میں عورت ہوں ۔۔۔ رضیہ اسماعیل
میں عورت ہوں
رضیہ اسماعیل
دُکھ کی لمبی تاریک راتوں میں
میں اکثر خود سے بچھڑ جاتی ہوں
کسی نظر نہ آنے والی بھیڑ میں گم ہو جاتی ہوں
ہر کھڑکی ، ہر دروازے پر جا کر
خود کو تلاش کرتی ہوں
شاید بے خیالی میں باہر نکل گئی ہوں
واپس آ کر بستر کو ٹٹولتی ہوں
بے شکن بستر ، بے شکن تکیہ
اس بات کے گواہ ہیں
کہ انھوں نے آج کی رات
کسی کو نیند کا سُکھ نہیں دیا
سُکھ!
جو مجھ سے روٹھ کر
کسی نادریافت شدہ جزیرے میں جا بیٹھا ہے
اور پیچھے اپنے قدموں کے نشان تک مٹا گیا ہے
اسی کش مکش میں صبح کی روشنی
رات کی گود میں آرام کر کے نکھری نکھری سی
میرے در و دیوار پر دستک دیتی ہے
اگر یہ مجھ سے سوال کرے گی
کہ میں رات بھر کیوں نہیں سوئی!
تو اس سے کہہ دوں گی
میری زندگی کی حقیقتیں بہت تلخ ہیں
مجھے سوتے ہوئے ڈر لگتا ہے
کہیں میرے خواب پتھر بن کر
مجھے لہو لہان نہ کر دیں….!