حدت ۔۔۔ رابعہ الرباء
حدت
رابعہ الرباء
دھو پ کی تپش سے، سورج کی گرمی سے، اوزون کیے شگا ف سے ، انسانو ں کے رویوں سے، مخلو ق کے سلو ک سے بر ف پگھل پگھل کر نجا نے کب سے اپنا سفر شروع کر تی ہے۔ کہاں کس سے جھو لتی ہے، کہا ں کس کو چومتی ہے، کہا ں اس کا دم بے دم ہو جا تا ہے، اور کہا ں کس کی با ہو ں میں سو جاتی ہے۔اور پھرنجا نے وہ کب کس سفر کو، کس اور نکلتی ہے، پھر سے وہی آنکھ مچولی ، کسی سے اٹکھیلیاں کر نا، کبھی کسی درز سے اپنا رستہ بنا لینا ، کبھی کسی پتھر کو ر ستے سے ہٹا دینا ، یو ں حدتوں کا طویل سفر مادوں میں بد ل جا تا ہے۔
مو تی بننے تک سیپ میں مدتو ں محبت کے کر ب نا ک سفر ہو تے ہیں ،تب کہیں کو ئی سچا مو تی کسی کی سہا گ کے تحفے میں پرویا جا تا ہے، کسی کے گلے ، کسی کی انگلی میں اپنے لمس کی گدگداہٹ بکھیرتا ہے۔
حدتو ں سے آبشاریں ابل پڑتی ہیں، تو ہم Niagra falls, victoria falls , chilnualna falls , sawat falls ، کے حسین نظارو ں کو جاتے ہیں۔ اس کی طا قت سے تو پہا ڑوں ، کہسارو ں کے سینے شق ہو جاتے ہیں۔ خاک کی مجال کہ اس کے سامنے چٹان بننے کی جرأت کر سکے اور جو بنے وہ فرعون ہے، فرعون خدائی دعویدار ۔۔۔
پتھرسے ذرا ادھر ہٹ کر اس کے قریب اس نے اس کے لمبے گھنگھریالے با لو ں کی ایک لٹ کو اپنی انگلی میں لپیٹا اور اس کے گا ل پہ لا کر چھو ڑ دیا۔
’’ حسینہ من یہ زندگی ہے‘‘
حسینہ من نے بڑی ادا سے ایک انگڑائی لی، اپنی بڑی بڑ ی آنکھو ں اور لمبی پلکو ں کو اٹھا کر اس کی طرف دیکھا ، جس کے چہرے پہ وصل کے کئی وحشت ناک لمحے حدت کے نا م پہ جوانی میں ہی شکن بن گئے تھے۔کئی حدتیں ابھر کر شدت میں بد ل گئی تھیں ۔ اس نے اس کا مر مریں ہاتھ تھا ما ، یو رپی کلا سیکل رقص کی سی گو لا ئی میں گھو م گئی۔ اس کے چاروں اور اک خوشبو بکھر گئی ، جو اسی میں ہی مسکرا رہی تھی ، جواس کو ہی تڑپا رہی تھی۔اس نے تڑپ کر لمحہ بھر میں قریب کے درخت سے ٹیک لگا لی۔
’’چمکتی کشادہ پیشانی، بھو لی صورت پہ سجی صدیو ں پرانی معصوم با دامی آنکھیں، جن میں صدیو ں کی انگڑائیا ں ٹھہر گئی تھیں ۔ بھر ے بھرے گا لو ں پہ اک دن کی بڑھی شیو ، مرمریں ہونٹوں سے کچھ اوپر گا ل پہ جھو لتا اک تل، لمبی گردن سے نیچے نکھرا نکھرا کشادہ سینہ، جس کو اس نے اک سیاہ کُرتی سے چھپا رکھا تھا ، مگر حسن تو حسن ہو تا ہے ، سات پردوں میں بھی چھلک و جھلک پڑتا ہے،ریڑھ کی ہڈی سے بغل گیر ہو تا پیٹ، اور اس کے نیچے شفاف ز مین پہ کھِلی کھمبی ، جس کی حفاظت پہ دو سرو ٹانگیں معمو ر تھیں، گو ل مٹول چمکتے با زو ، جن پہ با ل رات کی کھلی رات کے ستاروں کی طرح مسکرا رہے تھے۔
