سوکھی لکڑیاں ۔۔۔ رفیع حیدر انجم

سوکھی لکڑیاں

رفیع حیدر انجم

” لکڑیاں نہیں لو گے با بو؟“

ایک جانی پہچانی نحیف سی آواز میرے کانوں سے ٹکراتی ہے۔ میرے قدم ہے اختیار رُک جاتے ہیں جیسے اس آواز کا مجھے پہلے سے انتظار رہا ہو۔ میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو ایک دبلی پتلی لڑکی ، جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی میلی ساڑھی میں لپٹی ، اپنے تن کو ڈھکنے کی ناکام کوشش میں مبتلا نظر آتی ہے۔ اس کے بھورے بھورے بال گرد سے اٹے پڑے ہیں۔ دھوپ کی تمازت سے چہرے پر خون کی سرخی دوڑ گئی ہے۔ مجھے دیکھ کر جانے کیوں اس کی خوب صورت آنکھوں کے دیپ روشن ہو جاتے ہیں۔

” ایک دم سوکھی ہیں ۔ “ اس نے لکڑیوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، میری نگاہیں اس کے اشارے کا تعاقب کرنے لگتی ہیں ۔ سوکھی لکڑیاں.

“نہیں مایا ابھی تو پندرہ روز بھی نہیں ہوئے لکڑیاں خریدے.”۔ میرے انکار کا مایا پر وہی

اثر ہوا جو سوکھی لکڑیوں پر کلہاڑی کے وار کا ہوتا ہے ۔ مایا بھی سوکھی ہوئی لکڑی ہی تو ہے ۔ میرے ایک ہی وار سے وہ ٹوٹ کر کئی حصوں میں منتشر ہو جاتی ہے۔ اس کے سوکھے ہوئے پتوں جیسے بے جان ہونٹوں پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ اور احساسِ ندامت کے ایک سرد جھونکے سے اس کی خوبصورت آنکھوں کے دیپ بجھ جاتے ہیں۔

میں آگے بڑھ جاتا ہوں اور اس گندی بستی کی تنگ و تاریک جھونپڑیاں پیچھے چھوٹ جاتی ہیں۔ مگر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مایا میرے ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ یہ میرا وہم کمزوری جب بھی اس راہ سے گزرتا ہوں ، وہ میرے ساتھ ہو لیتی ہے۔ بید مجنوں کی طرح میرے وجود سے لپٹ لپٹ جاتی ہے۔ مجھ میں اتنی سکت نہیں

رہتی کہ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکوں ۔

مایا کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب سے سامنے والی اس دس منزلہ عمارت کی بنیاد ڈالی گئی تھی ۔ ایک جونیئر انجینئر کی حیثیت سے میں عمارت کی آخری منزل کا کام مکمل کر وار ہا تھا کہ ایک دن اچانک ایک دل خراش چیخ نے ساری عمارت کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ چیخ ایک مزدور بڑھیا کی تھی جو عمارت کی آخری منزل سے پھسل کر نیچے پتھروں کے ڈھیر پر آگری تھی اور وہ ہیبت ناک منظر میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ جب ایک جوان مزدور لڑکی گارے کا برتن پھینک کر اس بڑھیا کی لاش کو پاگلوں کی طرح جھنجھوڑ نے لگی تھی ۔ یہ وہی مایا تھی لیکن تب وہ آج کی مایا نہیں تھی ۔ ایک ہرے بھرے درخت کی مانند تھی ، جس میں زندگی کی تمام رعنائیاں موجود ہوتی ہیں۔ رگوں میں گرم خون دوڑتا ہے۔ ٹہنیاں بادِ صبا کے لطیف جھونکوں سے پچک پڑتی ہیں۔ شاخوں میں خوب صورت کلیاں کھلنے لگتی ہیں جن کی خوشبو سے آوارہ بھونرے منڈلانے لگتے ہیں۔ مگر اس طوفانی حادثے نے ہرے بھرے درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور پھر زمانے کی سردوگرم ہواؤں نے اسے آج سوکھی لکڑی میں تبدیل کر دیا ہے۔سوکھے پتے سوکھی ٹہنیاں اور سوکھے ہوئے پھول ……. مایا کا بوڑھا باپ بھی اس کے دوبارہ پنپنے میں مددگار ثابت نہ ہوسکا۔ اس نے تو اپنی زندگی سستی شراب کی بوتلوں کو سونپ رکھی تھی ۔ دن بھر رکشہ چلا چلا کر جتنے پیسے کما تا شام کو شراب کی بھٹی میں جھونک آتا۔ دھیرے دھیرے شراب نے اسے کھوکھلا کر دیا اور جب آدمی کا جسم کھوکھلا ہو جاتا ہے تب بیماریاں وہاں اپنا مسکن بنا لیتی ہیں۔ اب تو اس کا کا ندھا بیماریوں کے بوجھ سے اس قدر وزنی ہو گیا ہے کہ چار پائی سے اٹھ بھی نہیں سکتا۔ ایک کونے میں پڑا دن بھر کھانستا رہتا ہے۔ ڈاکٹروں نے کہہ دیا ہے کہ اچھی طرح علاج نہیں کروایا گیا تو ۔۔۔۔۔  مگر علاج کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے ۔ سرکاری اسپتال کی خیراتی دوائیں پی پی کر موت کی راہ تک رہا ہے۔

