غزل ۔۔۔ رفیع رضا
غزل
( رفیع رضا )
حالانکہ نہیں ھے اُسے درکار، محبت
کرتا چلا جاتا ھُوں مَیں بیکار ، محبت
مرنے
نہیں دیتی ھے کہ یہ کھیل نہ ھو ختم
کاری نہیں کرتی ھے کوئی وار، محبّت
ھر روز سزا پاتا ھے اک
عاشقِ صادق
ھر
روز لگا لیتی ھے دربار، محبت
مجبوری کا ھرگز یہ علاقہ ھی
نہیں ھے
کرتا
نہیں کوئی کبھی ناچار محبّت
مٹّی کا یہ ٹِیلہ کبھی
رنگوں بَھرا گھر تھا
یہ
دیکھ لو، ایسے ھُوئی مِسمار محبّت
جھوٹی ھے محبت اگر اک بار
کروں مَیں
کرنی
ھے مُجھے تو کئی سو بار محبت
ھم لوگ کہاں جا کے کریں
پیار کی باتیں
اِس
پار محبّت ھے نہ اُس پار محبّت
اُس پھول کو مُرجھانے میں
ھرگز نہ مدد دے
منّت
تری کرتا ھُوں، مجھے مار ،محبت !
Facebook Comments Box