غزل ۔۔۔ رفیع رضا
غزل
رفیع رضا
وُسعتِ شرم کو اندوہِ ندامت لکھا
مَیں نے یک چشم کو یک راہِ بصارت لکھا
مَیں نے لکھا کہ صفِ دل میری زریون ہُوئی
یعنی اس واسطے یہ اسمِ ندامت لکھا
کیا ہنومان ابھی تک وہیں لاہور میں ہے؟
ظفر اقبال نے جس حُسن کو قامت لکھا
یہ سفر دُم کو ہلانے کا نہیں ہے مخدوم
جُنبشِ دُم کو ہی کیا تُو نے مُسافت لکھا
تُرک بھائی سے لڑی کشمکشِ بخیہ گری
بے اجازت کو سلیقے سے اجازت لکھا
لکھنے والوں نے قلم ہاتھ میں اُلٹے پکڑے
اور ہونے کو نہ ہونے کی وضاحت لکھا
اشک اوروں نے لکھے مَیں نے غبارے چھوڑے
باعثِ یار علی حرفِ شرارت لکھا
کوئی بہتان لگانا بھی کبھی چھوڑتا ہے؟
گُل و گُلناز کو مائل بہ رقابت لکھا
حدبستر پہ سرکتی ہُوئی پرواز لکھی
اور بے بال چُڑیلوں کو کہاوت لکھا
چال دُلکی کی چلی جھنگ کی گھوڑی ہر سمت
تُرک و بہزاد و علی سب کو مہاوت لکھا
ناقدِ سخت نے تضمین جو لکھی ہے حضور
پانچ منٹوں میں یہاں حرفِ بشارت لکھا
اتنے دعووں سے گُزر کر یہ خیال آتا ہے
اپنے یاروں کے لئے لفظ “محبت” لکھا
***