مایا اب سیٹھ بنواری لال کے ڈپو میں لکڑیاں تولنے کا کام کرتی ہے۔ دن بھر لکڑیاں تول تول کر گاہکوں کو دینے کے بعد شام کو اس کی ہتھیلی پر جتنے پیسے ہوتے ہیں، وہ ایک وقت کی روٹی کے لیے بھی نا کافی ہیں۔ مگر سیٹھ کو خوب معلوم ہے کہ غریبوں کو اتنی ہی روٹیوں کی ضرورت ہے جتنی اس کے ترازو میں پاسنگ۔

“پاپا۔۔۔۔۔ میری ٹافی ؟” خیالوں کا تسلسل یکا یک ٹوٹ جاتا ہے۔ میں اپنے گھر پہنچ چکا ہوں۔ ٹافی کا پیکٹ نکال کر بیٹی کے ننھے ہاتھوں میں پکڑا دیتا ہوں وہ خوش ہو کر اپنی ممی کو آواز دیتی ہوئی اندر دوڑ گئی ہے۔ ڈرائنگ روم میں آکر صوفے پر نیم دراز ہو جاتا ہوں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے بالکل خالی الذہن ہو کر رہ گیا ہوں ۔ تھوڑی ہی دیر میں سلمی چائے کا پیالہ لے کر آجاتی ہے۔ چائے کی گرم گرم چسکیوں کے ساتھ میں نے مایا کے خیال کو ذہن سے بہت دور جھٹک دیا ہے ۔ سلمی نے میری ٹائی کی گرہ ڈھیلی کر دی ہے اور اب میرے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی ہے۔ میں نے اس کی پیشانی کا ہلکا سا بوسہ لے لیا ہے مگر اس کی آنکھوں میں کوئی چمک پیدا نہیں ہوتی ہے۔ چہرے پر کوئی تاثر بھی نہیں ابھرتا ہے جیسے میرا بوسہ لینا ایک میکانیکی فعل تھا جہاں کسی بھی طرح کے جذبے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ میں اپنے بالوں میں سلمی کی انگلیوں کا لمس محسوس کرتا رہتا ہوں اور آہستہ آہستہ میری آنکھیں دن بھر کی تھکن کو پلکوں میں سمیٹ لیتی ہیں ۔ صبح اٹھ کر حسب معمول دفتر جانے کی تیاریوں میں مشغول ہو جاتا ہوں ۔ تبھی کمرے میں سلمی کی آواز آتی ہے۔

” لکڑیاں ختم ہوگئی ہیں ۔“

“کیا۔۔۔۔۔۔؟” ٹائی کی گرہ درست کرتے ہوئے میں اس طرح چونک پڑتا ہوں

جیسے جسم پر پانی کے گرم چھینٹے پڑ گئے ہوں ۔ مگر پھر فوراہی خود کو سنبھال لیتا ہوں ۔

” اوہ اچھا واپسی میں لیتا آؤں گا۔ “۔۔۔ سلمی مجھے عجیب نظروں سے دیکھتی

رہ جاتی ہے جیسے میرا چونک پڑنا غیر فطری حرکت تھی۔

” پچھلی دفعہ بالکل گیلی لکڑیاں اٹھالائے تھے آپ ۔ دھوئیں سے سارا کچن بھر جاتا

ہے۔ ” سلمیٰ کچن کی طرف جاتی ہوئی کہتی ہے۔

دفتر سے لوٹ کر گھر آتے ہوئے میں یہ سوچ کر بہت خوش ہوتا ہوں کہ آج مایا کو مایوسی نہیں ہوگی ۔ میں چاہتا ہوں ، مایا خوش رہے۔ اس کی خزاں رسیدہ زندگی میں پھر سے بہار اجائے۔

“لکڑیاں دوں بابو، ” مجھے دیکھ کر مایا کے سوکھے پتوں جیسے ہونٹوں پر مسکراہٹ

تھر کنے لگتی ہے۔“

” مگر دیکھو، گیلی نہ ہوں ۔ تمہاری مالکن نے شکایت کی ہے کہ پچھلی دفعہ کی ساری

لکڑیاں گیلی تھیں ۔“

” مالکن نے ؟ وہ حیرت کی تصویر بن جاتی ہے اور اس طرح ساکت ہو

جاتی ہے جیسے کسی نے اسے دس منزلہ عمارت سے نیچے پھینک دیا ہو۔

” گیلی لکڑیاں  ؟ نہیں تو بابو جی یہاں تو صرف سوکھی لکڑیاں ہی ہیں ۔۔۔۔۔ صرف سوکھی لکڑیاں ۔ ” لڑکھڑاتی ہوئی اس کی آواز آتی ہے اور مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سلگتی ہوئی گیلی لکڑیوں کے بے کراں دھوئیں کے درمیان اس کا وجود آہستہ آہستہ گم ہوتا جارہا ہے۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.