نیچ ۔۔۔ رضیہ سجاد ظہیر

نیچ

رضیہ سجاد ظہیر

شاملی کو دیکھ کر سلطانہ کو لکڑی کے ان بے ڈھنگے ٹکڑوں کا خیال آجاتا تھا جن کو الگ الگ دیکھو تو آڑے ترچھے اور بے ڈول لیکن ٹھیک سے ملاکر بناؤ تو ایسے نمونے نکلیں کہ کیا کہنا۔

اس کے نقشے میں کوئی خاص بات نہیں تھی۔ رنگ بھی گہرا سانولا تھا لیکن پہلے ہی دن جب سلطانہ رکشے سے اتر کر اپنے دروازے میں داخل ہو رہی تھی اور اس نے شاگرد پیشے کی ایک کوٹھری کے سامنے شاملی کو بیٹھے دیکھا، تو اسے یہ احساس ہوا کہ یہ چیز بار بار دیکھنے کے لائق ہے۔ شاملی نے بھی سلطانہ کو د یکھا مگر ہاتھ جوڑ کر نمستے کرنے کے بجائے وہ نظریں اٹھاکر صرف ذرا سا مسکرائی، پھر سرجھکاکر پیتل کی چمکتی تھالی میں چاول بیننے لگی۔

اس کی یہ ادا سلطانہ کو بھاگئی کیونکہ اسے یہ خیال تھا وہ عوام سے محبت کرتی ہے، اور جب کسی غریب کو کسی بڑے آدمی کے آگے ہاتھ جوڑتے یا اسے ماں باپ کہتے سنتی تھی تو اسے اس غریب پر بے حدغصہ آنے لگتا تھا۔ جبھی تو اسے شاملی پر پیار آیا۔

باہری دروازہ سے اندر آتے آتے اسے اپنے بچپن کی سنی ہوئی بہت سی باتیں یاد آنے لگیں۔۔۔ نیچ ذات کی عورتوں کا کچھ ٹھیک نہیں ہوتا۔ دادی اور نانی کے بتائے ہوئے واقعات۔۔۔ کال سے جو چھوکریاں خریدی گئیں، ان کو جب روٹیاں لگ گئیں تو کسی نہ کسی کے ساتھ بھاگ گئیں، ان لوگوں کو خصم کرتے چھوڑتے کچھ نہیں لگتا وغیرہ۔ نہ جانے شاملی کون تھی؟ اکیلی کیسے کوارٹر میں رہ رہی تھی؟ سلطانہ نے جلدی سے گھڑی اتاری اور غسل خانے میں جاکر نہانے کے لیے نل کھولا۔۔۔ پانی ندارد۔۔۔ بھناکر اس نے کھڑکی کھولی، ’’ارے بھئی نل بند کرو۔۔۔‘‘ د یکھا تو شاملی نل پر چاول دھو رہی تھی۔ سلطانہ کو دیکھ کر جیسے وہ سمجھ گئی کہ کیا معاملہ ہے۔ نل بند کرتے ہوئے بولی، ’’بی بی جی، ہم کل ہی یہاں آئے ہیں، ہم کو خبر نہیں تھی کہ باہر نل کھولنے سے اندر پانی بند ہوجاتا ہے۔‘‘

’’کوئی بات نہیں۔۔۔‘‘ سلطانہ کا سارا غصہ رفوچکر ہوگیا تھا۔ شاملی کی آواز اسے بہت اچھی لگی تھی، بات کرنے کا انداز پسند آیا تھا!

اگلے دن باہر والی بڑی کوٹھی میں حکومت کا ایک دفتر کرایہ پر آگیا۔ بیچ کا بڑا ہال اور بڑے کمرے دفتر کو ملے، چھوٹے چھوٹے کمروں کے سیٹوں میں اسی دفتر کے سیکریٹری، ہیڈ کلرک وغیرہ اور شاگرد پیشے کی تین چار کوٹھریوں کے علاوہ سب اردلیوں، چپراسیوں، چوکیداروں، جمعداروں سے بھرگئیں۔ شاملی کی، اور ایک اور کوٹھری سلطانہ والے قطعہ مکان کے ساتھ تھیں۔

تین چار روز بعد ایک شام سلطانہ کالج سے آکر ڈاک دیکھ رہی تھی کہ اس نے باہر سے ہنسنے کی آواز سنی جو شا ملی کی سی لگتی تھی۔ دھیرے سے اس نے وہی غسل خانے والی کھڑکی کھولی۔ اس کی چھوٹی بچی شاملی کو دوڑا رہی تھی، دوڑتے دوڑتے شاملی اپنی کوٹھری میں گھسی اور چیخ چیخ کر بولی، ’’بس بھائی، ہم نے ہار مان لی، ہم کو کھانا پکانا ہے بیٹا۔ اب کل کھیلیں گے۔‘‘ چاروں طرف شاگرد پیشے کے بہت سے نوکر وغیرہ کھڑے ہنس رہے تھے۔

