہے ۔ ” ، اس کی ماں بولی تھی ۔

” وہ پھر پھینک دے گا ۔ ” ، اس کے والد نے جواب دیا ۔

وہ اپنی چارپائی پر جا کر پھر سے لیٹا تو اس کے ذہن میں کئی سوال تھے ، گالیوں کا محور کوئی اور نہیں اس کے چچا کی پہلی اور دوسری بیویاں تھیں ۔ اس کا ننھا دماغ کچھ نہ سمجھ سکا تھا ۔ جلد ہی نیند نے اسے آ لیا اور وہ سو گیا ۔

 اگلے روز وہ معمول کے مطابق سکول گیا ، واپس آیا اور جب وہ شام کو کھیلنے کے لئے گھر سے باہر نکلا تو اس کا چچا اپنے گھر کے باہر بنے اس تھڑے پر موجود نہ تھا جہاں وہ چھاپے خانے سے واپس آ کر ، نہا دھو کرکپڑے بدل کر بیٹھا ہوتا اور اپنے کسی کوئی یار دوست اس کے ساتھ گپ بازی میں مشغول ہوتا ۔ اسے رات کا واقعہ یاد آیا وہ رکا اور سیڑھیاں چڑھتا اوپر چلا گیا ۔ اوپر گھر میں دادی اکیلی تھی ۔

 ” چچا کدھر ہے ؟ ”

 ” اسے تیرے باپ نے ہسپتال داخل کروا دیا ہے ۔ ” ، دادی نے جواب دیا تھا ۔

 کس ہسپتال میں دادی کو تفصیل معلوم نہ تھی ۔ ۔ ۔ گرائونڈ میں کھیلنے کے دوران اسے گلی کے دوسرے بچوں سے پتہ چلا کہ اس کے چچا کو اس کے والد اور بڑے بھائی کے علاوہ کچھ دیگر بزرگوں نے گاڑی میں بٹھایا تھا اور جب وہ واپس آئے تھے تو چچا ان کے ساتھ نہیں تھا ۔ ایک بچے نے اسے یہ تک کہہ دیا ؛

 ” تیرا چچا پاگل ہو گیا ہے اس لئے اسے پاگل خانے میں داخل کرا دیا گیا ہے ۔

 ” یہ سن کر اس نے اس بچے پر مکا تانا تو وہ تیزی سے پیچھے ہوئے بولا تھا ؛

 ” میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ۔ ۔ ۔ گھر جا کر ، بے شک ، اپنے ابا سے پوچھ لو ۔

 ” بچے کے لہجے میں اعتماد تھا ۔ اس نے مٹھی کھول دی تھی ۔ اس کا دل کھیل میں نہیں لگ رہا تھا ۔ وہ گھر لوٹ گیا ۔ ۔ ۔ کیا اس کا چچا واقعی پاگل ہو گیا تھا ؟ ۔ ۔ ۔ ایک ہی رات میں ؟ ۔ ۔ ۔ کیا گلی میں برتن پھینکنے سے بندہ پاگل ہو جاتا ہے ؟ ۔ ۔ ۔ گالیاں بکنا بھی پاگل پن ہوتا ہے کیا ؟ ۔ ۔ ۔ گلی کے اور بھی کئی لوگ گالیاں دیتے تھے ۔ برتن ٹوٹنے کی آوازیں اور گھروں سے بھی آتی تھیں ۔ ۔ ۔ کیا وہ سب بھی پاگل تھے ؟ ماں نے اسے جلدی واپس آتے دیکھ کر حیرانی سے پوچھا تھا ؛

 ” خیر تو ہے بیٹا جلدی واپس آ گئے ہو ، کھیل میں دل نہیں لگا ، طبیعت تو ٹھیک نا میرے بچے کی