وہ اپنے تما م تر حسین لبا س کے با وجو د اس کے چشم تصور میں نجا نے کب سے فطرت کے لبا س میں مسکرا رہا تھا۔جذبا ت دونو ں اور اپنی خو شبو بکھیر رہے تھے۔ضبط کی قوت بھی دونو ں اور یقینی و بے یقینی کی ڈولتی کشتی سے انا کی دیو ار بنا نے کی کو شش میں کا میاب نظر آ تی تھی۔
حسینہ من نے آنکھیں کھو لیں اس کی طر ف د یکھا ۔ غو ر سے دیکھا ، سر تا پا د یکھا، مسوس سی ہو کر آنکھیں چرا لیں۔ آ سمان کی او رد یکھ کر کہنے لگی ’’فطر ت کے دو ر نگ ہیں، وہ پہا ڑوں سے چشمے نکا ل د یتا ہے، لوگ دیو انہ وار اس کی اور دوڑپڑتے ہیں ، کبھی بر ف کی خو د سپر دگی اس کو پا نی بنا د یتی ہے، پا نی چشموں اور آبشاروں کی صورت پیا س بجھا نے لگتا ہے ، کبھی یہ نظا رو ں کی پیا س ہو تی ہے، کبھی یہ جا ندارو ں کی پیاس ہو تی ہے، کبھی پیاس نہیں بھی ہو تی، تو لپٹ کر دلدل میں بد ل جا تا ہے، سیم کی شکل بیما ر ہو جا تا ہے، اور بیما ر کر دیتا ہے۔ گرتا نیچے کی اور ہے، غصے و ضبط میں طو فا ن بن کر اچھل پڑ تا ہے ، چنگھاڑ تا ہے تو خوف زدہ کر دیتا ہے۔
دوسرے رنگ میں بھید ی بن جا تا ہے ۔ اپنے دل میں وسعت پیدا کر لیتا ہے ،خو دمیں خو د ہی ٹو ٹ جا تا ہے ، سوراخ بن جاتا ہے ،مگر با ہر سے اس کا رعب ، اس کا فطر ی دبدبہ قائم رہتا ہے اور پھر یہ دل کا سوراخ گہرا ہو کر خود میں اتنی جگہ بنا لیتا ہے کہ یہا ں و حی اتر نے لگتی ہے، توکبھی وحی والے کی حفا ظت کے لئے مکڑی محبت بن جا تی ہے ، کبھی کبو تر بسیرا کر لیتے ہیں ، کبھی سانپ نظا رے کی تڑپ بن جا تا ہے، تو کبھی کہسا ر مثل انگار ہو جاتا ہے، مگر ریز ہ ریزہ ہو نے کی جر أ ت نہیں کر تا ، تو کبھی صفاکی شا ن و شو کت میں بھی جلو ہ نما ئی ہو تی ہے۔
اس نے پھر قریب ہو کر ، اس کی کمر کے گر د اپنی بانہیں پھیلا دیں۔
’’ تو حسینہ من ہم کو ئی فر شتے تو نہیں۔۔۔‘‘
’’ تو جان من ہم مخلو ق اشرف بھی تو نہیں‘‘
یہ کہتے ہی وہ اس کی بانہو ں کے گھیر ے سے نکل گئی مسکرا کر درختو ں سے دور دیکھنے لگی وہ سنجید ہ سا سرو قد ، چمکتی آنکھو ں معصو م بڑ ی بڑ ی صدیو ں پرانی آنکھو ں والا اسے کسی درخت کے پیچھے کھڑا د کھائی دیا۔ اس کے مر مریں ہو نٹو ں پہ نظر پڑتے ہی اس کے بدن میں لہر یں دوڑ پڑتیں۔اس کا دل چا ہتا جائے اوربے ساختہ اس سے لپٹ جائے، اسے سر تا پا اپنے ہو نٹوں سے نم کر دے، اپنی انگلیو ں کی پو رو ں سے اس بدن سے، وہ صدیو ں پرانی مٹی کی تہوں کو کھر چ ڈالے، جواس کی آنکھو ں میں د کھائی دیتی ہیں، جو اسے سوتن کی طر ح ڈستی ہیں۔
اس نے پھر سے اس کے گھنگھر یالے با لو ں کی ایک ز لف کو اپنی انگلی میں تھا م لیاور قریب ہو کر اس کے گا ل ہی پہ چھو ڑ دیا۔