بچی ٹھنکنے لگی، ’’واہ، اُوں اُوں، ہم نہیں جانتے، ہمارا داؤں دو۔۔۔ دو۔‘‘ شاملی نے کواڑ کھولے اور ہنستے ہوئے نکل کر ایک دوسری چال چلی، ’’آئیے آگ جلائیں بیٹا۔۔۔ آپ آٹا لیں گی، چڑیا بنائیں گے، پھر اس کو بھوبل میں سینک کر خوب کھائیے گا مزے میں۔‘‘

بچی وہیں بیٹھ گئی ایک اینٹے پر اور شاملی نے چولھے میں اپلے لگاکر پھونکیں مارنی شروع کیں۔ سلطانہ نے کھڑکی بند کرلی۔ اسے شاملی کا اس طرح دل کھول کر معصومیت سے ہنسنا کھیلنا بہت اچھا لگا تھا لیکن۔۔۔ لیکن اگر وہ چپراسی اور چوکیدار وہاں نہ کھڑے ہوتے تو اچھا ہوتا۔۔۔ اتنے مردوں کے بیچ میں اس طرح۔۔۔ لیکن شاملی نے تو ان میں سے کسی کی طرف د یکھا بھی نہیں تھا۔ پھر بھی ایک بے غیرتی تو ہے ہی۔۔۔ لیکن بے غیرتی کیوں ہے؟ اس نے یکایک نظر اٹھاکے د یکھا تو شاملی کھڑی تھی اور وہ سلطانہ سے نگاہیں چار ہوتے ہی ایسی شرمائی کہ سلطانہ کو یقین نہیں آیا، یہ وہی شاملی ہے جو ابھی یوں ٹھٹھے لگا رہی تھی، ایسا ہنس رہی تھی جیسے اس کا سارا وجود پنکھڑیاں بن کے بکھر جائے گا، تو کیا سلطانہ کے سامنے وہ ہنسنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ آہستہ سے بولی، ’’بی بی جی، ایک دو مرچ چاہئیں، اندھیرا ہوگیا ہے نا۔۔۔ تو دوکان جاتے ذرا ویسا لگتا ہے۔‘‘

’’نہیں نہیں، دوکان جانے کی کیا ضرورت۔۔۔ بیٹھ، ابھی منگائے دیتی ہوں۔‘‘ اس نے خانساماں کو آواز دی۔ اور پھر شاملی سے کچھ سوالات کرنے کے لیے سوچنے لگی۔ شاملی بیٹھ گئی اور سلطانہ کے سوالات کے جواب میں بتایا کہ اس کا شوہر مرچکا ہے اور وہ خود پاس ہی والی پیلی کوٹھی میں میجر صاحب کے بچے کو کھلانے پر نوکر ہے۔ پھر بچے کا ذکر کرتے ہوئے وہ ایک آدھ بار بڑے پیار سے ہنسی، جس سے معلوم ہوتا تھا کہ اسے اس بچے سے بے حد محبت ہوگئی ہے۔

خانساماں مرچیں لے کر آیا تو اس نے غور سے شاملی کو دیکھا مگر شاملی نے اس کی طرف دیکھا تک نہیں، مرچیں لیں اور سلطانہ کو سلام کرکے چپ چاپ چلی گئی۔ جب وہ دروازہ سے باہر نکل گئی تو خانساماں بولا، ’’بیگم صاحب اس عورت کو گھر میں نہ آنے دیا کیجیے۔‘‘

’’انہہ۔۔۔ جاؤ اپنا کام کرو۔‘‘ سلطانہ نے کھسیاکر جواب دیا۔ مگر بوڑھے خانساماں نے برسوں اس گھر میں گزار کے اپنی جو حیثیت قائم کی تھی وہ اسے آسانی سے چھورنے پر تیار نہ تھا، بولا، ’’یہ اپنے میاں کو چھوڑ کر آئی ہے اپنے گھر سے بھاگ کے۔۔۔ اور یہاں رام اوتار سے پھنسی ہے، ٹھیک نہیں ہے یہ عورت۔۔۔‘‘ سلطانہ کو جیسے کسی نے ڈھیلا کھینچ کر مارا۔