 ؟ ” جواب میں اس نے بچوں کی باتیں اور یہ سارے سوال اس کے سامنے رکھ دئیے ۔ ماں کچھ دیر تو خاموش رہی لیکن پھر اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اسے بتایا تھا کہ اس کا چچا سچ میں پاگل ہو گیا تھا اور اسے اُس صبح پاگل خانے میں داخل کرا دیا گیا تھا ۔ زیادہ تفصیلات خود اس کی ماں کو بھی پتہ نہ تھیں یا وہ اسے بتانا نہیں چاہتی تھی ۔ رات کے کھانے پر اس نے اپنے والد سے بات کی جنہوں نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ اس کے چچا کو دماغی امراض کے ہسپتال میں کچھ دنوں کے لئے داخل کرانا پڑا تھا تاکہ وہ ٹھیک ہو سکے ۔

اسے اپنے چچا سے کچھ زیادہ محبت نہ تھی لیکن بہرحال وہ اس کا چچا تھا جو اسے اپنے گڑ کا کچھ حصہ کھانے کو دیتا تھا اور اپنے سگریٹوں کی خالی ڈبیاں پھینکتا نہیں تھا بلکہ انہیں تہہ کرکے ایک کونے میں رکھتا جاتا تھا ۔ اسے معلوم تھا کہ اور مشاغل کے علاوہ بچوں کو ٹکٹوں اور سگریٹوں کی خالی ڈبیاں جمع کرنے اور آپس میں مقابلہ کرنے کا بھی شوق تھا اور اس کا بھتیجا بھی تو انہیں بچوں میں سے ایک تھا ۔ یہ ڈبیاں جب دس بارہ ہو جاتیں تو وہ انہیں اپنے بھتیجے کے حوالے کر دیتا تھا ، یوں اس کا پھتیجا گلی میں وہ واحد بچہ تھا جس کے پاس کارک والے فلٹر سگریٹ ‘ پاسنگ شو ‘ کی سب سے زیادہ ڈبیاں تھیں ۔

ہفتہ ہو گیا تھا لیکن اس کا چچا واپس نہیں آیا تھا وہ ہر دوسرے تیسرے روز چچا کی واپسی کے بارے میں اپنے والد سے پوچھتا جس کے جواب میں اسے یہی سننے کو ملتا کہ بس جلدی ہی ۔ اور جب اگلی اتوار آئی تو اس کے والد نے ناشتہ کرتے ہوئے اسے کہا ؛ ” جائو نہا کر کپڑے بدل لو اور میرے ساتھ چلو ۔ ” اس نے جلدی سے اپنا کلچہ دہی کے ساتھ ختم کیا ، پیالے میں بچی دہی چمچ سے ختم کی اور نہانے کے لئے اٹھ گیا ۔

وہ دماغی امراض کے ہسپتال میں اپنے بھائی سے ملنے جا رہے تھے جیسا کہ وہ ہر اتوار کو کرتے تھے ( ہر اتوار کی شام کو اس کے والد اسے پاسنگ شو کی چھ تہہ شدہ ڈبیاں لا کر دیتے تھے ) ۔ اسے اچھا لگا تھا کہ اس کا والد اس بار اسے بھی ساتھ لے کر جا رہا تھا ۔ اپنے گھر سے نکل کر وہ دادی کے گھر گئے جس نے ایک ڈھکن والا کٹورا رومال میں باندھ کر اس کے والد کو تھمایا ۔ اس میں اس کے چچا کے لئے پستے باداموں اور کھوپرے والا سوجی کا حلوہ تھا ؛ اس کا چچا ناشتے میں اکثر کلچہ اور حلوہ کھایا کرتا تھا ۔ اس کے والد نے راستے میں کچھ پھل خریدے ، ایک پان سگریٹ والے سے پاسنگ شو کی چھ ڈبیاں اور دو تین ماچسیں خریدیں ۔ وہ اومنی بس سروس کی چار نمبر بس پر بیٹھے اور جیل روڈ پر گھڑ دوڑ میدان کے سامنے واقع ایک عمارت کے بڑے اور مضبوط دروازے پر پہنچے ؛ دستک سن کر دربان نے چھوٹی کھڑکی کا پٹ کھولا اور والد سے اس کی آمد کا سبب پوچھا اور جواب ملنے پر بغلی دروازے کو کھول دیا ۔ وہ دونوں اس سے ملحقہ کمرے میں گئے جہاں ایک شخص نے رومال میں بندھے ڈبے ، پھلوں اور سگریٹوں والے لفافے کھول کر دیکھے ، ایک رجسٹر پر والد اور اس کا نام لکھ کر والد سے دستخط کروائے اور ہاتھ سے اس طرف اشارہ کیا جہاں ہسپتال کی ایک لمبی راہداری تھی ۔ چچا کو ہسپتال میں داخل ہوئے مہینے سے کچھ دن اوپر ہو چکے تھے ۔ راہداری سے گزر کراس کا والد اسے ساتھ لئے ایک ڈاکٹر کے کمرے میں گیا اور اس سے اپنے بھائی کے بارے میں بات چیت کی ۔ ۔ ۔ ان کے درمیان کیا بات ہوئی اسے پتہ نہ چلا کیونکہ ڈاکٹر نے اسے دیکھتے ہی کہا تھا ؛

