شہنشاہ ۔۔۔۔ صبا ممتاز بانو
شہنشاہ
( صبا ممتاز بانو)
وہ بھاگ رہاتھا۔بس بھاگتا ہی چلا جا رہا تھا۔اسے اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ کوئی اسے روکنا چاہتا ہے۔کوئی اس کے دامن سے لپٹ جانا چاہتا ہے۔کوئی اس کی آغوش میں سو جانا چاہتا ہے۔کوئی اسے ٹھہرا لینا چاہتا ہے۔کوئی اسے آواز دے رہا ہے۔کوئی اسے پکار رہا ہے۔اسے تو بس اتنا پتہ تھا کہ وہ رک نہیں سکتا تھا۔ دنیا کی ہر چیز رک سکتی تھی۔۔۔کسی ماں کی سانسیں،کسی بچے کی دھڑکن، کسی محبوبہ کی صدا اور کسی محبوب کے قدموں کی آہٹ۔اگر کوئی نہیں رک سکتا تھاتو بس وہ نہیں رک سکتا تھا۔
وہ کسی کو کیا کہتا۔۔۔کسی سے کیا التجا کرتا ؟۔ وہ تو خود ملتجی تھا۔ اس کا رکنا خود اس کے بس میں بھی نہیں تھا۔ادھر کیا ہو رہا ہے۔؟ ادھر کیا ہو رہا ہے؟۔اُسے یہ جاننے کا ہوش ہی کہاں تھا۔؟ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ کوئی بے خبر ہستی تھا۔ وہ سب جانتا تھاکیوں کہ وہ جاننے کے اس عمل کا واحد گواہ تھا جسے لمحہ موجود کی خبر ساتھ ساتھ
ہوتی تھی۔
مگر وہ سب دیکھ توسکتا تھا، کچھ کر نہیں سکتا تھا۔جو ہو رہا ہوتا تھا،وہ دیکھنا اور دیکھتے چلے جانا ہی اس کا فرض تھا۔اسے یاد نہیں پڑتا تھا کہ اس نے کبھی اپنے فرض سے کو تاہی کی ہو۔۔۔۔۔اس کے دائیں بھی کچھ ہو رہا ہو تا تھا اور اس کے بائیں بھی ، وہ خوش کن لمحوں میں خوش رہتا تھا اور غمگین لمحوں میں غمگین۔۔۔۔۔اس کا دستور یہی تو طے ہوا تھا کہ جب کوئی ہنسے تو اسے اس کے ساتھ ہنسنا ہے اور جب کوئی روئے تو اسے اس کے ساتھ رونا ہے۔
اس کی رفتار کرداروں کے لمحہ موجود کے ساتھ ساتھ چلتی رہتی تھی اور لمحہ موجود کو تو ہمیشہ رہنا ہے۔ہر جگہ کسی نہ کسی صورت میں۔اس کی ڈور نصیب کے ساتھ بندھی تھی۔نصیب نے اسے لمحوں میں تقسیم کر دیا تھا۔۔۔وہ لمحہ لمحہ رس ر ہا تھا۔ بہہ رہا تھا۔ گزر رہا تھا۔ جب ماضی میں سمٹتا تھا تو حال میں ڈیرا ڈال دیتا تھا۔۔۔
آج پھر چاند اپنے پورے جوبن پر تھا۔ ایک چھیل چھبیلی دوشیزہ چھپتے چھپاتے گھر سے نکلی اور اپنے محبوب کے انتظار میں کھیتوں میں چھپ گئی۔انتظار کی گھڑیاں محبوب کی آمد پر رقص کرنے لگیں جیسے ان کو زندگی مل گئی ہو۔
چاندنی کی چادر میں دو پیار کرنے والے ایسے مدہوش ہوئے کہ انہیں میرے گزرنے کا خیال تک نہیں رہا۔۔ میں ان کو دیکھ کر مسکرایا۔۔۔ کتنے اچھے لگ رہے تھے وہ۔ پیار کے نور سے ان کے چہرے دمک رہے تھے۔۔۔میرے یوں ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے سے و ہ شرما سے گئے۔۔ ۔ مجھے بھی شرمندگی محسوس ہوئی۔۔ میں ایک درخت کی اوٹ میں چھپ گیا۔۔مگر گیا نہیں۔ مجھے جانے سے پہلے گزرنے کا مرحلہ طے کرنا تھا۔۔۔۔۔ یہی مقرر تھا۔
ان دونوں کی آنکھ مچولی ختم نہیں ہو رہی تھی،میرے گزرنے کا انہیں احساس تک نہیں ہو رہا تھا۔۔ محبت کی میٹھی لوری نے ان کے ان چھوئے جسموں کو وہ راحت بخشی تھی جس میں کھو کر وہ یہ بھول گئے تھے۔۔۔ کہ
میں ان کو اتنی قریب سے دیکھ رہا ہوں ،جتنے قریب وہ
ایک دوسرے کے تھے۔
