سرخ سلام ۔۔۔ راشد جاوید احمد
ڈاکٹر لال خان، سرخ سلام
( راشد جاوید احمد )
ڈاکٹر لال خان رخصت ہوئے، ان کے دوستوں، احباب، نظریاتی ساتھیوں اور پیاروں نے ہفتے کی سپہر چکوال کے قصبہ بھون میں ان کے جسد خاکی کو دھرتی ماں کے سپرد کر دیا۔ وہ پاکستان میں ترقی پسندوں کے عملیت پسندی کا چہرہ تھے۔ سوشلسٹوں کی ٹراٹسکی فہم کے علمبردار، بھون چکوال کی مٹی سے اْٹھے اور وہیں آسودہ خاک ہوگئے۔
چھ دہائیوں سے کچھ اوپر جئے اور شان کیساتھ جئے۔ تیسرے مارشل لا(جنرل ضیا الحق کے دور) کے آغاز کے دنوں میں وہ نشتر میڈیکل کالج میں زیرتعلیم اور پی ایس ایف کے سرگرم کارکنوں میں سے تھے۔ نشتر میڈیکل کالج کے دنوں میں ہی انہوں نے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ضیاالحق سے ماتھا لگایا۔
بلندقامت نوجوان طالب علم جب بلند آہنگ کیساتھ، ”ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے“، ”سْرمے والی سرکار ہائے ہائے“، ”راج کرے گی خلق خدا“، ”سرخ ہے سْرخ ہے ایشیا سْرخ ہے“ کے نعرے لگواتا تو راہ چلتے ہوئے لوگ بھی رْک کر نعروں کا جواب دینے لگتے۔
ایک بار تو اس نعرہ بازی نے کچھ اْن طلبہ پر بھی وجد طاری کر دیا جو بظاہر اس کے مخالف کیمپ میں تھے۔ احتجاج ختم ہوا تو کسی نے اْن طالبعلموں سے پوچھا سرخوں کیساتھ نعرے کیوں لگاتے رہے؟ دائیں بازو کی طلبہ تنظیم انجمن طلبہ اسلام سے تعلق رکھنے والے ان طلبہ نے جواب دیا ”یار تم بھی خود کو قابو نہ رکھ پاتے اس کے جوش اور جذبوں سے بھرے نعروں کی للکار سْن کر“۔ واقعی ایسا ہی تھا۔
یہ 1980ء کی دہائی کا کوئی سال تھا۔ جب میری ایک کولیگ نے میرا تعارف بایئں بازو کی ایک معروف ایکٹوسٹ شاہدہ جبیں ( غالبا اس وقت وہ پیپلز پارٹی میں نہیں تھیں ) سے کروایا اور پھر تنویر گوندل (لال خاں ) اور فاروق طارق سے میری جان پہچان ہوئی۔
ان دنوں میگزین ” جد و جہد ” کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا اورمیں نے ” جدو جہد ” کے لئے کچھ مضامین بھی تحریر کئے۔ میری ملازمت کچھ ایسی تھی کہ اس پرچے کو زیادہ وقت نہ دے سکا۔ مارکسی فکر کے مطالعے کی بنا پر میں مارکس، اینگلز، لینن کو تو پڑھ چکا تھا لیکن لال خاں نے مجھے لیون ٹراٹسکی کے نظریات سے متعارف کراوایا ۔
یثرب تنویر گوندل نے اپنے نظریات کی پاسداری میں کیا کیا قربانی نہیں دی تھی۔ نشتر میڈیکل کالج کو اسلامی جمعیت طلبہ والے اپنا منصورہ کہا کرتے تھے اور تنویرگوندل جیسے اسے مسجد ضرار۔ یہ اْن ماہ وسال کا قصہ ہے جب ”ایشیا سبز ہے“ اور ”ایشیا سرخ ہے“ کے نعرے تعلیمی اداروں کے اندر اور گاہے شہروں کی پررونق سڑکوں اور بازاروں میں گونجتے تھے۔
بھٹو کی حکومت کا تختہ اْلٹ کر جنرل ضیا الحق اقتدار پر قابض تھے، 90 روز میں انتخابات کروا کے اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کرنے اور فوج کے واپس بیرکوں میں جانے کا اعلان روندا جا چکا تھا۔ پیپلزپارٹی اور چھوٹی موٹی ترقی پسند جماعتوں، طلبہ اور محنت کشوں کے ترقی پسند گروپ ریاستی جبر وستم کا شکار تھے۔ ان ماہ وسال میں فوجی حکومت جن طالب علم راہنماؤں سے تنگ تھی ان میں تنویر گوندل بھی شامل تھے۔
حکومت مخالف سرگرمیوں اور جنرل ضیا الحق کی ملتان آمد کے موقع پر”سْرمے والی سرکار ہائے ہائے“ کے نعروں نے مقامی ومارشل لا انتظامیہ کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ سیانوں نے مشورہ دیا ملتان اور کالج دونوں کی صحت کیلئے بہتر ہوگا کہ تنویر گوندل جیسے باغی طلبہ کا دوسرے میڈیکل کالجوں میں مائیگریشن کر دیا جائے۔ تنویر گوندل اور دو تین طلبہ کو راولپنڈی کے آرمی میڈیکل کالج بھجوا دیا گیا۔ ایک دو کے حصے میں صوبہ بدری بھی آئی، چند طلبہ لاہور بھجوا دیئے گئے۔