 ” بیٹا آپ کمرے سے باہر انتظار کرو ۔ ”

، اور اسے باہر برآمدے میں کھڑا ہونا پڑا تھا ۔

والد صاحب کے باہر آنے پر وہ دونوں دو تین مزید راہداریاں عبور کرتے اس کمرے میں پہنچے جہاں اس کا چچا بستر پر بیٹھا تھا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اس کے والد کے مالی حالات بہتر تھے لہذا اس نے اپنے ‘ بیبے ‘ بھائی کے لئے ایک پرائیویٹ کمرہ لے رکھا تھا ۔ اسے اپنا چچا بہت لاغر اور کمزور لگا تھا ۔ ایک مہینے میں ہی اس کے چہرے کی ہڈیاں ابھر آئیں تھیں اور آنکھوں کے نیچے کالے حلقے پڑے ہوئے تھے ۔ چچا نے پھلوں کا لفافہ اٹھا کر بسترکے ساتھ پڑی تپائی پر رکھا اور سگریٹس والے لفافے میں سے پاسنگ شو کی ایک ڈبی نکالی اور سگریٹ نکال کر سلگا لیا ۔ چچا دیکھنے میں ، اسے ، بالکل نارمل لگ رہا تھا ، اس کے منہ پر کوئی گالی نہ تھی ، وہ سب کا حال چال پوچھ رہا تھا اور دادی کا بنایا حلوہ بھی وقفے وقفے سے کھا رہا تھا ۔ ہاں ایک بات جو اسے عجیب لگی تھی وہ اس کے والد سے بجلی کے جھٹکوں کے بارے میں بار بار گلہ کر رہا تھا جس پر اس کے والد اسے تسلی دیتے کہ بس چار بار اور لگیں گے اور پھر اسے ہسپتال سے چھٹی مل جائے گی ؛ یہ بجلی کے جھٹکے کیا تھے ؟ وہ سوچتا رہ گیا تھا ۔ ایک تیز گھنٹی کی آواز پورے ہسپتال میں گونج اٹھی ؛ ملاقات کا وقت ختم ہوگیا تھا ۔ گھر واپس آتے ہوئے اس نے بس میں اپنے والد سے بجلی کے جھٹکوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مختصر جواب دیتے ہوئے صرف اتنا ہی کہا ؛

 ” یہ تمہارے چچا کے لئے دوائیوں کے ساتھ ساتھ علاج کے کا ایک حصہ ہے ۔ ”

اس جواب نے اسے اور شش و پنج میں ڈال دیا تھا ۔ ۔ ۔ بجلی کے جھٹکے اور علاج ؟ ایک دفعہ اسے کرنٹ لگا تھا تو اس کا ہاتھ کئی دن تک سن رہا تھا ۔ ۔ ۔

