موت کی کتاب۔۔خالد جاوید۔۔تجزیہ۔۔راشد جاوید احمد
ناول……… موت کی کتاب ۔۔ مصنف۔۔ خالد جاوید
تبصرہ……. راشد جاوید احمد
یہ کتاب جسے مصنف نے ناول کہا ہے، پڑھنے کے بعد ذہن میں سب سے پہلا سوال یہی آتا ہے کہ یہ کتاب کن لوگوں کے مطالعے کے لیے لکھی گئی ہے۔ اس کا مطالعہ ایک عام قاری کے محسوسات کے اندر ایک جنگ جیسی صورت حال پیدا کرتا ہے۔ ادب اور افسانے کے طالب علم کی حیثیت سے مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بہت بڑا ذخیرہ الفاظ ضائع کر دیا گیا ہے۔
ناول انیس ابواب پر مشتمل ہے مختصر کہانی یوں ہے کہ ناول اپنے مرکزی کردار کی ذاتی واردات کے بیان پر مشتمل ہے، س کی ماں میراثن ہے، باپ زمیندارخاندان کا شہوت پرست، وڈیرہ ٹائپ بندہ ہے جسے شادی کے بعد گھر سے الگ رہنا پڑ رہا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس کا بیٹا اس کی بیوی کے ایک مفرور فوجی سے ناجائز تعلقات کا نتیجہ ہے۔ اسی لیے بیٹے کے ساتھ اس کا رویہ انتہائی ظالمانہ ہے۔ مرکزی کردار کو سب سے پہلے گاوں کے لوگوں کے سامنے تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنی عمر سے بڑی ایک لڑکی کو اشاروں سے جنسی دعوت دے رہا تھا ۔ باپ اور بیٹے کی نفرت بیٹے کی پیدائش ہی سے معرض وجود میں آئی اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ہی ایک دوسرے کو ختم کرنے کی خواہش پالتے رہے۔ کسی جھگڑے کی وجہ سے ماں بھی کہیں بھاگ گئی۔ جب ناول کے ہیرو کی بیماریاں (بے خوابی، وحشت، جنون، جنسیت، مرگی، آتشک اور جذام اور دیوانگی ۔ ) اور بد فعلیاں بہت بڑھیں تو دوا دارو اور گنڈھے تعویزوں کے بعد حل کے طور پر شادی کر دی گئی، جب کوئی چیز نہیں بدلی تو پاگل خانے پہنچا دیا گیا جہاں بجلی کے جھٹکوں سے علاج ہوا۔ یہیں یہ بھی انکشاف ہوا کہ خرابی تب کی ہےجب اسے ماں کی کوکھ میں آٹھواں مہینہ تھا اور اس کے باپ نے جبراً جنسی آسودگی حاصل کی تھی۔
مرکزی کردار خود کشی کا ذکر بہت کرتا ہے لیکن شروع سے آخر تک خود کشی نہیں ہوتی، وہ باپ کو قتل کرنے کی بات بچپن ہی سے شروع کرتا ہے اور اسے ایک بار قتل بھی کرتا ہے لیکن خیال میں۔ وہ دن ، ناول میں نہیں آیا کہ اس نے اس دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہنایا ہو ۔۔۔۔۔ یہ ہے مکمل داستاں جو کھینچ کر 19 ابواب پر محیط کر دی گئی۔ اور آخری باب ایک خالی صفحہ ہے جس پر قاری جو سمجھے لکھ کر کہانی مکمل کر لے۔
خالد جاوید صاحب نے ، جناب انتظار حسین ، بلراج مینرا اور ڈاکٹر انور سجاد کی طرز میں لکھنے کی کوشش کی ہے اور ان کی یہ شعوری کوشش قاری کو جگہ جگہ کھلتی ہے۔ ڈاکٹر انور سجاد نے ” خوشیوں کا باغ ” ایک بار ہی لکھا پھر اس جیسی کوئی اور چیز نہیں لکھی۔ حالانکہ ” خوشیوں کا باغ ” کا مواد اپنے گرد و پیش کی زندگی اور سیاسی اُتھل پُتھل کے ایک حشر ساماں دور سے اخذ کیا گیا تھا۔ تاریخ اس ناول کو ایک عقبی پردہ مُہیّا کرتی ہے اور بظاہر سامنے کے واقعات اسے ایک بنیاد مُہیّا کرتے ہیں انور سجاد کا یہ ناول ان آفاقی سچائیوں کا اظہار بھی ہے جو معاشرے سے غائب ہو رہی ہیں اور پورا معاشرہ ایک گہرے انتشار کی زد پر ہے۔
مصنف کا دعوی ہے کہ محترم شمس الرحمان فاروقی نے ’جگہ جگہ املا اور زبان کی غلطیاں ٹھیک کرنے کے ساتھ ساتھ ناول کی نوک پلک درست کرنے میں بھی حد درجہ اپنا تعاون بخشا‘۔جناب شمس الرحمان کے لیے بے حد احترام لیکن مجھے مصنف کی بات کچھ زیادہ قابل یقین نہیں لگتی۔ اگر اسے مان لیا جائے تو ان بہت سی باتوں کو کس کھاتے میں رکھا جائے جو شمس الرحمان صاحب نے ” نظر انداز” کر دیں۔ ان کی نظر ان باتوں پر نہ پڑے، یہ ممکن ہی نہیں۔
