ہم صورت گر کچھ خوابوں کے ۔۔۔۔ راشد جاوید احمد
۔
ہم صورت گر کچھ خوابوں کے ۔۔۔۔۔
( راشد جاوید احمد )
انسان______ برخلاف حیوان۔۔۔۔۔۔ جمالیاتی قوانین کو مد نظر رکھ کر تخلیق کرتا ہے یا ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ حیوانات کا عمل جبلی ہوتا ہے اور انہیں یہ جبلی خصوصیات فطرت کی طرف سے عطا ہوتی ہے لیکن انسان کا تخلیقی عمل محض جبلی دائرے میں محدود نہیں۔ انسان مختلف مادوں کو جمالیاتی قوانین جو خارجی معروضی ہوتے ہیں کہ مطابق تخلیقی روپ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ جمالیاتی تصورات سماجی زندگی اوراس کی ساخت، تاریخی حالات اور سماجی جدوجہد کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ محض مجرد تصورات نہیں ہوتے ۔۔
تاریخ میں فعال عوامل اقتصادی قوتیں ہیں اورادیب محض اپنے طبقے اور زمانے کی عکاسی کرتا ہے اور انہیں عوامل کے پس منظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔ طریقہ ہائے پیداوار تعلقاتِ پیداوار کو تبدیل کرتے ہیں۔ معاشی نظام کے بدل جانے کی بنا پر زندگی کے تمام دوسرے نظامات مثلاًتمدنی، معاشرتی، سیاسی، ادبی، مذہبی کو تبدیل کرکے اپنے موافق بنالیتے ہیں۔
ہر دور کے معاشی نظام ،اس کے تصورات تخیلات اور نظریات کی صورت گری کرتے ہیں۔ نئی اخلاقی قدریں، نئے سیاسی قوانین، اس معاشی نظام کو صحیح ثابت کرنے کے لیے وضع کیے جاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ معاشی نظام ہی تاریخ کی تشکیل کرتاہے فنکار کوئی نہ کوئی خیال اور نقطہ نظر رکھتا ہے جس کو وہ اپنی تخلیق میں پیش کرتا ہے مگر ادب ابلاغ ہے تبلیغ نہیں۔ یہ ابلاغ اخباری پروپیگنڈا نہیں ہوتا۔ فنکاری اپنے عہد اور اپنے اجتماعی نظام کا عکس بھی ہوتی ے اور ان سے ماورا بھی۔ فنکاری بیک وقت ماضی کی یادگار، حال کا آئینہ اور مستقبل کا اشاریہ ہوتی ہے۔ ادیب یا فنکار اجتماعی شعور کی پیداوار ہوتا ہے اس کے ساتھ افراد کے انفرادی کردار کی اہمیت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے
ادب اور شاعری، ماحول اور سماج کی پیداواری قوتوں میں تبدیلی کے ساتھ نئی انسانی رشتوں اور نئی قدروں کی نشاندہی کرتے ہیں اور نئے سماجی وژن سے ذہنی غذا حاصل کرتے ہیں اس وژن یا نئے فلسفہ حیات (جو پیچھے مڑ کر دیکھنے والا نہ ہو) کے بغیر تخلیقی ادب میں عظمت کا عنصر پیدا نہیں ہوتا۔ تخلیق اس کے بغیر خوبصورت تو ہوسکتی ہے اس میں انسانی نفسیات کے اندر جھانکنے کی کوشش ہوسکتی ہے کرب یا روحانی انبساط کا اظہار ہوسکتی ہے لیکن عظیم ہرگز نہیں ہوسکتی