 اس کا چچا دو ماہ ہسپتال میں رہ کر گھر واپس آ گیا تھا ۔ وہ خاصا نحیف اور کمزور ہو گیا تھا ۔ ایک ہفتہ وہ گھر پر رہا اور پھر اس نے چھاپہ خانہ جانا شروع کر دیا تھا اور شام کو تھڑے پر بھی بیٹھا نظر آتا ۔ ہسپتال والوں نے دوائیوں کا ایک پلندہ اس کے ساتھ گھر بھیجا تھا جس کی خوراکیں اس نے صبح و شام کھانی ہوتی تھیں ۔ اس کے باوجود ہر ماہ جوں جوں چاند کی چودہ تاریخ نزدیک آتی وہ دیکھتا کہ تھڑے پر بیٹھا اس کا چچا منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہا ہوتا اور یہ بڑبڑاہٹ چاند کی چودویں کو سب سے بلند ہوتی ، اتنی بلند کہ اس شام اس کے پاس بیٹھنے والے اندھیرا ہونے سے قبل ہی اپنی اپنی راہ لیتے ۔ اس بڑبڑاہٹ میں گالیاں بھی ہوتیں اور ان دو ناموں کا ذکر بھی ہوتا جو اس کی سابقہ بیویوں کے تھے ، اس دوران وہ چاند کو گھورتا ریتا ۔

 وقت ، اس کونج کی طرح جو چاند کو منزل مان کر اس کی طرف بڑھتی رہتی ہے اور اس تک پہنچ نہیں پاتی ، کی طرح پر پھڑپھڑاتا آگے بڑھتا رہا ۔ اس کا چچا سال دو سال بعد پھر اسی حالت میں آتا رہا جیسی اس رات تھی جب اس نے گھر کے سارے برتن اٹھا کر گلی میں پھینکے تھے اور اس کا والد اسے کچھ دنوں کے لئے پھر ہسپتال میں داخل کرا آتا جہاں اسے ‘ الیکڑک شاک تھراپی ‘ کا مہینہ دو مہینہ سامنا کرنا پڑتا اور وہ مزید لاغر ہو کر گھر واپس آ جاتا ۔ اب اس کے ہاتھوں میں بجلی نہیں رہی تھی جو کبھی سکے کے حروف کے خانوں پر کڑکتی تھی ، ویسے بھی سکے کے حروف والی کمپوزنگ اور بلاک پرنٹنگ کی جگہ آفسٹ چھپائی لے رہی تھی جس کی وجہ سے اسے مہینے میں کچھ دن ہی کام مل پاتا ۔ اس کا بھیتجا سکول کی تعلیم پاس کرکے کالج اور پھر یونیورسٹی میں پہنچ چکا تھا ۔ وہ ، اب ، جانتا تھا کہ ماہرین نفسیات نے اس کے چچا کو شیزوفرینیا ‘ schizophrenia ‘ کا دائمی مریض قرار دیا تھا جسے وہ سائیکو ۔ ڈرگس و تحلیل نفسی سے کم ، اور ‘ الیکڑک شاک تھراپی ‘ کے ذریعے زیادہ کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔

 وہ شروع سے ہی سائنس کا طالب علم ریا تھا لیکن یونیورسٹی تک پہنچتے پہنچتے ادب ، فلسفے ، نفسیات اور دیگر سماجی علوم کا بھی کافی مطالعہ کر چکا تھا ۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ‘ الیکڑک شاک تھراپی ‘ علم نفسیات میں ایک متنازع طریقہ علاج تھا ، اسے یہ بھی سمجھ میں آتا تھا کہ ‘ سائیکو ۔ ڈرگس ‘ کی سائنس پس ماندہ تھی ۔ تب کئی بار ، جب اس کا والد اپنے بھائی کو ‘ دماغی امراض کے ہسپتال ‘ میں داخل کرانے جاتا تو وہ ان کے ہمراہ ہوتا ؛ وہ ان ماہرین نفسیات سے اس بارے میں بات کرتا کہ شیزوفرینیا کا خلل تو ٹی بی کے جراثیموں کی طرح ہر انسان میں ہوتا ہے لیکن ایسا کیا تھا کہ اس کا چچا ، جو اس کے بچپن میں ایک جانا مانا ‘ کمپوزر’ تھا ، اکھڑ ہونے کے باوجود خاندان کا ایک اچھا فرد تھا ، لیکن دل میں محبت بھی رکھتا تھا ؛ شب برات پر یہ فرض اسی نے ہی سنبھالا ہوا تھا کہ گھرانے کے سارے بچوں کے لئے پھلجڑیوں اور آتش بازی کا انتظام کرے ۔ وہ تو ہسپتال میں ‘ الیکڑک شاک تھراپی ‘ کا سامنا کرتے ہوئے بھی نہ بھولتا تھا کہ اس نے سگریٹوں کی خالی ڈبیاں تہہ کرکے سنبھالنی ہیں اور آنے والے اتوار کو اپنے بھائی کے ہاتھ اپنے بھتیجے کے لئے بھیجنی بھی ہیں ۔ اس نے ان سے یہ بھی ذکر کیا کہ جب وہ اشتعال میں آتا تھا تو اس کی گالیوں کا محور صرف وہ دو عورتیں ہی کیوں ہوتی تھیں جو کبھی اس کی بیویاں رہ چکی تھیں ۔ اس پر ڈاکٹروں کا جواب ہوتا ؛

