آیئنے میں جنم لیتا آدمی۔۔تاثرات۔۔راشد جاوید احمد
آیئنے میں جنم لیتا آدمی
نظم گو : مسعود قمر
معروضات : راشد جاوید احمد
مسعود قمر کا نیا شعری مجموعہ ” آیئنے میں جنم لیتا آدمی” میرے سامنے ہے۔ نظموں کے اس مجموعے میں آیئنے کی علامت بھرپور طور پر ابھر کے سامنے آتی ہے۔مجھے ساری نظمیں اسی آیئنے میں نظر آیئں جسے شاعر نے خود بنا کر اس میں جنم لیا۔
اپنی ذات اور گردو نواح میں پھیلی ہوئی کائنات کی آگاہی مسعود قمر کی فکر کا بنیادی عنصر ہے اور یہ آگاہی شاعر کو کائنات سے جوڑتی ہے۔ مسعود قمر اگرچہ ایک عرصے سے بیرون ملک قیام پذیر ہے لیکن اس کی نظموں میں جغرافیائی حد بندی ، لسانی، سیاسی یا سماجی بندشیں روڑہ نہیں اٹکاتیں۔ سیاسی اور تہذیبی سطح پر بھلے ہی غیر یقینی کا ماحول ہے لیکن تخلیقی سطح پر مزاجی اور زمانی لحاظ سے یہ نظمیں نئی فکر و بصیرت لیے ہوئے ہیں۔ غالبا یہ مسعود قمر کی نظموں کا چوتھا یا پانچواں مجموعہ ہے اور یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ان نظموں مین کوئی منصوبہ بند آیئڈیالوجی نہیں ہے بلکہ وہ تجربات ہیں جو اس سماج میں زندگی بسر کرنے والے انسانوں کے ساتھ مشروط ہیں لیکن شاعر کے انفرادی ردعمل کے مظہر ہیں۔ ان نظموں میں استعمال کیے گئے سمبلز اور مونتاژ،عورت، محبت، درخت، خود کشی، موت، سگریٹ، چائے، خواب ، آنکھیں وغیرہ کی تکرار ہے لیکن یہ ہر نظم کو دوسری سے جدا کرتے ہیں اور کہیں یکساں روی کا شائبہ نہیں ہوتا۔
یہ نظمیں عہد موجود کی بے مرکزیت اور عدم اطمینانی کی تاریخ کے طور پر پڑھی جانی چاہیئں۔ میں انہیں مزاحمتی نظمیں بھی کہوں تو مبالغہ آرائی نہ ہوگی۔ جس طرح ہر فلسفے کا آغاز اضطراب اور انحراف سے ہوتا ہے اسی طرح ہر نظم بھی کسی نہ کسی کسک سے جنم لیتی ہے۔ مسعود قمر کی یہ نظمیں اسے اپنے آپ کو دریافت کرنے کے مترادف ہیں۔ جذبات و احساسات کا جلترنگ سر چڑھ کر بولتا ہے اور مسعود قمر کی اپنی زندگی سے باہمی کشمکش نظم کے پیرائے میں بیان ہوتی ہے جہاں وہ اپنی شناخت کرتے ہوئے لکھتا ہے
میرا کچھ حصہ
ہمیشہ مجھ سے باہر رہا
میں
اسے اندر لانے
اور
اپنے بے کار حصوں کو
خود سے باہر نکالنے میں
مصروف رہتا ہوں
(ایک بے عمرا آدمی)
سارتر کے مطابق، ” انسان پہلے وجود میں آتا ہے بعد میں وہ اپنے جوہر کا انتخاب کرتا ہے” یعنی انسان اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے اور میرے نزدیک دنیا کا ہر فنکار کم و بیش وجودی ہوتا ہے۔ مسعود قمر تخیلاتی اور تصوراتی دنیا کا باسی نہیں بلکہ زندگی اپنے ڈھپ سے گزار رہا ہے اور کسی بھی قسم کے کمپلکس کے بغیر، شاید یہی وجہ ہے کہ اس کی نظموں میں روایتی اور مصنوعی مضامین نہیں ملتے بلکہ ان ضابطوں کے خلاف کہیں کہیں صدائے احتجاج سنائی دیتی ہے۔ نظموں کے اس مجموعے میں محض تخلیق کی کرشمہ سازی نہیں یا صرف الفاظ کو برتنے کا ہنر نہیں بلکہ شاعر کا تخلیقی تجربہ اس کے وجود کی گہرایوں سے برامد ہوتا نظر آتا ہے۔ وجودیت، غم، خوف، اکیلا پن اور تنہائی کے ساتھ ساتھ ماورائے حسی ادراکات بھی شامل ہیں۔ الفاظ کس طرح شخصی اور انتہائی ذاتی معنویت اختیار کر جاتے ہیں ، یہ مسعود قمر ایسے جدید وجودی شاعر کی نظموں کا ہی خاصا ہے۔
” میں
لوگوں کی بنائی محبت
کب تک قبول کرتا رہوں
میں
ایک محبت اپنی بنانا چاہتا ہوں”
مسعود قمر، اس بند سماج کی ساری مصیبتیں ، تلخیاں اور اذیتیں برداشت کرتے رہو نظموں کے ذریعے اپنی محبت کی تشکیل کرتے رہو۔
( خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ یہ کتاب سائبان تحریک لاہور نے شائع کی ہے۔ رابطہ 03004375871)
۔