’’کون رام اوتار؟‘‘

’’وہی کرایہ داروں کا چوکیدار۔‘‘

اور رام اوتار جیسے سلطانہ کے سامنے آکے کھڑا ہوگیا، خاکی وردی پہنے جو اسے سرکار کی طرف سے ملی تھی، ہاتھ میں موٹا سا ڈنڈا اور ٹارچ اور پاؤں میں بڑے بڑے جوتے۔۔۔ کبھی کبھی جب اسے رات میں رام اوتار کی کھانسی کی یا بوٹوں کی آواز آتی، ’’ہنک ہنک، ہا ہا، ہوشیار، ہا ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ آہک آہک۔۔۔‘‘ تو وہ اسے آواز بھی دے لیا کرتی تھی، ’’رام اوتار۔۔۔‘‘ دیوار کی اُدھر سے وہ جواب دیتا، ’’گھبرائیے نہیں سرکار، ہم جاگ رہے ہیں۔‘‘

وہ سلطانہ کا چوکیدار نہیں تھا پھر بھی وہ کتنا اچھا تھا جو اسے ہمیشہ اس طرح اطمینان دلادیتا تھا، پھر جیسے وہ چونک پڑی، خانساماں کہہ رہاتھا، ’’یہ اپنے آدمی کو چھوڑ کر بھاگ آئی ہے، رام اوتار بے چارہ اچھی ذات کا ہے، راجپوت ٹھاکر ہے وہ، اور یہ نیچ ذات ہے، مگر اس نے رام اوتار کو کچھ کھلادیا ہے۔‘‘

سلطانہ چڑھ گئی، ’’خواہ مخواہ کی بکواس کرتے ہو، سچ دیکھو نہ جھوٹ جانو، بس تم لوگوں کو سنی سنائی گپ اڑانے سے مطلب۔۔۔ جاؤ یہاں سے، فضول کے لیے۔ ’’خانساماں مرچ کاڈبہ لیے بڑبڑاتا ہوا کھسک لیا۔‘‘

سلطانہ نے خانساماں کو تو چلے جانے کا حکم دے دیا لیکن اس کے اپنے دماغ میں جو لگاتار خیالات چلے آرہے تھے ان کو نکل جانے کا حکم دینا اس کے بس کی بات نہ تھی اور اسے اپنے آپ سے یہ بات قبولنی ہی پڑ رہی تھی کہ خانساماں کی باتوں سے اسے دھکا سا لگا تھا۔ شاملی نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے اپنے شوہر کو چھوڑا، گھر سے بھاگی ا ور یہاں رام اوتار سے تعلق کیے تھی اور وہ تو خیر جو تھا سوتھا، اس نے سلطانہ سے جھوٹ بھی توبولا کہ میرا آدمی مرگیا ہے۔ آخر جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی، اسے سلطانہ پر بھروسہ کرنا چاہیے تھا کہ وہ سمجھ جائے گی۔۔۔ شاید یہ نیچ ذات کی عورتیں۔۔۔ ارے نہیں نیچ اور اونچ ذات کیا ہوتی ہے بھلا۔۔۔ افوہ۔۔۔

دوسرے دن شام کو مغرب کے وقت وہ عورتوں کے کسی جلسے سے لوٹی۔ اندھیرا تقریباً چھا گیا تھا، دونوں وقت ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے۔ شاملی کی کوٹھری سے دھواں نکل رہا تھا لیکن چراغ نہیں جلا تھا۔ چولھے کے سامنے آگ کی روشنی میں شاملی کے دونوں ہاتھ روٹی پکاتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ سرپر اوڑھی ہوئی پیلی ساری کے لال کنارے میں سے اس کی ذرا سی ناک بھی دکھائی دے رہی تھی۔ روٹی پکاتے پکاتے وہ بار بار پلو سے آنسو پونچھتی جاتی تھی۔ پاس ہی دو تین اینٹیں ایک کے اوپر ایک رکھ کر رام اوتار بیٹھا تھا، اس وقت وہ خاکی وردی کے بجائے سفید دھوتی اور کرتا پہنے بہت اچھا لگ رہا تھا اور سلطانہ کو ایک دم سے خیال آیا کہ شاملی اور رام اوتار کی جوڑی بہت اچھی رہے گی۔

رام اوتار اسے دیکھ کر کھڑا ہوگیا اور سلام کرکے دوسری طرف چلا گیا۔ سلطانہ دھیرے دھیرے شاملی کے نزدیک آکے کھڑی ہوگئی۔ ایک منٹ اسے خاموشی سے دیکھتی رہی پھر آہستہ سے بولی، ’’شاملی، ہمارا خانساماں کہتا ہے، تیرا آدمی زندہ ہے، تو تو کہتی تھی وہ مرگیا۔‘‘