کچھ باتیں جو بہت سے دوسرے ناولوں میں بھی ملتی ہیں ، یہاں ذرا نمایاں بیان کی گئی ہیں۔ مثلا، عورت پر ظلم و تشدد کو افسانوی ڈھنگ میں پیش کیا گیا ہے۔ عمل سے عاری لوگوں کی نفسیات و کردار کی تفصیل ہے۔ جیسے کہ مرکزی کردار کی خود کشی کی خواہش کو عزیز رکھنا اور کہنا کہ خود کشی تو میری پتلون کی جیب میں بیٹھی ہے۔ لیکن اس سے پہلے وہ اپنے باپ کو قتل کرنا چاہتا ہے لیکن آخر دم تک دونوں منصوبے بے عمل رہتے ہیں۔ مرکزی کردار کا من گھڑت کہانیوں ، انسانوں کے آپسی تعلقات، رشتے، طبقاتی کشمکشیں، محبتیں ، نفرتیں وغیرہ کو الٹی لٹکی تصویروں سے تشبیہہ دینا۔ جسم کو بھیانک تاریک اور پر اسرار بِل قرار دینا۔ چھوٹی آنت، بڑی آنت کا استعارہ۔ مرکزی کردار کو ہر چیز سے نفرت ہے اور نفرت بھی اسکی دانست میں ایک سفلی علم کی طرح ہے۔ محبت، ہوس اور انسانی نفسیات کا کچھ ذکر ملتا ہے اس ناول میں۔
مجھے ذاتی طور پر اسے ناول ماننے میں تامل ہے کہ ناول کے عناصر میں پلاٹ کے علاوہ مقصد و معنی اور دیگر عناصر کا ہونا بھی ضروری ہے۔ مثلاً یہ کہ ناول میں زندگی کی عمومی اور وسیع تصویر پیش کی جانی چاہیئے۔ ناول کو تصویر کہنے سے اس کے دوسرے جہات یعنی مناظر، زمان و مکاں، نظریۂ حیات اور اسلوب بیان بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ کوئی بھی تصویر اپنے پس منظر کے بغیر نہیں ابھرتی اور جب ناول کو زندگی کی تصویر کہاجائے تو اسی میں مناظر کے علاوہ زمان و مکاں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔
جس طرح مصور اپنی تصویر کے ذریعہ اپنا مقصد یا نظریہ پیش کرتا ہے اسی طرح ناول نگار بھی زندگی کی تصویر کھینچتے ہوئے اپنا نظریہ پیش کرتا ہے۔ ” موت کی کتاب ” کے انیس ابواب ایک ” مختصرکہانی” میں سموئے جا سکتے ہیں اسی لیے مجھےمحسوس ہوا کہ بہت بڑا ذخیرہ الفاظ ضائع کیا گیا ہے۔ خود صاحب کتاب ، ” عرض مصنف ” میں قلم طراز ہیں کہ ” لکھنا ایک تکلیف دہ عمل کا نام ہے۔ لکھ کر آپ دوسروں کو ایذا پہنچاتے ہیں ” یہاں کسی قسم کی کوئی ایذا تو نہیں پہنچی ، ہاں ذخیرہ الفاظ کے ضائع جانے کا رنج ضرور ہوا۔ کتاب میں انسانی جنسی اعضاء کا ذکر جس طریقے سے کیا گیا ہے وہ بھی بلا جواز ہے۔ جنسی اعضاء کا ذکر کرنا ہر گز معیوب نہیں لیکن یہاں جس طرح ان کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ غیر ضروری اور شاید قاری کو متوجہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
” موت کی کتاب ” نام بھی مناسب نہیں، کسی کتب فروش کے ہاں شیلف پہ رکھی اس کتاب کے نام سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ
شاید موت کا منظر اور اسکے بعد کیا ہوگا کے بارے میں کوئی کتاب ہوگی۔ کتاب کا سرورق بھی میرے اس خیال کو تقویت دیتا ہے۔ کتاب کے اندر تصویریں بہت مٹی مٹی سی ہیں اس لیے ان کی شمولیت بھی بے معنی لگتی ہے۔
محترم شمس الرحمان فاروقی نے اس کتاب کے آخر میں ایک طویل مضمون لکھا ہے۔ اپنے مضمون میں پہلے انہوں نے انور سجاد اور انتظار حسین کی نثروں کے بارے میں بات کی ہے۔ پھر خالد جاوید کے کئی اور افسانوں کی تشریح کی ہے۔ ” موت کی کتاب ” کے بارے میں ان کی گفتگو کم ہی رہی ہے اور جو ہے وہ بھی کتاب کے اقتباسات نقل کرنے کی حد تک۔ یہاں سے وہ بک آف ڈیتھ اور حضرت ایوب کے مصائب کی طرف چلے جاتے ہین اور ایک طویل تحقیقی مقالہ سپرد قلم کرتے ہیں۔ ان کا مضمون پڑھنے کے بعد یہی تاثر ملتا ہے کہ انہوں نے ” موت کی کتاب ” اور صھیفہ ء ایوب میں مشابہت تلاش کر کے کتاب کو رعایتی نمبر دیے ہیں ۔۔۔۔۔۔ شاید اس کی کوئی وجہ رہی ہوگی۔