’’ حسینہ من نبو ت عورت پہ نہیں اتری، نبی بننے کی کو شش نا کر و، و لایت کا دور بھی نکل چکا، صور اسرافیل تک اب یو سف کی پا سداری سے زلیخا کا دامن تھا م لینا ہی حسن کی معراج ہے، تم کس تلا ش میں ہو ‘‘
اس نے چند الٹے قد م بہت طا قت سے اٹھا ئے، انجا نی قوت سے بو لی’’ اس سے قید یو سف بہتر، جس سے تن کے در کھل جائیں اور من پیا سا رہ جائے، من کی وادیاں لہلہا تی ہیں تو تن کو تسکین ملتی ہے، تن سے من اورمن سے تن کاسودا گھا ٹے کا سودا ہے، جس میں من کی ہا ر ہو ، من اس اور جا تا ہی نہیں، من فطرت ہے اور فطر ت فطر ت سے نہیں لڑتی‘‘
اس نے قریب ہو کر پھر اس کے شانو ں کو تھا م لیا
’’ یہ آئیڈیالوجی ہے، آئیڈیالو جی، بت پرستی۔۔‘‘
اس نے اک ادا سے خود کو اس سے الگ کیا ، اس کی نظر پھر آسمان پہ جا کے ٹھہر گئی
مشر ق سے گہر ے سر مئی با دل تیزی سے مغر ب کی اور بڑھ ر ہے تھے، ہو ا تھمی تھمی سی تھی، جیسے کسی سے بچھڑ گئی ہو ، آسما ن گہرا ہو تا جا رہا تھا ، جیسے کسی غم کو روئے بنا پی گیا ہو، اس کے باوجو د، وہ اتنا حسین ، اتنا شفا ف تھاکہ زمین خو د اس کی اور کھچی چلی جا رہی تھی، اس کے بس میں نہیں تھا کہ اٹھے ساری کششو ں کے بند ھن تو ڑے اور آسما ن سے جاملے، کبھی تو وہ ایک ہی تھے، آسما ں تک بھی تو زمین کی حد ت یہ پیغا م لے کر جا تی ہے تو ہی وہ سر مئی ہو کر مو ر بن، اپنی مو رنی کے لئے ہو اؤ ں سنگ ر قص کر نے لگتا ہے۔ مستِ رقص سب جل تھل ہو جاتا ہے۔دونو ں بھیگ کر ملتے ہیں، تو زمیں کی کو کھ پھو لو ں پھلو ں سے زندگی کو بہا ر ر نگ کر دیتی ہے، تب آسمان اس محبت کی سائبا نی و نگہبا نی کر نے لگتا ہے ۔
اسے اس چمکتی ز مین میں ایک کھمبی بڑی بے کسی و بے بسی سے کھڑی د کھائی د یتی ہے ۔ وہ حسر ت سے اسے د یکھتی ہے، اور آنکھو ں کی رم جھم کو اپنی انگلی سے گا لو ں پہ پھیلا دیتی ہے۔
ایک انگلی اس کے گا ل پہ آتی ہے
’’ حسینہ من گو یا میر ی بات سمجھ آگئی‘‘
وہ اس ہا تھ کو دھیرے سے پیچھے کر دیتی ہے
’’ یو سف کو زلیخا کی بات سمجھ آ جاتی تو اسے باد شاہت بہت قبل مل گئی ہو تی، صحرا ؤں نے اپنی من مانی کی ہو تی تو پیا سے نا تڑپتے‘‘
اس نے اس کی کمر پہ اپنے دونو ں ہا تھ رکھتے ہو ئے بے قراری وبے ضراری سے کہا
’’ حسینہ من یہ ظلم ہے‘‘
حسینہ من کڑاہت سے دونو ں ہا تھ ہٹا تے ہو ئے بو لی
’’ بڑے دریا دیر سے چڑھتے ہیں اور دور تک چلتے ہیں، گہر ے کنو ؤں سے پیا س بجھانے گہرائی تک جا نا پڑ تا ہے‘‘
حسینہ من کے روکھے سوکھے رویے سے جیسے و ہ چڑ گئی تھی۔اس نے دور کھڑے ہو کر دونوں بانہیں پھلائیں اور بہت حقارت سے بو لی
