نیل پالش ۔۔۔ قرب عباس
نیل پالش
قُربِ عبّاس
کوئی بھی اس کے حُلیے کو دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ دودھ والا ہے۔
نئے ڈھنگ کا لباس، چہرے پر جوانی کی تازہ بہار، چال ڈھال میں جذبات کا ایندھن اور آنکھوں میں نامعلوم راستوں کی تلاش واضح دیکھی جاسکتی تھی۔ ‘دودھ والا’ تو اپنی اماں کی مہربانی سے بنا تھا۔ اچھی پڑھائی لکھائی کے بعد جب نوکری کا وقت آیا تو ماں سے اکلوتے بیٹے کی جدائی دس دن بھی برداشت نہ ہو سکی، رو دھو کر واپس بلوا لیا۔ گھر لوٹ کر کچھ عرصہ تو بیکار پڑا رہا پھر باپ اور چاچے کے کہنے پر انہی کے نقش قدم پر چل پڑا۔ گھر گھر جا کر دودھ دیتا اور باقی کا سارا دن اپنی بیٹھک میں لیٹا ہندی گانے سنتا یا فلمیں دیکھتا رہتا۔
اس روز جب وہ گھر لوٹا تو اُونچی آواز میں ماں سے برتن سنبھالنے کو کہا اور نہ ہی بیٹھک میں جا کر ٹی وی لگایا، بس چارپائی پر گِر گیا۔ عجیب ہی کشش تھی ان مخروطی انگلیوں کے لمبے ناخنوں پر لگی جامنی نیل پالش کی۔ وہ جامنی ناخن جو گلِ مینا کی پتیاں معلوم ہوتے تھے، رہ رہ کر اس کے نرم نرم خیالات کے اندر جا کر گدگدی کر رہے تھے۔ وہ چارپائی پر لیٹا ادھر ادھر کروٹ لینے لگا، بے چینی بڑھنے لگی تو اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اسے پہلی مرتبہ دنیا میں کچھ الگ، کچھ بہت ہی الگ اور خوبصورت محسوس ہوا تھا۔ وہ منظر بار بار کسی رپیٹ سین کی طرح اس کے تصورات کے پردے پر چل رہا تھا۔
وہ دروازے کی بیل دیتا ہے، اندر سے ملائم سی آواز سنائی دیتی ہے؛
“کون ہے؟”
اور وہ کہتا ہے؛
“میں ہوں جی، دودھ والا!”
اور پھر کچھ پل کے لیے خاموشی رہتی ہے، دروازہ نیم وا ہوتا ہے اور اس میں سے ایک اسٹیل کی چمکتی ہوئی دیگچی باہر آتی ہے، کیا ہی گلابی ہتھیلی ہوتی ہے اور ہاتھ ایسا مرمریں کہ چھونے سے بھی میلا ہونے کا خدشہ ہو اور پھر ان گورے ہاتھوں کی مخروطی انگلیوں کے لمبے ناخنوں پر لگی وہ جامنی نیل پالش۔۔۔
کس قدر غضب کا نظارہ تھا۔۔۔
وہ بار بار سوچتا ہے، رہ رہ کر سوچتا ہے اور اس کو یہ سوچنا دنیا کا حسین ترین کام لگتا ہے۔ اس لمحہ اس کا یہ بھی جی چاہا کہ کاش ایسا ہوتا میں موبائل نکال کر ان ہاتھوں کی ویڈیو بنا لیتا اور پھر اس کو ہر ایک سانس کے ساتھ ایک مرتبہ دیکھتا، اس وقت تک دیکھتا جب تک کل دوبارہ اس دہلیز پر نہ چلا جاتا۔ جیسے تیسے رات بیت گئی اگلے دن اس نے باقی گھروں میں جلدی سے دودھ دیا اور اسی دروازے پر جا کر اپنی قمیض کا کالر درست کرنے کے بعد بیل بجائی۔ اندر سے وہی کھنکتی ہوئی آواز سنائی دی؛
“کون؟”
“جی ۔۔۔ جی۔۔۔ م۔۔۔ میں دودھ والا!”