سلطانہ کو پوری امید تھی شاملی کہے گی، ’’نہیں بی بی جی، خانساماں کو بھلا کیا پتہ، وہ تو مرچکا۔۔۔‘‘ پھر وہ اندر جاکر خانساماں کو خوب ڈانٹے گی کہ خواہ مخواہ تم لو گ ایک معصوم پر الزام لگاتے ہو وغیرہ وغیرہ۔ لیکن شاملی نے نظریں اٹھاکر بڑے طنزیہ انداز میں سلطانہ کو غور سے دیکھا اور آہستہ سے بولی، ’’اگر وہ زندہ ہے تو بھی کیا ہوا، میرے لیے تو مر ہی گیا ہے!‘‘

سلطانہ کو جیسے ایک دم بجلی کا کرنٹ مار گیا، ہائے رے اپنے شوہر کے بارے میں ایسی بات! سلطانہ کو چپ دیکھ کر شاملی مسکرائی، ’’وہ سمجھتا تھا کہ روٹی کپڑا دے گا اور حکم چلائے گا، ہم کوئی پتریا ہیں کہ روپے پیسے سے مول لے گا ہمیں، ہمارے ہاتھ پاؤں چلتے ہیں، ہم کام کرتے ہیں، اس جیسے دس کو کھلانے کی ہمت رکھتے ہیں ہم۔‘‘ اور پھر وہ آٹے کے برتن میں پانی لے کر زور زور سے اپنے ہاتھ مروڑ مروڑ کر دھونے لگی جیسے اپنے میاں کے کان ہی مروڑ رہی ہو۔

سلطانہ خاموشی کے ساتھ اپنے دروازے کی طرف بڑھ گئی لیکن اس کے ذہن میں ایک ہیجان برپا تھا۔ بے شک شاملی بڑی ہمت ور تھی جو اس نے ایسا سوچا لیکن ہائے اس نے اپنے شوہر کے بارے میں کس دل سے یہ بات کہی۔ شوہر، کتنی پیاری چیز، اس کا سہاگ، شوہر، مجازی خدا۔۔۔ انہہ۔ اس نے سرجھٹکا مگر یہ نیچ ذات۔۔۔ تو بہ، پھر اس نے سر کو ایک جھٹکا دیا۔۔۔ پھر اسے نیچ ذات کا خیال آیا۔۔۔ وہ تو اس بات کو اصول کی حیثیت سے مان چکی تھی نا۔۔۔ کہ اس سماج کی شادی قانونی طوائفیت تھی اور کچھ نہیں۔۔۔ لیکن آج جب یہ اصول ننگا ہوکر سامنے آگیا تو وہ ڈر گئی اور اپنے طبقہ کے مکڑی کے جالے اس کے دل و دماغ میں الجھ گئے۔ تو کیا اصول اس نے صرف دوسروں کو قائل کرنے کے لیے اپنالیے تھے، بغیر سمجھے ہوئے رٹ لیے تھے شاید۔۔۔ لیکن دادی اماں تو کہتی تھیں۔۔۔ اور یہاں تو روٹی کپڑے کو ٹھکرا دینے والا معاملہ تھا۔۔۔ لیکن شوہر۔۔۔ لیکن عورت کا وقار۔۔۔ محبت۔۔۔ مگر۔۔۔ مگر۔۔۔ اس نے گھبراکر خانساماں کو چائے لانے کے لیے آواز دی!

تیسرے دن ہولی تھی۔ اس کی بچیاں نوکروں کے بچوں سے ہولی کھیلنے باہر نکل گئیں۔ خانساماں سب سے چھپ کر اپنی کوٹھری میں بیٹھ رہا۔ وہ اکیلی بیٹھی کچھ خطوط لکھ رہی تھی کہ پہلے گیلری میں قدموں کی آہٹ ہوئی، چھاگلوں کی موسیقی سنائی دی، پھر شاملی کا سایہ دروازے میں دکھائی دیا۔ اس نے بڑے بڑے لال اور نیلے پھولوں والی نقلی ریشم کی ساری پہن رکھی تھی، زرد چمکدار ساٹن کا بلاؤز، منہ میں پان اور مسی بھی، آنکھوں میں گہرا کاجل اور گھنی بھوؤں کے بیچوں بیچ ایک بڑی سی سنہری ٹکلی جو گردن کے ہر گھماؤ کے ساتھ یوں رہ رہ کر تڑپتی تھی جیسے سرمئی بادلوں میں کبھی کبھی کوندا لپک جائے، ہاتھ میں پیتل کی ایک تھالی لیے وہ یوں سلطانہ کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی جیسے اجنتا کی سانولی شہزادی میں جان پڑگئی ہو۔

