ڈیرہ غازی خاں کی میرا بائی ۔۔۔ راشد جاوید احمد
ڈیرہ غازی خان کی میرا بائی ۔۔۔۔ صابرہ شاہین
مرکزہ
(ڈاکٹر صابرہ شاہین کی نظموں کا مجموعہ)
تجزیہ :: راشد جاوید احمد
میرے ہاتھ کی
نازک پوریں
کانپ اٹھی تھیں
جس دم میں نے
کاغذ کے اک
صاف ورق پر
دھیرے دھیرے
حق لکھا تھا
سچ لکھا تھا
اب وہ میرے ہاتھ ہیں باقی
اور نہ پوریں
اور زباں بھی کٹ گئی آخر
لیکن
اب تک
میں زندہ ہوں
بس تنہا ہوں
یہ ہیں ڈاکٹر صابرہ شاھین، المعروف شاہین ڈیروی جن کی نظموں کی کتاب ” مرکزہ ” کی نظموں کے عنوان چبھتے ہوئے سنجیدہ پیچیدہ لیکن دلکش ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کی جڑت پاکستان کی ایک سنگلاخ زمین سے ہے جہاں پر بچیوں کا اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانا بڑا جرم تصور ہوتا رہا ہے اور عورت کی تعلیم کواب بھی کسی حد تک معیوب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن صابرہ شاھین نے جس طرح اس سخت زمین میں اپنی شاعری کی آبیاری کی اور پھر اسے ایک خوبصورت باغ بنایا، وہ یقینا ایک الگ اور طویل داستان ہو گی۔ محترم خاتون ایک طویل عرصے تک خواتین کے ایک ڈگری کالج کی پرنسپل رہیں اور تا دم تحریر بھی کسی ایسی ہی درسگاہ سے بحیثیت استاد وابستہ ہیں۔
محترمہ کشور ناہید نے انہیں ” میرا بائی ” کہا ہے اور میں ان سے متفق ہوں کہ میرا بائی کے بغیر بھگتی تحریک نامکمل ہے
ڈاکٹر صاحبہ کی شاعری میں الفاظ کے اندر مصوری کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ شاید ان کو کبھی مصوری سے رغبت رہی ہو لیکن خیال کو رنگوں کی بجائے الفاظ میں مصور کرنا زیادہ گہرائی کا کام ہے اور وہ اس میں کامیاب نظر آئی ہیں۔
“مرکزہ ” کوجہاں ہم زرد تنہائی کی شاعری کہہ سکتے ہیں وہیں اس میں مزاحمت اور بغاوت بھی نظر آتی ہے۔ خواب ہیں،خوابوں کو حقیقت میں ڈھالنے کا عزم ہے۔ معتوب اور مصلوب عشق کا تذکرہ ہے۔ ہجر ہے برہا ہے۔ تخلیقی نگاہوں سے دکھوں اور محرومیوں کا مشاہدہ ہےاور پھر قلم کی بے باکی ہے۔ اور تنہائی کی کسک ہے۔
سچ سخن کی ہے سزا یہ دیکھ لے
منفرد سوچوں کا پھل تنہائی ہے
صابرہ شاھین نے اپنے ارد گرد کی انفرادی اور اجتماعی جامد، خشک، بور، بے کیف اور حسن و لطف سے عاری زندگی سے اپنی شاعری کو کشید کیا ہے۔ اس تاریک دور میں روشنی کی تمنا کرنے والوں کے لئے اسے قلمبند کرنا کتنا دشوار اور تکلیف دہ ہو سکتا ہے ۔ یہ نظمیں پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے۔ وہ اس معاشرتی گھٹن سے متاثر ہیں لیکن انہوں نے اسی گھٹن میں سانس لیتے ہوئے خوبصورت نظمیں لکھ کر اپنی سانس ہموار کی ہے۔ وہ کون سا انسان ہے جسے اپنے لیے اور اپنی آیندہ نسلوں کے لیے خوبصورتی اور خوشیاں درکار نہیں ؟ یہی سوچ کر صابرہ شاہین نے ایک مسخ شدہ انسان کا چولا اتار کر اپنے طبقے کے لیے مزاحمتی شاعری رقم کی ہے۔
ادھر اس موڑ پر جاناں
جفا کی تنگ گلیوں میں
نگاہ طنز کی
اندھی صلیبوں پر
کئی گدرائے جذبوں کو
لٹکنا ہے