کچھ دیر کے بعد وہی کل والا سین سامنے آیا اور اس کے اندر جذبات کا ایک طوفان برپا ہوا۔ اس کی سمجھ سے باہر تھا کہ وہ کس طرح ایک ہاتھ سے دودھ ڈالے دوسرا جیب میں ڈال کر موبائل نکالے اور اس نظارے کو اپنے پاس محفوظ کر لے۔ ڈر اور جذبات کی اتھل پتھل میں کچھ بھی نہ ہو پایا۔ اس نے دودھ دینے کے بعد برتن واپس بڑھایا اور وہاں سے چلا آیا۔
“کیا میں کبھی اس کی شکل دیکھ سکوں گا؟”
خیال نے اس کے ذہن میں اپنی ٹانگیں پسار لیں اور ننھی سی خواہش کا سر اپنی گود میں لے کر بہلانے لگا۔
اس دوران ایک اور سوچ نے اس کو شرمندہ کر دیا؛
“تمہاری اوقات ہی کیا ہے؟ دودھ والا؟”
پہلی مرتبہ اس کو اپنے پیشے سے شرمندگی محسوس ہوئی تھی اور یہ بھی محسوس ہوا تھا کہ جب وہ اپنے آپ کو ‘دودھ والا’ کہہ کر متعارف کرواتا ہے تو لوگوں کے ذہن میں اس کا کیا حلیہ آتا ہوگا؟
دھوتی پہنے، سر پر پکڑی باندھے، کھلے کرتے میں ایک بدبودار دیہاتی سا مرد، جس کے ہاتھ بھینسوں کا چارہ کاٹ کاٹ کر کھردرے ہوچکے ہوں اور ساری کی ساری رگیں بھدے سے انداز میں دکھائی دے رہی ہوں۔ وہ اٹھا اور آئینے میں اپنی شکل دیکھنے لگا، اس کو کہیں سے بھی، کسی طرح سے بھی اپنے آپ میں ایک روایتی گوالا دکھائی نہ دیا۔۔۔
پھر ایسا کام کس لیے کر رہا تھا؟
مگر ایسا کام نہ کرتا تو کیا اس پری کو دیکھ سکتا تھا؟
لیکن اب بھی کہاں دیکھا تھا؟
کسی ڈائجسٹ میں اس نے روحانی قسم کا جملہ پڑھا تھا:
“محںبت میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ بن دیکھے بھی سب کچھ دیکھ لیتی ہے۔”
تو کیا اس کی محبت خام تھی کہ ابھی تک وہ کچھ نہ دیکھ سکا تھا
محبت کا لفظ ذہن میں آتے ہی اس کے اندر وہی روحانی ہلچل مچ گئی۔
“کیا مجھے محبت ہوگئی ہے؟
کیا واقعی یہی وہ لڑکی ہے جس کو میں نے اپنے تصورات میں دیکھا تھا؟
اور اگر یہ وہی لڑکی ہے تو پھر مجھ پر لعنت ہے کہ میں اپنے پیشے، جس نے مجھے اپنی محبت تک پہنچایا کو برا بھلا کہہ رہا ہوں۔ میں دودھ والا ضرور ہوں پر مجھے اس پر فخر ہے۔ میں چوری چکاری نہیں کرتا۔ آوارہ لڑکوں کی طرح فضل دین کی بیٹھک میں چرس کے سُوٹے نہیں لگاتا۔ اس عمر میں اپنی روزی روٹی کماتا ہوں، باپ کا سہارا ہوں، گھربار کا بوجھ اٹھانے میں اس کا ساتھ دیتا ہوں، شکل و صورت کے حساب سے بھی پورے گاؤں میں اچھا خاصا ہوں، پڑھا لکھا ہوں۔۔۔
کیا خرابی ہے مجھ میں؟ دودھ بیچنا کوئی عیب تو نہیں ہے جس کو لوگ برا سمجھیں گے۔