تھالی میں کئی طرح کے تھوڑے تھوڑے رنگ تھے، جن میں ابرک کے ننھے ننھے ذرے دمک رہے تھے، ایک کنارے پر گلابی پتلے کاغذ میں کچھ لڈو تھے، اس نے بغیر کوئی نوٹس دیے ایک چٹکی بھر کر رنگ اٹھایا اور پیچھے ہٹتی ہوئی، گھبرائی سلطانہ کے ماتھے پر مل دیا، پھر اس نے ایک لڈو اٹھایا اور سلطانہ کے منھ میں دینے لگی۔ سلطانہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے، منھ پر ہاتھ رکھ کر دھیرے سے بولی، ’’شاملی، میں مٹھائی نہیں کھاؤں گی۔۔۔ میں نے۔۔۔ ایک منت رکھی ہے نا۔۔۔ میں ابھی مٹھائی نہیں کھاسکتی، جب صاحب۔۔۔‘‘

شاملی جیسے یک لخت سب کچھ سمجھ گئی۔ لڈو کو پھر تھالی میں رکھتے ہوئے اس نے تھالی ہاتھ میں اٹھالی اور آہستہ سے بولی، ’’بی بی جی، دل تھوڑا نہ کرو، بھگوان نے چاہا تو سب ٹھیک ہوجائے گا، صاحب آجائیں گے۔۔۔‘‘ پھر ہنس کر بولی، ’’تب ہم سب آپ کو مٹھائی کھلائیں گے مگر۔۔۔‘‘ اس کی آنکھوں میں پیار اور شرارت کے جذبات جھلکنے لگے، ’’پھر یہ ہے مگر کہ تب آپ ہمارے ہاتھ سے کیوں کھائیں گی۔‘‘

سلطانہ جھینپ گئی، بات بدلنے کو اس نے اپنے بیگ میں ہاتھ ڈالا اور چاندی کے دوروپے اس کی ہتھیلی میں آکر باہر نکلنے ہی والے تھے کہ شاملی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولی، ’’دیکھیے، ہم کو کچھ دیجیے گا نہیں۔۔۔‘‘ جب اس نے جانے کے لیے پیٹھ موڑی تو سلطانہ نے بڑی ہمت کرکے گلا صاف کیا اور اٹکتے ہوئے لہجے میں بولی، ’’شاملی، تو اتنی اچھی ہے۔۔۔ مگر۔۔۔ تو نے اپنے آدمی کو کیوں چھوڑدیا؟‘‘

شاملی نے نظریں نیچی کرلیں اور پاؤں کے انگوٹھے سے زمین رگڑنے لگی، چاندی کی چمکدار چھاگل میں اس کے پاؤں میں لگا ہوا سرخ سرخ مہادر پرچھائیاں بن کر ڈولنے لگا، دوسرے لمحے اس نے نظریں اٹھائیں، ان میں کچھ مایوسی اور کچھ طنز تھا، دھیرے سے بولی، ’’جانے دیجیے، بی بی جی، آپ نہیں سمجھیں گی۔ ’’اور پھر وہ چھاگلیں بجاتی، بچھوے چھنکاتی چلی گئی۔

سلطانہ دم بخود رہ گئی، اسے جیسے بجلی کا تار چھو گیا تھا!

شاملی کے جاتے ہی خانساماں آگیا اور سینی میں کھانا پکانے کا سامان اس کے سامنے رکھتا ہوا بولا، ’’بڑے صاحب کا چپراسی کہتا تھا رام اوتار کو نوکری سے جواب ملنے والا ہے۔‘‘

’’ارے۔۔۔ کیوں؟‘‘ وہ اچھل پڑی۔

’’بات یہ ہے کہ جمعدار اور فراش اور مالی اور کئی ایک چھوٹے بابوؤں نے شکایت کی ہے کہ یہاں کوارٹروں میں بڑی بدمعاشی ہوتی ہے، ہم لوگ بال بچے دار ہیں، گھروں میں سیانی بہوبیٹیاں ہیں اوریہ عورت آوارہ ہے۔ بڑے بابو بھی کہتے تھے رام اوتار کی حرکتیں ٹھیک نہیں ہیں کل شام کو سنا تھا آپ نے؟‘‘