دوشیزہ نے اپنے محبوب کے چہرے کو بوسہ دیا تو اس کے محبوب نے بے اختیار اس کی آنکھوں کو چوم لیا، پھر اپنے بھرے بھرے ہونٹ اس کے نرم ونازک ہونٹوں پر رکھ دئیے۔ وہ کسمسائی اور پھر جیسے گہری نیند میں کھو گئی۔ میرا دل چاہا، میں بھی ٹھہر جاﺅں۔ وہ بھی تو یہی چاہتے تھے کہ میں رک جاﺅں۔ لیکن کیا کرتا میں۔۔۔۔ہاں بس ان کو دیکھتا رہا۔۔۔۔ دوشیزہ تو شاداب کلی کی طرح مہک رہی تھی۔نوجوان بھی سرشار تھا۔۔ایک خمار تھا جو ان کے سر پر چڑھ کر بول رہاتھا۔اس خماری میں میں ان کا ساتھی تھا۔۔۔۔۔وہ خوش تھے تو میں خوش تھا۔اگر وہ غمگین ہو جاتے تو میں بھی غمگین ہو جاتا۔۔۔ کیا فرق پڑتا تھا۔۔۔ میرا کام ہی یہی تھا اور پھر میں ایک روپ میں تھوڑی تھا۔۔۔ کہیں کچھ ،کہیں کچھ، یہاں میں دو پیار کرنے والوں کے ساتھ موجود تھا اور ادھر۔۔۔
ابھی اسے پیدا ہوئے صرف ایک دن ہوا تھا،صرف ایک دن ،کتنی خوش تھی اس کی ماں۔ اس کی شادی بہت دیر سے ہوئی تھی۔۔۔کتنی کوششوں کے بعد۔بیوی خوبصورت تھی۔سلجھی ہوئی مگر نصیب ایسی لمبی چادر تان کرسویا ہوا تھا کہ جاگتا ہی نہیں تھا۔جاگا تو ایک ایسے شخص کے ساتھ جسے اس کی پروا نہیں تھی۔اسے تو تب بھی اس کی پروا نہیں ہوئی جب ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ اس کی بیوی ماں بننے والی ہے۔ وہ بچہ نہیں چاہتا تھا مگر وہ ماں بننے کی ضد کرتی تھی۔۔۔ وہ اس کی سنتا اورچپ رہتا تھا۔۔اسے ابھی یقین نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی ماں بن جائے گی کیونکہ وہ تو بڑی عمر کی تھی۔اس سے دس سال بڑی۔۔۔۔مگر یہ کیا۔۔۔ بس وہ چھ ماہ کے بعد ہی ماں بن گئی۔وہ کیا کہتا اسے، وہ اس کی سنتی ہی نہیں تھی۔
اس کو بس ایک ہی لگن تھی کہ ماں بن جائے۔دن بھر سکول میں بچوں کو پڑھا تے پڑھاتے وہ تھک جاتی۔گھر سے سکول جاتے جاتے پاﺅں شل ہو جاتے۔اسے تو اتنا بھی گوارا نہیں تھا کہ وہ اسے سکول ہی چھوڑ آیا کرتا۔۔۔۔وہ منہ کمبل میں لپیٹ کر مدہوش پڑا رہتا۔وہ سوکھی روٹی کھا کر سکول کا راستہ لیتی۔
کئی کئی دن وہ گھر نہ آتا اور وہ سوچتی رہتی کہ۔۔۔۔یہ بچہ کون پالے گا،کون پالے گا اسے۔وہ کیسے پالے گی اسے؟۔
میں تب بھی اس کے ساتھ ساتھ تھا جب وہ یہ سوچتی تھی او ر اب بھی جب اس کے پہلو میں ایک گل گوتھنا سا بچہ لیٹا ہو اتھا۔وہ بہت خوش تھی۔بچے نے اس کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دے رکھا تھا۔۔کبھی وہ اپنے گلے میں پڑے کارڈ سے کھیلنے لگ جاتا۔ ایک دن کا بچہ اور ایسی قربتیں،،وہ دیکھ دیکھ مسکراتی۔یہ بنے گا میرا سہارا۔۔میرے دکھ بانٹے گا۔وہ دیوانہ وار بچے کو چوم رہی تھی۔
کتنے پاکیزہ لمحے تھے مگر میں رک نہیں سکتا تھا ، اور پھر صرف ایک دن، اگلے دن وہ ماں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے آخری سانسیں لینے لگا۔مجھے یاد ہے کہ تب بھی میرا دل شدت سے چاہا تھا کہ میں اس بچےکی آخری سانسوں میں ٹھہر جاﺅں کیونکہ میں اس عورت کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھنا چاہتا تھا لیکن میں نے تو بڑے بڑے انقلابات دیکھے تھے۔ سانحات کی ایک تاریخ میرے بدن پر رقم ہوئی تھی۔
