ہوا سے مکالمہ (صفیہ حیات) — راشد جاوید احمد :Book Review
(ہوا سے مکالمہ (صفیہ حیات
(اظہار خیال: (راشد جاوید احمد
محترمہ صفیہ حیات کی نظموں کا مجموعہ ” ہوا سے مکالمہ ” میرے سامنے رکھا ہے جو انہوں نے کمال مہربانی سے مجھے بجھوایا۔ 142 صفحات کی اس کتاب میں 67 نظمیں ہیں۔خیال تو یہی تھا کہ ایک دو دن اس مجموعے کی ورق گردانی میں گزریں گے لیکن پڑھنے بیٹھا تو پہلی ہی نظم ” ضرورتوں کی پھٹی جیبیں ” نے ایسے حصار میں لیا کہ ساری نظمیں پڑھ ڈالیں، ایک ہی نشست میں۔ یہ نظمیں ہیں یا ایک جلتا جلاتا الاو۔
شعروادب کے حوالےسے دیکھیں توبہت سی خواتین ہمیں ادب اور تاریخ کے حاشیے پر نظر آتی ہیں۔ بر صغیر کے روایتی تہذیبی پس منظر کی وجہ سے اردو شاعری نے جس نہج پر نشو و نما پائی اسمیں عورت کے لئے اپنے جذبات اور خیالات کے تخلیقی اظہار کے مواقع بہت کم تھے۔ ہمارے ہاں خواتین کی ایک بڑی تعداد ایسے ماحول میں پرورش پاتی ہے جہاں ان کے لئے تابع فرمان ہونے کے علاوہ کسی دوسرے کردار کا تصور بھی ممکن نہیں۔ایسی خواتین بھی ہیں جو معاشی طور پر آزاد،خود مختار اور خود شناس ہونے کے باوجود سماجی عافیت کے پیش نظر اسی تابع فرمان کردار کو نبھاتی چلی جاتی ہیں۔ بعض خواتین مرد کی بالا دستی ناپسند کرنے کے باوجود مفاہمت کی راہ اپنانے پر مجبور رہتی ہیں۔لیکن کچھ ایسی خواتین بھی ہیں جو اس بالا دستی کے خلاف رد عمل کا اظہار کرتی ہیں۔کچھ جارحانہ انداز میں اور کچھ خاموش احتجاج کی صورت میں۔ ” ہوا سے مکالمہ” کی نظموں میں عورت کے بارے غیر منصفانہ رویوں کے خلاف ایک پر زور احتجاج نظر آتا ہے۔ جس معاشرے میں رشتوں میں بھی سودے بازی ہو وہاں اسی قسم کی تخلیقی مزاحمت پڑھنے کو ملتی ہے اور اب یہ ادب کا ایک گراں قدر حصہ ہے۔
صفیہ حیات کا طرز فکر بھی جدا ہے اور اسلوب بھی۔ان نظموں میں ایک باشعور عورت کا تخلیقی اظہار ہے۔ایک لبرل ذہن رکھنے والی خاتون کی ذہنی اور شخصی الجھنوں کی بھرپور نمائندگی ہے اور ان میں گہرا سماجی شعورواضح ہے۔ ان نظموں میں نسائی جذبوں کی جھلک تو ہے ہی لیکن عورت پر انا پرستی کے الزام اور معاشرے کے متعین کردہ فرسودہ معیارات کے خلاف رد عمل بھی ہے۔ ہم جس حبس زدہ معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں صرف اسی رویے سے مردہ اور مکروہ روایات کو توڑا جا سکتا ہے جس نے عورت کے لئے اس سماج کو مکروہ اور پرتشدد بنا رکھا ہے۔ صفیہ حیات کا اصل کارنامہ اپنی سچایئوں اور صلاحیتوں کی دریافت اور ان کا اعلان ہے۔ ان نظموں سے یہ حوصلہ ملتا ہے کہ عورت ، مرد کی حاکمیت اور رسم و رواج کی قید سے آزاد ہو کر خود کو اس آیئنے میں دیکھ رہی جو اس کا اور اس سے متعلق معاشرے کا سچا اور اصل روپ سامنے لا سکے۔ ان نظموں کا مطالعہ کرتے جایئے اور معاشرے کی متعین کردہ شناخت سے متعلق سوالوں کی ایک کثیر تعداد دیکھتے جایئے۔ –