’’ہاں ہاں، کل شام ہم نے کچھ جھگڑے کی آوازیں سنی تھیں، کیا بات تھی؟‘‘ اور سلطانہ کو یاد آیا کہ کل چھٹ پٹے کے وقت اس نے کچھ جھگڑے کی آوازیں سن کر چپکے سے کھڑکی کھولی تھی تو اتنا دکھائی دیا کہ کچھ لوگ پلنگ پر بیٹھے اتنی زور زور سے باتیں کر رہے تھے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آرہاتھا۔ رام اوتار مجرم سا کھڑا تھا اور اس کے پاس ایک آدمی بائیسکل پر ٹکا کھڑا تھا اور ایک آدمی کوٹ پہنے ہوئے دھمکی دینے کے انداز میں کچھ کہہ رہا تھا۔۔۔ شاملی کہیں نہیں تھی حالانکہ یہ سارا جھگڑا اسی کی کوٹھری کے سامنے ہو رہاتھا۔ پھر سلطانہ نے کھڑکی بند کرلی تھی۔

’’وہ رام اوتار کی برادری کے لوگ تھے بیگم صاحب، اس کے چچا کا بیٹا بھی تھا، وہ اچھی ذات کا آدمی ہے حضور، ماں باپ نے برادری میں اس کی بات پکی کر دی ہے پر اب وہ یہاں اس کے چکر میں پھنس گیا ہے، اور۔۔۔‘‘ وہ رک گیا کیونکہ اسے یہ احساس ہوا کہ سلطانہ اس کی بات سن ہی نہیں رہی ہے۔ کھسیا کے بولا، ’’گوشت میں کیا لوکی پڑے گی بیگم صاحب۔‘‘

سلطانہ جیسے خواب سے چونکی، ’’ایں۔۔۔؟ ہاں۔‘‘

خانساماں نے سینی اٹھائی اور چپ چاپ کمرے سے نکل گیا۔ سلطانہ نے ایک نظر اسے جاتے ہوئے دیکھا، پھر اپنے کاغذ اکٹھے کر ہی رہی تھی کہ دستک ہوئی۔ اس نے دروازہ کھولا اور رام اوتار کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ ویسے تو پہلے بھی کبھی کبھار سلطانہ کے خط جب بڑے دفتر میں چلے جاتے تھے تو رام اوتار ہی دینے آتا تھا مگر آج اسے رام اوتار کو دیکھ کر عجیب سا لگا۔۔۔ تویہی تھا شاملی کا وہ محبوب جس پر اتنا قصہ ہو رہا تھا۔ شاملی اسے چاہتی تھی، شاملی جو کہہ گئی تھی، ’’آپ نہیں سمجھیں گی۔‘‘

’’بی بی جی یہ آپ کا خط آیا تھا، بڑے بابو نے مجھے ابھی دیا ہے۔‘‘

سلطانہ نے ہاتھ بڑھاکر خط لے لیا اور بولی، ’’رام اوتار۔۔۔ یہ۔۔۔ تمہاری نوکری کے بارے میں کیا سننے میں آرہا ہے۔‘‘

رام اوتار نے نظریں نیچی کرلیں، چپ رہا، سلطانہ اس کی اس چپ سے روہانسی ہوگئی، اس کا دل چاہا، چیخ کر رام اوتار سے کہے، ’’خدا کے لیے تم لوگ مجھے اپنا دوست سمجھو، یہ دیوار جو میرے تمہارے بیچ میں کھڑی ہے اسے گرادو رام اوتار، شاملی سے کہو مجھ سے اتنی دور نہ جائے، مجھے سمجھنے کا موقعہ بھی تو دے، تم دونوں شاگرد پیشے میں پیدا ہوئے اور میں کوٹھی میں تو کیا یہ میرا قصور ہے؟ مشکل سے بولی، ’’کیا شاملی کی وجہ سے؟ کیا کسی نے تم دونوں کی شکایت کی؟‘‘

رام اوتار نے دھیرے سے بس اتنا کہا، ’’کچھ نہیں سرکار، اب کیا آپ سے کہوں۔۔۔‘‘ اور پھر وہ سلام کرکے روانہ ہوگیا۔ جیسے کہ اس کا بھی یہی خیال ہو کہ اب آپ سے کیا کہوں، آپ نہیں سمجھیں گی۔ سلطانہ کا خون کھولنے لگا، غصے سے نہیں، ارادہ کی شدت سے، اس نے رام اوتار اور شاملی کا چیلنج قبول کرلیا تھا، کل وہ بڑے صاحب سے جاکر لڑے گی اور ان کو بتائے گی کہ دو معصوم، اچھے، محنت کش انسانوں کی محبت میں روڑا اٹکانے کا ان کو تو کیا کسی کو بھی حق نہیں تھا، اگر رام اوتار کی نوکری چلی جائے گی تو وہ ان دونوں کو اپنے گھر میں پناہ دے گی، رام اوتار کے لیے خود نوکری ڈھونڈے گی، برادری والے بڑے آئے مارپیٹ کرنے والے۔۔۔ دیکھیں گے! کتنی ہی دیر تک وہ بڑے صاحب اور رام اوتار کی برادری والوں سے بحث کرنے کے لیے اچھے اچھے زوردار جملے دل ہی دل میں بناتی اور ان کا رہرسل کرتی رہی۔ وہ رام اوتار اور شاملی پر یہ بات ثابت کرکے رہے گی کہ وہ ان کی دوست ہے کہ وہ سب کچھ سمجھتی ہے، صبح ہی صبح جائے گی وہ۔