” ہم ان دونوں سے بات چیت کئے بغیر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے کہ ایسا کیوں ہے ، ہمیں اس کی اپنی گفتگو اور آپ کے والد کی مہیا کردہ معلومات سے تو اس کا اندازہ نہیں ہو پایا ۔ ”

وہ بھی اپنی جگہ ٹھیک تھے ۔ چچا کے پاگل پن کی وجہ میں ان دو سے بات کیے بِنا وہ اس خلل کے بڑھنے کی جڑ تک تو نہیں پہنچ سکتے تھے ۔ وجہ اگر ڈاکٹروں کو نہیں سمجھ آ رہی تھی تو اسے کیسے آ سکتی تھی ۔ اس نے سوچا کہ وہ ان دونوں عرتوں سے ملے جو اس کے چچا کی بیویاں رہ چکی تھیں ۔

ایک سے تو وہ نہ مل پایا جو اس کی دوسری بیوی تھی اور جس سے اس کی دوستی اس حد تک تھی کہ وہ اسے بچہ سمجھتے ہوئے اس کے سامنے کپڑے بھی بدل لیا کرتی تھی ؛ اسے ‘ امبیاں ‘ اور جامن کھانے کا بھی شوق تھا جس کے لئے وہ ہی اس کا وسیلہ بنا کرتا تھا ، وہ برادری سے نہ تھی اور طلاق کے بعد دوبارہ کسی اور گھرانے میں بیاہی گئی اور تین چار بچوں کی ماں بن چکی تھی ۔ وہ اس کی رسائی میں نہ تھی ۔ دوسری ، جو رشتے میں اس کی پھوپھو ہی لگتی تھی ، سے ، جب اس نے اس کی پہلے خاوند کے ساتھ ازدواجی تعلقات کے بارے میں پوچھا تو وہ کچھ دیر کے لئے تو ہکا بکا رہ گئی ؛ وہ اس وقت اسی کے گھر میں ، اس کی ماں کے پاس بیٹھی اپنے نومولود ؛ جو شاید اس کا آٹھواں بچہ تھا کو چھاتی سے لگائے دودھ پلا رہی تھی ۔ اس نے تیزی سے اپنے بچے کو خود سے الگ کیا ، قمیض درست کی اور کچھ دیر اسے گھورتی رہی ، اس کی ماں بھی اس کے سوال پر اسے حیرانی سے تَک رہی تھی ۔ جب اس کی پہلی والی سابقہ چچی سوال کے جھٹکے سے باہر نکلی تو وہ صرف اتنا کہہ سکی ؛

 ” وہ وحشی ہو جاتا تھا ۔ ۔ ۔ ” ، اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا ۔ ‘ یہ اور کچھ نہ کہے گی ‘ ، اسے مزید پوچھنا بیکار لگا اور اس کمرے سے باہر نکل گیا ۔

 مولوی آ چکا تھا اور اس کے چچا کو غسل ِ آخر دیا گیا اور کفن پہنا کر اس کی میت تیار کر دی ۔ اب وہ عورتوں کے درمیان اس کے گھر میں پڑی تھی ۔ ابھی اس کا پھوپھی زاد قبرستان سے واپس نہیں آیا تھا ۔ وہ آتا تو میت کو باہر مردوں میں لایا جانا تھا اور پھر اسے میانی صاحب لے جا کر دفنانا تھا ۔ دوپہر ہو چکی تھی ، موسم سرد تھا اور جاڑے کی دھند نے بھی فضا کو بوجھل کر رکھا تھا جس میں سے سورج کی روشنی مشکل سے گزر کر گلی میں پہنچ رہی تھی ۔ موچی دروازے میں رہنے والے اس کے ایک ماموں نے وہیں خلیفہ نانبائی کو ‘ نان خاگینے ‘ ، کا کہہ دیا ہوا تھا ۔

