زمیں کے ساتھ مرا دل جھگڑتا رہتا ہے ۔۔۔ رفیع رضا
ز
زمیں کے ساتھ مرا دل جھگڑتا رہتا ہے
رفیع رضا
زمیں کے ساتھ مرا دل جھگڑتا رہتا ہے
اور آسمان کا نقشہ بگڑتا رہتا ہے
یہ روشنی اُسی مجذوب کے لئے تو نہیں
جو آ تی جاتی شُعاعیں پکڑتا رہتا ہے
لگا ہوا ہے بدن میں جو سانس کا پودا
یہ بار بار یہاں سے اُکھڑتا رہتا ہے
سفر میں دھیان کی جانب سے ہے کُچھ آسانی
بدن کا رستہ تو پاؤں پکڑتا رہتا ہے
چمک دمک یہیں رہتی ہے میرے ہونے کی
اُدھر خلا پہ مرا سایہ پڑتا رہتا ہے
وُہ قد سُخن کے شجر کا نکال بیٹھا ہوں
کہ بُور اور درختوں پہ جھڑتا رہتا ہے
مرے مزاج کو بخیہ گری نہیں آتی
تعلقات کا دھاگا اُدھڑتا رہتا ہے
کھنڈر کو آنکھ کی ویرانی میں بکھرنا تھا
وُہ کم پڑی ہے سو دل میں اُجڑتا رہتا ہے
تھکا دیا مرے ہمزاد نے رضا مُجھ کو
میں مِلتا رہتا ہوں اور وُہ بچھڑتا رہتا ہے