تڑپنا ہے
مگر پھر بھی نہیں مرنا۔
ایک اور نظم دیکھئے۔ کس طرح باہر کی مصنوعی چکا چوند کے باوجود اندر کا اکیلا پن، کیا روپ اختیار کر لیتا ہے
بادل سنگت کو آئے گا
دھرتی پر سبزہ جھومے گا
سورج کی کرنوں سے اک دن
پھولوں پر شبنم اترے گی
میں اور تم، کب تنہا ہوں گے
لیکن وہ لمحہ آئے گا
جانے کب تک
” بھلا کس نے کہا تھا ” یہ ایک ایسی نظم ہے جس میں خود کلامی بھی ہے اور طنزا سرزنش بھی۔
تمہیں کس نے کہا تھا تم
ہوا سے رابطے رکھنا
ہوا جب سرسراتی ہے
چراغوں کو بجھاتی ہے
ہوا جب سرسراتی ہے
تو تھل کی ریت پر لکھے
سبھی وعدے مٹاتی ہے
نظموں کے اس مجموعے میں ،عورت کی آزادی، پردہ، چادر، اس کے حقوق، ملازمت کرنے اور باہر نکلنے کے اختیار، سیاست میں اسکا عمل دخل، اس کے جسم اور حسن، چلنے پھرنے، لکھنے پڑھنے، غرض ہر انسانی ضرورت اور جذبے کے اظہار پر پابندی کی کوشش پر لوگوں کا حقارت آمیز رویہ، جیسے موضوعات نظموں کے اندرپوشیدہ ہیں۔
اپنے پیش لفظ میں محترمہ صابرہ شاھین نے دو نظمیں شامل کی ہیں جو بقول انکے کتاب کی اشاعت کے بعد تخلیق ہویئں۔ دونوں نظمیں نسبتا طویل ہیں اسلیے انہیں نقل کرنے سے قاصر ہوں لیکن دونوں ہی نظمیں بڑی کڑوی اور تلخ زبان میں ہیں اور بجا طور پر ہیں کہ کڑواہٹ کو شیرینی میں ڈبو کر پیش کیے جانے کے بعد بھی منہ کا مزا کڑوا کسیلا ہی رہتا ہے۔
اس مجموعے کی تمام تر نظمیں، شاعر کے سماج کے ارد گرد ہی گھومتی نظر آتی ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک ہیں لیکن
” ابھی کچھ دیر باقی ہے”۔
۔” رت آئے رت جائے ” ۔۔
۔ ” کہیں تو زندگی ہوگی ” ۔۔۔۔
” اے اکیلی رات ” ۔۔۔
” دل نہیں کرتا “
” مغویہ کے قلم سے “
” پستانوں سے زہر اگلتی عورت” ۔۔۔۔۔ بہت ہی قابل داد ہیں۔
ایک اور نظم کے چند اشعار دیکھئے
سو اب بہتر ہے میں اپنی
صلیبیں اپنے کاندھے پر
اٹھاوں اور پھر
اس وقت کے ہر دم رواں
دھارے سے بھڑ جاوں۔ ( دل نہیں کرتا )
تاریخ کے مختلف ادوار میں ادیبوں کی ایک بڑی تعداد نے فکری سطح پہ اُن بیانیوں کو رد کیا جو سیاسی، سماجی سطح پہ حقیقت بنا کے پیش کیے گئے یا ایسے بیانیے جو مقبول عام بیانیے تھے۔ ادیبوں نے اُن تمام فکروں، نظریات اور نظاموں کے خلاف مزاحمت پیش کی جسے خفیہ طاقتوں نے پس منظر میں رہتے ہوئے قبول عام بنایا۔ محترمہ صابرہ شاہین اپنی نظموں کے ذریعے ظلم و جبر کے اندھیروں کے خلاف سچائی اور حق گوئی کے چراغ روشن کئے ہیں اور اپنی شاعری میں ایک منظم کائنات تخلیق کی ہے تاکہ وہ بے ربط اور بے قاعدہ دنیا میں مداخلت کر سکیں۔ یہی مداخلت انہیں ایک مزاحمتی شاعر بھی بناتی ہے۔ نظموں کے اس مجموعے میں ہمیں کہیں کہیں یہ مزاحمت بھی نظر آتی ہے۔ ۔ ہر سچا شاعر اور ادیب مظلوم کیساتھ کھڑاہوتا ہے۔ان نظموں میں حیات انسانی کے سیاسی، سماجی، رومانی اور ثقافتی حالات کی جھلکیاں ہیں جو ایک مجموعی نظریہ حیات تشکیل کرتی نظر آتی ہیں۔
اپنے منفرد اسلوب اور ڈکشن کے اعتبار سے ” مرکزہ ” کا شمار اہم شعری مجموعوں میں ہوگا۔