اگلے دن وہ بہت جلدی تیار ہوگئی اور کالج کے وقت سے کوئی ایک گھنٹہ پہلے تیار ہوگئی۔ اس وقت ضرور بڑے صاحب کوٹھی پر ہی مل جائیں گے۔ اسے یہ بھی امید تھی کہ روز کی طرح شاملی اپنی کوٹھری کے سامنے منیجر صاحب کے بچے کو کھلاتی ملے گی کیونکہ وہ اکثر بچے کو گھر لے آتی تھی اور گھنٹوں کھلایا کرتی۔ اور اسے یہ سوچ کر ایک بڑی پراسرار خوشی بھی ہوئی کہ شاملی کو تو گمان بھی نہ ہوگا کہ وہ اسی کی خاطر بڑے صاحب سے لڑنے جارہی ہے۔

دروازے سے باہر قدم رکھتے ہی اس نے شاملی کی کوٹھری کادروازہ چوپٹ کھلا ہوا دیکھا، نہ وہاں اس کا پلنگ تھا نہ بستر نہ برتن نہ کوئی اور سامان۔ چولھا بجھا ہوا تھا اور طاق میں رکھا ہوا چراغ اوندھا پڑا تھا۔۔۔ وہ سناٹے میں آگئی۔ جمعدارن نے جو وہیں کھاٹ بچھائے اپنی لڑکی کی جوئیں دیکھ رہی تھی، اسے فوراً اطلاع دی، ’’سرکار شاملی بھاگ گئی۔‘‘

سلطانہ کے منھ پر جیسے کسی نے تڑاق سے ایک طمانچہ مارا، ’’کب؟‘‘

’’پتہ نہیں سرکار، رات تک تو تھی۔‘‘

’’اور رام اوتار؟‘‘

جمعدارن ہنسی، ’’رام اوتار ہیں گے۔ رو رہے ہیں اپنے لکھے کو۔ ایسی رانڈوں کا کیا ہے بی بی جی، آج ایک کیا، کل دوسرا، پرسوں تیسرا۔۔۔ نیچ کہیں کی۔۔۔‘‘ اور اس نے زور سے اپنے ناخنوں کے بیچ میں ایک جوں دھر کے پیس دی جیسے شاملی کا ہی کچومر نکال نکال دیا ہو۔ سلطانہ کے قدم لڑکھڑانے لگے۔ اب بڑے صاحب کے پاس جانا بے کار تھا، کس منھ سے جاتی اور کیا کہتی۔۔۔ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی صدر پھاٹک کی طرف بڑھی، پھاٹک کے پاس اسٹول پر رام اوتار بیٹھا تھا، اس نے روز کی طرح سلطانہ کو سلام بھی کیا اور بڑھ کر آدھ کھلے پھاٹک کو کھول بھی دیا مگر مسکرایا نہیں اور پھر جاکر اسٹول پر بیٹھ گیا۔۔۔ گم سم، اداس، اکیلا۔۔۔ سلطانہ نے سرجھکالیا اور آگے بڑھ گئی۔

دراصل اسے خود ہی رام اوتار سے آنکھیں چار کرنے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی، آخر وہ بھی عورت تھی اور ایک عورت ہی تو وہ بھی تو تھی جو آج رام اوتار کو دغا دے کر بھاگ گئی تھی۔ البتہ سلطانہ نے اتنا ضرور محسوس کیا کہ چپراسی، اردلی، مالی وغیرہ جو ادھر رام اوتار سے ذرا کھنچے کھنچے رہنے لگے تھے، آج اس کے قریب بیٹھے تھے اور ان کے چہرے کسی نامعلوم خوشی سے کھلے جارہے تھے اور وہ رام اوتار کو بہلانے کی کوشش کر رہے تھے۔

سڑک تک پہنچتے پہنچتے سلطانہ کو شاملی سے نفرت محسوس ہونے لگی، ’’بے چارہ رام اوتار، تو یہ ٹھیک ہی تھا کہ نیچ ذات۔۔۔ افوہ! پھر اسے نیچ ذات کا خیال آیا۔۔۔ چلتے چلتے رستے میں اسے جتنی عورتیں ملیں سب کے بارے میں وہ یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتی رہی کہ کیا یہ بھی نیچ ذات ہیں اور اگر یہ ہیں تو کیا یہ بھی اپنے چاہنے والوں کو دغا دے کر بھاگی ہیں۔۔۔ ناحق اس نے شاملی سے اتنا پیار کیا، فضول اس کو اتنا سرچڑھایا، سچ مچ کم اوقات نکلی۔۔۔ نیچ! اس نے زور سے زمین پر تھوکا اور آگے بڑھ گئی!

