ظ ۔ انصاری ۔۔۔ راشد جاوید احمد
ظل حسنین انصاری ( ظ۔انصاری)
تحقیق ۔۔ راشد جاوید احمد
کے کلاسیکی لڑیچر کے اردو تراجم پڑھنے والوں کے لئے ڈاکٹر ۔ظ۔ انصاری کا نام روسی زبان کے کلاسیکی لڑیچر کے اردو تراجم پڑھنے والوں کے لئے نامانوس نہیں ۔ سوویت عہد میں روسی زبان کے ایک درجن سے زائد کلاسیکی ناولوں اور شاعری کا اردو ترجمہ ظ ۔ انصاری نے کیا تھا ۔ ظ۔ انصاری روسی شعر و ادب کاترجمہ براہ راست روسی سے اردو میں کیا کرتے تھے اور یہ ایک ایسا کام تھا جو اُن سے پہلے کسی اردو ادیب نے نہیں کیا تھا ۔
شاہکار روسی ،انگریزی اور فارسی کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا جن میں نہ صرف کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز اور لینن کی منتخب تصانیف شامل ہیں بلکہ دوستو وسکی کے تین اور چیخوف اور پشکن کے ناول بھی شامل ہیں ۔ دوستو فسکی جسے دنیا کے چند عظیم ناول نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے، کی تحریریں بہت گنجلک ہیں اور ان کا ترجمہ کرنا اور وہ بھی اردو میں جو روسی زبان کے مقابلے میں کم ترقی یافتہ ہے، ایک ایسا کام ہے جسے ظ۔ انصاری جیسا ہمہ جہت شخص ہی سر انجام دے سکتا تھا ۔
انھوں نے کلاسیکی کے ساتھ ساتھ جدید روسی شاعری کا بھی اردو میں ترجمہ کیا جو گیارہ ہزار مصرعوں پر مشتمل ہے ۔ان کا یہ کام تین جلدوں میں ماسکو سے شائع ہو چکا ہے ۔ ان کے ترجموں کی خصوصیت یہ ہے کہ پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ کتابیں اردو زبان میں ہی لکھی گئی ہیں ۔رواں دواں،بامحاورہ سلیس اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ متن کے عین مطابق ، ان کے تراجم کو سامنے رکھ کر جب کچھ اور لوگوں کے ترجمےدیکھے جائیں تو ظ۔انصاری کے ہنر اور قابلیت کی داد دینے کو جی چاہتا ہے ۔ تراجم کے علاوہ ڈاکٹر ظ۔انصاری نے دو جلدوں میں اردو روسی اور روسی اردو لغت بھی مرتب کی 55000 الفاظ پر مشتمل ہے ۔
ڈاکٹر ظ۔انصاری نے غالب کی فارسی مثنویوں اور امیر خسرو کے کلام کے بھی فارسی تراجم کئے جنھیں غالب انسٹٰی ٹیوٹ نے شائع کیا۔
روسی زبان کی بہترین کہانیوں کے اردو ترجمے کئے جوتین جلدوں میں ماسکو سے شائع ہو چکے ہیں ۔ ان ترجموں کو پڑھیے تو اصل کا گمان ہوتا ہے فکشن کے ایسے خوبصورت ترجمے اردو میں مشکل سے ملیں گے۔
ڈاکٹر ظ۔انصاری کی اردو تصانیف میں’مثنوی کا سفرنامہ ‘،مولانا ابوالکلام :ذہنی سفر‘،’کانٹوں کی زبان ‘،’جواہر لال نہرو۔کہی ان کہی ‘،’کتاب شناسی ‘اس مجموعے میں وہ تبصرے شامل ہیں جو انھوں نے مختلف کتابوں پر کئے ۔’اقبال کی تلاش‘،’دوستوفسکی ‘،’ پشکن ‘،’چیخوف‘،’خسرو کا ذہنی سفر‘ ، ’غالب شناسی ‘(دو جلدوں میں)،’زبان و بیان‘،جس میں ادبی اور تنقیدی مضامین شامل ہیں ،’کمیونسٹ اور مذہب‘، ’جارج برنارڈشا‘،’ورق ورق‘ سماجی نوعیت کے علمی اور ادبی مقالے ہیں۔ جو اپنے دور کے ممتاز اور معیاری رسائل و جرائد میں شایع ہوئے۔