کس نظم کا حوالہ دوں اور کس کا نہ دوں۔ ” مجھے پرندہ رہنے دو” ، ” درباروں میں پڑی حمل زدہ چادریں”،” عزت کے نام پر ابارشن “خدا کہاں ہے ؟”اذن مانگتی عورت” ان نظموں کی ایک ایک سطر قابل ستائش تو ہے ہی، نظموں کے عنوان بھی چونکا دینے والے ہیں۔ ” گونگے بہرے دیوتا” اور ” الزاموں کی پوٹلی سے دوہری ہوتی کمر” کیا جاندار نظمیں ہیں۔
ہمارے حالات بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں آنے والی تبدیلیوں نے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا۔ نہ ہم نے اپنے آس پاس سے کوئی سبق سیکھا ہے۔ ان حالات میں ایک باشعور ادیب کا فرض بنتا ہے کہ وہ معاشرے کے افراد کو درست سمت کی نشاندہی کرے اور صفیہ حیات نے یہ کام بہت خوبصورت طریقے سی کیا ہے۔ ان کی بہت سی نظمیں نوجوان طلبہ و طالبات کے لئے تدریسی نصاب میں شامل کرنا چاہیئں۔
صفیہ کے ہاں عورت کا ایک کائناتی وجود سامنے آتا ہے جو آگہی اور درد کے مماثل ہے ، جو ہستی کے مماثل ہے۔ عورت کا یہ عالم گیر تصور انہیں خواتین شعرا میں ممتاز اور منفرد بنا دیتا ہے۔صفیہ کی ڈکشن ، اسلوب اور موضوعات ان کی تخلیقی ذات اور واردات سے پھوٹتے ہیں ۔ جو پختہ ذاتی شعور کا ثبوت ہے، ہمہ جہت اور مکمل ہے کہ اسے کسی خارجی نعرے کے سہارے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ان کی تمام شاعری میں جذبے ، احساس اور معنویت کی فراوانی ہے۔ صفیہ حیات کے ہاں عورت کے ہر روپ کی واردات اور شدتِ احساس زندہ ہے ۔ ان کی فکرسے جذبہ پھوٹتا ہے اور جذبے سے فکر و فلسفہ۔ اور یہی امر شاید ان کے اندر نئی ہیئتوں کی تخلیق کا باعث بنا ہے۔
ان کے ہاں بعض بنیادی فلسفیانہ موضوعات اور سوالات اور پھر ان کے فکری جوابات ایک ساتھ ذاتی واردات کی شکل میں سامنے آتے ہیں جن سے حیات و موت ، جبر و قدر ، انسان اور زندگی کے بارے میں بالکل نیا ، جدا اور موثر بلکہ زندہ فکری آہنگ ظہور پذیر ہوتا ہے ۔ ان نظموں کے مضامین میں تمام معنوی صورتیں بالکل فطری ، غیر محسوس اور خارجی مطالعے کے اثرات سے پاک باطنی واردات کے طور پر شامل ہیں ۔ صفیہ حیات کی شعریت اور فکر و معنویت دونوں انتہائی طاقت ور ہیں اوراردو ادب جس نئی شعری تہذیب میں داخل ہو رہاہے، “ہوا سے مکالمہ” اس میں ایک توانا اضافہ ہے۔
“ہوا سے مکالمہ” واقعی اس مجموعے کی نمائندہ نظم ہے۔ آپ بھی پڑھئے۔
میں موت سے طلاق لے کر
زندگی سے بیاہ رچاتے
اپنی ہتھیلی پہ
اس کا نام لکھوں گی
جس کے ساتھ بھاگ کر مجھے شادی کرنا تھی
مجھے کبھی بھی
پسند نہیں رہا
حوروں کی ملکہ بننا
اور وہ بھی اس کی
جو دنیا میں
مجھے خوش کرنا نہیں جانتا
میں نے کیا کرنی ایسی جنت
جس کے لالچ میں
شادی کے نام پہ نا جائز بچے جنیں جایئں
چادر اور چاردیواری میں
رشتے درندے بن جایئں
محرم کی اولاد
کوڑے میں پھینکنی پڑے
میں ہر بار
ممنوعہ پھل کھاوں گی
مجھے وہاں نہیں رہنا
جہاں ریشمی اطلس پہنے عورتیں
میرے محبوب کو جنسی دعوت دیں
اور میں
نگینے جڑے تخت پر بیٹھی انتظار کروں
Read more from Safia Hayat
Read more from Rashid Javed Ahmed
Read more Book Reviews