مگر وہ جو خیال تھا کہ ملتان اور نشتر بدری سے یہ طالب علم بندے بن جائیں گے وہ خیال جاگتی آنکھوں کا خواب ثابت ہوا، تنویر گوندل 2 ساتھیوں سمیت آرمی میڈیکل کالج پہنچا اور سب سے پہلے اس نے کالج کے فوجی ضابطوں کو چیلنج کیا۔ اگلے مرحلے میں اس کا اسلام پسندوں کے مقامی جتھے اور فوجی حکومت کے سربراہ جنرل ضیا الحق کے چھوٹے صاحبزادے انوارالحق سے ٹاکرا ہوگیا۔ انوارالحق ان دنوں آرمی میڈیکل کالج میں زیرتعلیم تھے اور جنرل ضیاالحق کا بیٹا ہونے کی بدولت کالج میں اسلام پسندوں کے ”خلیفہ“ کا درجہ رکھتے تھے۔ تنویر گوندل کیسے اس کی خلافت کی بیعت کرتا، نتیجہ تصادم کی صورت میں برآمد ہوا۔
اسلام پسند جتھے اس کی جان کے ویری ہوئے، فوجی حکومت نے کھل کر اسلام پسندوں کو سپورٹ کیا۔ حکومت اور کالج انتظامیہ کیلئے پریشانی یہ تھی کہ جس کالج میں کل تک کوئی زبان نہیں کھولتا تھا اب وہاں ”امریکی سامراج مردہ باد“ کے نعرے گونجتے تھے۔ ان جھگڑوں اور تنازعوں کے متعدد مقدمات درج ہوئے اورغالبا سزائے موت کی خبر بھی تو ایسے میں تنویر گوندل ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔
فوجی حکومت کے اداروں نے بظاہر تو سْکھ کا سانس لیا لیکن رجب علی، قاسم مبارک اور طفیل مانک نامی تین افراد گرفتار ہوئے، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے تنویر گوندل اور چند دوسرے لوگوں کو ملک سے نکلنے میں مدد دی ہے۔ تنویر گوندل نے ہالینڈ میں ڈیرے ڈال لئے، وہیں اس کا عالمی ترقی پسندوں سے رابطہ ہوا اور اس نے باقی زندگی انقلاب کیلئے وقف کردی۔ اس کی وطن واپسی محترمہ بینظیر بھٹو کے اقتدار میں آنے سے چند ماہ قبل ہوئی تھی۔
ڈاکٹر تنویر گوندل اب ڈاکٹر لال خان تھا، فاروق طارق اور اس نے ملکر ترقی پسندوں کو منظم کرنے کی جدوجہد شروع کی، ڈاکٹر لال خان طبقاتی جدوجہد کے سْرخیل ٹھہرے، پچھلی تین ساڑھے تین دہائیوں میں ڈاکٹر لال خان لاہور کی مجلسی زندگی کی رونق رہے۔ انہوں نے ملک بھر میں مختلف موضوعات پر ہزاروں لیکچر دیئے، متعدد کتابیں لکھیں۔ گذشتہ ڈیڑھ سال سے وہ پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا تھے، مجلسی زندگی میں اب وہ کم کم ہی شریک ہوتے۔
لال خان ایک شاندار مقرر تھے اور کوئی بھی ان کی مارکسی تاریخ کے علم سے میل نہیں رکھتا تھا۔ وہ بالشوازم خاص طور پر لیون ٹراٹسکی کی ایک سیاسی لغت تھے۔ نوجوانوں کو تحریک دینے کی ان میں کرشماتی صلاحیت موجود تھی۔ وہ بغیر نوٹس کے گھنٹوں اپنے سامعین کو مسحور رکھنے پر قادر تھے۔ ان کی تنظیم ”طبقاتی جدوجہد“ کی اٹھان میں ایوان اقبال لاہور میں منعقد کردہ سالانہ کانگریسوں کو خصوصی اہمیت حاصل رہی جس میں سینکڑوں مندوب دو دن کیلئے جمع ہوتے اور پاکستان کے سیاسی تناظر میں تنظیمی اور سیاسی ترجیحات کا تعین کیا جاتا۔
پچھلے برس کے طلبہ مارچ میں وہ بہت پْرعزم انداز میں شریک تھے، وہی روایتی مسکراہٹ ان کے چہرے پر تھی جو ہمیشہ ہوتی۔ جمعہ 21 فروری کی شام ڈاکٹر لال خان کا سفرحیات تمام ہوا۔ ہفتہ کی سپہر وہ اپنے خاندانی قبرستان میں مٹی کی چادر اوڑھ کے سورہے۔ علم وفہم اور جدوجہد کا ایک باب بند ہوگیا، ان سے فکر ونظر کا اختلاف آپ کا حق ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ شان سے جئے اور پروقار انداز میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اپنی فکر کیساتھ انہوں نے مثالی وفاداری نبھائی۔ ترقی پسند سیاست وفکر کا ایک چراغ بجھ گیا۔
Read more from Rashid Javed Ahmed