بھلا اتنے دن بعد اور وہ بھی اتنی دور سے وہ شاملی کو کیسے پہچان لیتی لیکن شک اسے پہلی ہی نظر میں ہوگیا تھا کہ سر پر امرودوں کی چھابڑی رکھے، پیلی ساری باندھے، جو یہ عورت سکندر باغ کے پھاٹک میں مڑی ہے، یہ شاملی ہی ہے۔ اس نے اپنے رکشا والے سے کہا کہ اس کا پیچھا کرے اور برابر سے رکشا نکالے تاکہ وہ اچھی طرح دیکھ سکے۔ اپنے بالکل پیچھے رکشے کی کھڑبڑاہٹ سن کر عورت نے مڑ کر دیکھا اور ایک مرتبہ پھر سرمئی بادلوں میں کوندا سا لپک گیا۔۔۔ تو وہ شاملی ہی تھی!

رکشا بڑھواتے وقت سلطانہ نے سوچا تھا کہ اگر وہ شاملی نکلی تو اس کی ایسی خبر لے گی کہ وہ سات جنم تک یاد کرے گی۔ چنانچہ اس نے فوراً شاملی کو پھٹکارنا شروع کردیا، ’’شاملی تو کتنی بُری ہے، تو بھاگ کیوں آئی؟ بے چارہ رام اوتار اتنا روتا ہے، آدھابھی نہیں رہ گیا، سب اس کی ہنسی اڑاتے ہیں۔۔۔ تو نے بہت برا کیا، بھلا ایسا کرنا تھا تجھے؟‘‘

سلطانہ کے اس طوفان کا جواب شاملی نے صرف ایک جملے سے دیا، ’’مگر وہ اپنی سرکاری نوکری سے تو الگ نہیں ہوا نا بی بی جی؟‘‘ سلطانہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔۔۔ اور جب شاملی پھر سے ٹوکری اٹھاکر سر پر رکھنے لگی تو وہ حیران ہوکر بولی، ’’مگر شاملی یہ کیا بات ہوئی۔۔۔؟‘‘

شاملی نے پھر ٹوکری اتار کے زمین پر رکھی، کمر پر دونوں ہاتھ رکھے جیسے اس نے سلطانہ کا چیلنج قبول کرلیا ہو، غصے سے بولی، ’’مگر کیا بی بی جی۔۔۔ مگر یہ کہ وہ بار بار مجھ سے کہتا تھا کہ تیرے کارن میری سرکاری نوکری چھوٹنے والی ہے، مجھ پر احسان دھرتا تھا، آپ بتائیے کیا میں نے اس سے کہا تھا کہ تو سرکاری نوکری کر یا مت کر، مجھے اس کی نوکری سے پریم تھا کیا؟ ہونہہ جانے اپنے کو کیا سمجھتاتھا۔ بار بار یہی کہ نوکری چھٹ جائے گی تو تجھے کیا کھلاؤں گا۔۔۔ اگر اس کے گھر بیٹھ جاتی نا تو عمر بھر یہی طعنے دیتا۔۔۔ اور کھانے کا کیا ہے، اس جیسے دس کو کھلانے کی ہمت رکھتے ہیں ہم۔‘‘

اتنا کہہ کے اس نے ٹوکری اٹھاکے سر پر رکھی، ایک پل خاموش رہی پھر سلطانہ کی طرف دیکھا، اس کی بڑی بڑی کٹیلی آنکھوں میں لبالب آنسو بھرے تھے، دھیرے سے بولی، ’’رام اوتار ٹھیک تو ہے بی بی جی۔ اس سے میرا۔۔۔ میرا سلام کہہ دیجیے گا۔‘‘

سلطانہ نے سرجھکالیا، اتنی ہی دھیرے سے بولی، ’’کہہ دوں گی، ضرور کہہ دوں گی۔‘‘ شاملی مسکرائی جیسے کہتی ہو، ’’ہاں ٹھیک ہے اب کی بار آپ سمجھ گئیں۔‘‘

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031