’’ حسینہ من دیکھو ؛ شیر شیر کے ساتھ جچتے ہیں ، با ز با زوں کے ساتھ۔۔۔‘‘
حسینہ من مسکرائی ’’ میں بھی تو ہمیشہ سے یہی کہہ ر ہی ہو ں‘‘
وہ اورپیچھے کو ہو گئی’’ حسینہ من مگر تم بھو ل گئی کچھ پھل صرف طو فانو ں میں مسما ر ہو نے، تبا ہ و برباد ہو نے کے لیے درختوں کا بو جھ بنتے ہیں، یو ں ان کا سارا مان ٹو ٹ جا تا ہے‘‘ وہ یہ کہہ کر واپسی کے ر ستے کو مڑ گئی اور جا تے ہو ئے اس پنجرے کادروازہ کھو ل گئی جس میں اس نے اپنے وصل سے سد ھائے جا نو ر پا ل ر کھے تھے۔
حسینہ من نے وہا ں سے سیدھے ہا تھ جنگل کی اور بھا گنا شروع کر دیا۔ کبھی کو ئی پیڑ اس کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیتا تو کبھی کو ئی جھاڑی اپنی گو د میں چھپا لیتی۔ جو ں جو ں و ہ آگے بڑھ رہی تھی تو ں تو ں جنگل گہرا ہو تا جا رہا تھا۔ تو ں تو ں تاریکی کے راز کھلتے جا رہے تھے۔ و ہ سدھائے جا نو ر جلد کہیں پیچھے ہی روشنی میں گم ہو گئے تھے۔ اب کو ئی آواز، کو ئی آہٹ اس کا پیچھا نہیں کر رہی تھی۔ مگر وہ آگے بڑھتی ہی چلی گئی کہ جنگل کا کو ئی کنا را ضرور ہو تا ہے اس کا بھی ہو گا۔ جو ں جو ں وہ آ گے بڑ ھ رہی تھی، تو ں تو ں چڑ ھا ئی بھی چڑھ رہی تھی، دور دور تک اونچے، سر سبز و شاداب پو دوں، درختو ں، پیروں سے ڈھکے پہا ڑ اپنے پو رے رعب و حسن کے ساتھ اسے اپنی اور آتا دیکھ رہے تھے۔
تھکن اس کے پو ر پو ر میں سما گئی تھی۔مگر سفر رواں دواں تھا،کو ئی کنا را، کو ئی سرا، کو ئی آثار حیات، مگر دور دور تک کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔اس نے تھکن سے چو رخو د کو خوف کے حوالے کر دیا اور چوٹی کی آخری او نچائی پہ بے ہو ش ہو کر گر پڑی۔
اسے دھندلا ہٹ میں وہ صدیو ں پرانی معصوم آنکھویں،مر مریں ہو نٹ آتے دکھائی دیے۔اس نے بڑھ کر اسے اپنی با نہو ں میں تھا م لیا۔اس کا جسم کانپ رہا تھا،اس نے اپنے کاندھو ں سے شال اتا ر کر اسے اوڑھا دی، حدت سے اس کی آنکھیں کھلیں تو برس پڑیں، اس نے اپنے ہو نٹوں سے اس کے گا ل آنکھو ں تک خشک کر دئیے
’’آگیا ہو ں ، لے چلو ، اگنی کے پھیرے لے لو ، یا تین بول پڑھوا لو، چا ہوتو اونچے بر جو ں کے نیچے جا کے انگلی بھر دو، تم فطرت ہو ‘‘
حسینہ من نے اس کے سینے پہ سر رکھ دیا۔اور اس میں تحلیل ہو گئی۔
اس کے بعد بس دور سے اک دھو اں دکھا ئی دیا اور بر سوں بعد کچھ زمینی رازداں وہا ں پہنچے تو اک آتش فشاں کا انکشاف ہو ا جو ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔
اب ہیر ے، زمر د و طر ح طر ح کی قیمتی جواہر اکھٹے کیے جا رہے تھے۔