صرف وہی حط، وہی جمالیاتی تسکین اور وہی سیکھنا اور سمجھنا انسانوں کے لئے اچھا اور صحت مند ہے جو ان میں پاکیزگی اور طہارت ، زندگی کی امنگ اور حوصلہ، جہد حیات میں صلابت اور دانشمندی اور نوع انسانی سے ہمدردی پیدا کرنے میں معاون اور مددگار ہو۔ اور اس طرح سے انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی حیات ان کے ظاہر باطن دونوں کو زیادہ حسین زیادہ لطیف اور زیادہ بھر پور بنائے۔ ایسا لطف اور ایسی جمالیاتی تسکین جس سے ہمارے ذہن میں الجھنیں بڑھ جایئں جو ہمیں اپنے عہد اور سماج کی سب سے اہم حقیقتوں کے انکشاف اور شعور سے دور لے جائے، جس سے ہماری طبیعتوں میں کثافت پیدا ہو جائے، جو ہماری روح کو مکدر اور بے حس کر کے ہمیں خود پرستی، جہالت، بزدلی یا مایوسی کا شکار بنا دے، جو ہماری انسانیت ہم سے چھین کر ہمیں نوع انسانی سے نفرت کرنا سکھائے اور جو ہمارے دلوں میں سوز حرارت پیدا کرنے کی بجائے انہیں پتھر کا بنا دے، قبول نہیں۔ اسے مسترد کر دینا چاہیئ۔ فن کار اپنی تخلیقی قوتوں کو کام میں لا کر جب بہترین ادب تخلیق کرتا ہے تو اس سے ہم میں کیف و انبساط پیدا ہوتا ہے اور روحانی آسودگی ملتی ہے لیکن ہم کیف و بد مستی میں فرق کرتے ہیں۔ لذت اندوزی اسی حد تک ٹھیک ہے جب تک اس سے آسودگی اور سرور حاصل ہو۔ جب وہ سمیـت میں بدل کر ہمارے بدن کو چور کر دے، ہمارے ذہن کو پراگندہ اور ہماری روح کو مردہ تو پھر وہاں پر ہمیں حد کھینچنے کی ضرورت ہے۔
صدیوں سے بالجبر لوٹے جانے والے اور محروم انسانوں کے نغموں اور شعروں میں درد اور دکھ کی المناک صدا ملی ہوئی ہے۔ ان رنج بھری آہوں کے پیچھے دراصل زندگی کے تقاضے ہیں۔ نا جائز اور ناروا بندشوں کا شکوہ ہوتا ہے۔ ظلم کی زنجیروں کو توڑ دینے کی خواہش ہوتی ہے اور نوع انسان کی اکثریت آج بھی اس سے جڑی ہوئی ہے۔
ایک کامیاب فنکار حقائق و واقعات، مختلف انسانی رشتوں کے عمل اور ردعمل کی کیفیتوں، سماجی زندگی سے پیدا ہونے والے بہترین تصورات اور نظریوں مشاہدہ کرکے اور انہیں سمجھ کے، اپنے دل و دماغ میں جذب کرتا ہے۔ یہ سچائیاں اس کے جذبات کا اسی قدر حصہ بن جاتی ہیں۔ جتنا کے اس کے ذہن کا۔ پھر اپنے جوش، جذبے، تخیل، بصیرت اپنی مہارت کو کام میں لا کر وہ اپنے فن پارے کی تخلیق کرتا ہے، اسی طرح ایک نئی۔ خوشنما اور نشاط انگیز شے وجود میں آتی ہے۔ ایک الہامی نغمہ جس سے دل کو سرور ہوتا ہے، دماغ میں روشنی آتی ہے جو ہماری روح میں لطف پیدا کرکے اس میں نئی بلندیوں کی طرف پرواز کرنے کا ہوصلہ اور رحجان پیدا کرتا ہے۔، سچائیوں کی زمین میں تجربے، مشاہدات اور بصیرت کی آبپاشی، فنی مہارت کی ٹھنڈی ہواؤں اور گہرے جذبے کی گرم ، تیزاور نورانی شعاعوں کے مجموعی عمل سے تخلیق کا دانہ ایک مہکتے ہوئے رنگین اور لطیف پھول کی طرح ہمارےسامنے برآمد ہوتا ہے، ان تمام عناصر پر مشتمل لیکن ان سے مختلف تخیل ، تصور اور تجربے کا مقطر جوہرِ اول، کیف آور، اور حیات افزا فلک سیر۔
ہمارے بہت سے ادیبوں نے سچائی اور انسانیت سے قطع تعلق کر رکھا ہے لیکن اسکے بر عکس جو انسان اور سچائی سے جڑے ہیں، تعداد میں کم ، کمزور اور کم مایہ ہونے کے باوجود اگر پڑھے جاتے ہیں اور سراہے جاتے ہیں تو اسکا سبب محض یہی ہے کہ انسانیت اور سچائی پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ ہماری یہ گرفت جتنی مضبوط ہو گی اسی تناسب سے ہماری طاقت، تعداد، مقبولیت اور ہمارے فن کی تاثیر اور خوبصورتی میں اضافہ ہو گا۔