اس کا ذہن خلاء جیسا بیکراں ہوچکا تھا، جس کی کوئی سمت تھی، نہ کوئی قوت ثقل۔ کسی گریوٹی سے بے نیاز خلاء میں تمام چھوٹے بڑے، آڑے ترچھے، اوپر نیچے منتشر سے خیالات تیرتے پھر رہے تھے۔
ایک سے دو دن اور پھر تیسرے سے چوتھا دن۔ نیل پالش اسی طرح ترو تازہ رہی اور رہ رہ کر اس کے خیالات میں جل تھل کرتی رہی۔
رات سویا تو اس نے دیکھا کہ وہ اسی دہلیز پر کھڑا ہے اور پہلے ہاتھ باہر آتا ہے اور اس کے بعد کلائی دکھائی دیتی ہے، کلائی کے بعد بازو اور پھر دو ابھار سامنے آتے ہیں، اس کا دل زور زور سے دھڑکتا ہے، گردن اٹھا کر دیکھتا ہے تو ایک پری چہرہ لڑکی اپنے ماتھے سے بال ہٹاتی ہے اور دیکھ کر شرماتے ہوئے سر جھکا لیتی ہے۔ وہ اس کے قریب ہوتا ہے تو اور زیادہ شرما جاتی ہے۔ جیسے جیسے مناظر سست رفتار ی کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے، جسم میں اسی طرح ایک سنسنی پیدا ہو رہی تھی، ایک ایک رگ جیسے کھنچتی چلی جا رہی تھی اور پھر ایک زبردست گرد باد نے اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۔۔ اچانک آنکھ کھلی تو وہ اپنے اندھیرے کمرے میں چارپائی پر اوندھا پڑا تھا، چپچپاہٹ سے اسے الجھن سی محسوس ہوئی۔ خیالات مدھم ہوئے مگر جذبات اپنے عروج پر موجود تھے۔
اگلی صبح وہ تہیہ کر چکا تھا کہ حوصلہ کرکے اس ہاتھ کو چھو لےگا لیکن پھر راستے میں اس کو خیال آیا کہ ایسا کرنا نجانے کس طرح کا تاثر چھوڑے، بہتر ہے کہ پہلے کوئی بات کر لی جائے۔ مگر کیا بات کی جائے؟ وہ بہت سست رفتار میں موٹر بائیک چلاتے ہوئے سوچنے لگا؛
“دودھ تو ٹھیک ہوتا ہے ناں؟”
نہیں بہت بکواس سا جملہ ہے۔
“آپ کو بھی ایسا لگتا ہے میں دودھ میں ملاوٹ کرتا ہوں؟”
اس سے بھی زیادہ بکواس ہے۔
“دودھ ۔۔۔”
آخر دودھ ہی کیوں؟ کوئی اور بات بھی تو کی جاسکتی ہے؟
حسبِ معمول کالر کو درست کیا، اندر برپا طوفان کو دو تین لمبے سانس لے کر متوازن کیا اور گلا صاف کرکے بیل بجائی، اسی طرح سے آواز سنائی دی؛
“کون؟”
“دودھ والا ہوں جی”
دروازہ کھلا اور اندر سے وہی ہاتھ برآمد ہوا۔
آگے جھکتے ہوئے اس نے آہستگی سے کہا؛
“موٹر بائیک گر جائے گا جی، آپ برتن تھوڑا آگے بڑھا دیں تو مہربانی ہوگی۔”
کچھ توقف کے بعد ایک سراپا دروازے سے نمودار ہوا، اس کے دل کی دھڑکن نے بھی رفتار پکڑی۔ نیل پالش لگے ہاتھ اسٹیل کی دیگچی آگے بڑھا رہے تھے۔
ادھیڑ عمر آنکھوں میں ناخواندگی اور کانوں کے پیچھے سفید بالوں کی لٹیں جھول رہی تھیں۔
“دودھ نیچے گر رہا ہے، ذرا دھیان سے بیٹا۔”