سنہ1925 سہارن پور میں پیدا ہونے والے ظل حسنین نے غربت کے باعث ابتدائی تعلیم ایک دینی مدرسے میں حاصل کی تھی ۔بعد ازاں میرٹھ چلے گئے اور وہاں جدید تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے ۔قیام میرٹھ کے دوران ان کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوا اور وہ کانگریس میں شامل ہوکر آزادی کی تحریک میں حصہ لینے لگے ۔ جلد ہی وہ میرٹھ سے دلی منتقل ہوگئے۔ کچھ ہی عرصے بعد انھیں کانگریسی لیڈروں کی منافقت اور بے اصولے پن کا تجربہ ہوا اور انھوں نے کانگریس کو خیر باد کہہ کر کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور بمبئی منتقل ہوگئے ۔
بمبئی میں وہ سجاد ظہیر کے ساتھ پارٹی اخبار’ نیا زمانہ ‘میں کام کرنے لگے ۔ اشتراکیت سے ان کا رومانس بھی زیادہ دیر نہ چل سکا ۔ ان کی آزاد منش طبیعت کمیونسٹ پارٹی کے ’آہنی ڈسپلن ‘ کا بوجھ برداشت نہ کر سکی اور انھیں پارٹی سے نکال دیا گیا ۔ کمیونسٹ پارٹی سے قطع تعلقی کے باوجود کمیونزم سے ان کا فکری تعلق قائم رہا ۔ وہ کمیونزم کے نظری پیرو کار تھے اور سمجھتے تھے کہ کمیو نسٹ اصولوں کے مطابق ریاست کی تنظیم نو انسانوں کو دنیاوی ضروریات سے بے نیاز کرسکتی ہے
ظ انصاری کا جو خاکہ انور ظہیر خان نے
لکھا ہے اس میں ان کی شخصیت کے تمام تضادات ،خصوصیات او ر ان کے علمی ،ادبی مقام و مرتبہ کا بھرپور احاطہ کیا ہے۔ انور ظہیر لکھتے ہیں ’ڈاکٹر ظ۔انصاری پینسٹھ بر س جیے ۔ لگ بھگ چالیس برس بے تکان لکھا ،ترجمے کئے ،کالم تحریر کئے ،اداریے لکھے ، تبصرہ ،تنقید ،تحقیق ،ترجمہ اور خاکہ نگاری ،غرض ہر میدان میں قلم کاری کی ۔اردو کی دانشوری کی روایت کو آگے بڑھایا ،صاحب طرز ادیب کہلائے ۔ترقی پسندی سے شروع ہوئے تھے ۔ڈھل مل یقینی اور بین بین رہنے کے کارن ترقی پسندوں کے جمگھٹے میں کوئی خاص جگہ نہیں ۔
انھیں جدیدیت سے کوئی سروکار نہ تھا مگر جدیدیوں سے یارانہ رہا اور بگاڑ بھی ۔کوئی ادبی گروہ ،نظریہ ،ازم انھیں اپنی تاریخ میں سمیٹ اور سینت کر نہیں رکھے گا مگر وہ اپنے لچکیلے اور ادلتے بدلتے رویے اور اسٹائل میں زندہ رہیں گے ۔اپنے علم کے علم ،قلم اور زبان کے جوہر کی بدولت ۔اگر اپنی رنگا رنگ دلچسپیوں کو سمیٹ کر ،کسی ایک شاخ پر نشمین بنا لیتے ،کسی ایک صنف یا شعبے میں بند ہو جاتے تو دنیا کے عظیم فنکاروں کے ساتھ بٹھا ئے جاتے ۔افسوس کہ ساری صلاحیتوں کے باوجود عالمی معیار کا ایک بھی شاہکار نہیں دے سکے ۔مگر ان کا ریزہ ریزہ بکھرا ،ڈال ڈال ،پات پات پھیلا ،مجموعی کام انھیں اردو کے بڑے فنکاروں میں جگہ دلاتا ہے ۔اس حیثیت سے وہ ہمیشہ یاد رکھیں جائیں گے