 اس کا پھوپھی زاد قبرستان سے واپس آ یا اور اس نے بتایا کہ قبر تیار ہو گئی ہے

اس کے والد نے اس سے پوچھا ؛

 ” گھڑے دیکھ بھال کر لئے تھے کچے تو نہیں ہیں ؟ ”

 ” گھڑے نہیں لیے ۔

 اب سیمنٹ کی سلیبیں چلتی ہیں اور قبر بھی سیدھی تیار ہوئی ہے ۔ ”

” بغلی کیوں نہیں ؟ ”

 ” گورکن نے مجھے ایک سرکاری خط دکھایا تھا جس میں بغلی قبر بنانے پر پابندی کا حکم درج تھا کہ یہ ایک کی بجائے دو کی جگہ گھیرتی ہے ۔ ”

 ابھی وہ اس کے والد کو یہ سب بتا ہی رہا تھا کہ نان اور خاگینے کے دو ٹوکرے بھی موٹے کھیسوں میں لپٹے پہنچ گئے ؛ ایک میں نان تھے جبکہ دوسرے میں خاگینے ۔

 اس کی ماں نے انہیں باورچی خانے میں مٹی کے بنے چولہے کے پاس رکھوا دیا تھا ؛ گو مٹی کے تیل والے ڈبل سٹوو وہاں موجود تھا اور کھانا اسی پر بنتا تھا لیکن مٹی کا بنا پرانا چولہا اب بھی وہاں موجود تھا اور کانگڑیاں بھرنے کے کام آتا تھا ؛ اُس نے اِس میں پتھر کے کوئلے جلا کر باورچی خانہ پہلے ہی گرم کر رکھا تھا ۔

 گھر سے میانی صاحب تک ، جنازے کے پیچھے ڈھیلے قدموں سے چلتے ہوئے ، وہ سوچ رہا تھا ؛ اس کے چچا کے دماغ میں شیزوفرنینا کا خلل مشتعل کیسے ہوتا تھا ؟ اسے کوئی جواب نہ مل پا رہا تھا ۔ چچا کو دادا کی قبر کے قدموں میں دفن کیا گیا ۔ یہ اس احاطے کی پہلی قبر تھی جو بغلی نہ تھی ؛ جسے بند کرنے کے لئے گھڑے نہیں سیمنٹ کی سِلیں استعمال ہوئی تھیں ۔

جب اس کے چچا کو قبر میں لِٹا کر اسےسِلوں سے پاٹ دیا گیا اور لوگ رسماً اس پر مٹھیاں بھر کر مٹی ڈال رہے تھے تو وہ ایک طرف کھڑا اپنے چچا کی ذہنی حالت کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا ۔ اس کے والد نے اس کا کندھا ہلایا اور مٹی ڈالتے ہوئے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ؛

 ” دو ایک مٹھیاں تم بھی ڈال دو۔ ”

 اس نےاپنی مٹھی مٹی سے بھری اور اسے کس کر اس طرح مٹی نیچ گرانے لگا جیسے شیشے کی کونیکل گھڑی میں ریت ایک دھار کی صورت میں اوپرلے حصے سے نچلے میں گرتی ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے اپنی ایک سابقہ پہلی چچی کا جملہ ، ” وہ وحشی ہو جاتا تھا ۔ ۔ ۔ ”

، گونجا ۔

 ساتھ ہی اسے یہ خیال بھی آیا ؛ کہیں وہ کچھ نہ کر سکنے پر، جھنجھلاہٹ سے ۔ ۔ ۔ من ہی من میں وحشی تو نہیں ہو جاتا تھا ۔ ۔ ۔ ؟  

۔ 

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

April 2024
M T W T F S S
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
2930