یہ تو پھر ایک بچہ تھا،لیکن ایک ماں کی آس نے میرے من میں رکنے کی خواہش پیدا کردی تھی۔۔۔ میں پھر سے ڈولنے لگا۔ کاش میں تھم جاﺅں،برستے ہوئے بادل کی طرح جوایک دم تھم جاتا ہے پھر میری رفتار لمحہ موجود میں سفر کرنے لگی اور میں رک نہ سکا۔ وہ معصوم ماں کی آغوش میں دم توڑ گیا۔ میں دیکھ رہاتھا۔اس ماں کا تڑپنا،اس کا واویلا،۔۔۔۔ مگرمیں بڑھ رہا تھا، ا س کی تدفین کی طرف۔ میں تو ادھر بھی تھا جب ایک پرشبا ب بدن ایک مے خور کے بازوﺅں میں مچل رہا تھا۔جام لنڈھائے جا رہے تھے۔مجبور بدن تھرک رہا تھا۔اس کا دل تھا کہ وہ بو بھری سانسوں سے دور چلی جائے،،کہیں دور مگر چھنکتے سکے اسے چھنکا رہے تھے۔۔۔
وہ چھنک رہی تھی۔۔۔تھرک رہی تھی۔میں بھی اس کے ساتھ تھرک رہا تھا۔ مجھے تو یہاں بھی رہنا تھا۔اس کے بدن کے دلفریب رازوں کے ساتھ، اس کے بجتے ہوئے گھنگروﺅں کے ساتھ۔اس عیش کدے میں میں بھی ناچ رہا تھا، ان کے ساتھ ساتھ۔کیوں نہ ناچتا۔۔۔یہاں میرا یہی فرض تھا کہ میں ان لمحوں میں ان کے ساتھ رہوں،کبھی بد مست شرابی کی موج مستی میں اور کبھی مجبور حسینہ کی اداﺅں میں۔
اور اسی لمحے میں کہیں اور بھی تھا۔۔ جب اسی لمحے میں ایک ماں باپ کے اکلوتے بیٹے کو سڑک سے گزرتے ہوئے ایک اندھی گولی نے اچک لیا۔میرا دل چاہا میں کہ اس کے اور دیوانہ وار آتی گولی کے درمیان حائل ہو جاﺅں مگر میں کچھ نہ کر سکا،تماشا دیکھتا رہا۔مجھے پہلے سے ہونے کا پتہ کہاں چلتا.تھا؟۔میں تو بس ہونے والے لمحوں کے ساتھ ساتھ گزرتا رہتا تھا۔جب گزر جاتا تھا تو ماضی بن جاتا تھا۔
۔۔ساری عمر غربت کے پروں تلے سمٹ کر وقت گزارنے والے ماں باپ کے بیٹے نے جوان ہوتے ہی غربت کو دھکا تو دے دیا تھا مگر موت کو دھکیل نہیں سکا تھا۔میں تب بھی موجود تھا۔میں اب بھی موجود ہوں جب اس کے ماں باپ اپنے بیٹے کی لاش پر آہ زاری کر رہے ہیں۔کاش یہ گولی مجھے لگ جاتی۔دل بھر آیا تھا۔میں بھی اس کے ماں باپ کے ساتھ بین کر رہا تھا۔
کہیں خوشیاں، کہیں غم چل رہے تھے،میرے ساتھ ساتھ اور میں ان کے ساتھ ساتھ۔ ادھر بھی، ادھر بھی۔۔میں خدا نہیں تھا۔مگر خدا کا وہ مہرہ تھا جسے اس نے نصیب کا پابند کر دیا تھا۔ہر وہ جگہ جہاں خدا اور بندے تھے۔ مجھے رہنا تھا اور رہنا ہے۔ لیکن میں اس زندگی سے تنگ آگیا ہوں۔آﺅ۔۔۔مجھے مارو۔۔۔مار ڈالو مجھے میں مرنا چاہتا ہوں۔۔۔میں جینا نہیں چاہتا۔زندگی میری آرزو نہیں ہے۔۔۔ میں مرنا چاہتا ہوں۔۔لیکن میں تو تب بھی نہیں مروں گا جب موت بھی مر جائے گی۔۔مجھے کون مار سکتا ہے۔؟
خدا بھی مجھے نہیں مار سکتا کیونکہ اس نے ہی تو مجھے امر کیا ہے۔۔۔۔اور خدا جسے امر کردے،اسے کون مار سکتا ہے۔؟میرے سامنے تو کئی لوگوں کو مرنا ہے۔۔۔۔ کم از کم اس موت کو ہی مار ڈالو۔مجھ سے مرتے ہوئے لوگ نہیں دیکھے جاتے۔مجھ سے سسکتے ہوئے لوگ نہیں دیکھے جاتے۔جب موت مر جائے گی تب بھی میں زندہ رہوں گا۔۔۔۔مگر کم از کم کوئی میرے سامنے دم تو نہیں توڑے گا۔
لیکن میں اب کا کیا کروں؟۔اب جو مجھ پر بیت رہی ہے۔بس میں جانتا ہوں۔۔ہائے، ہائے
۔ میں شہنشاہ- زندگی ،ارے نہیں شہنشاہ- موت،کوئی تو مجھے سمجھائے۔۔۔کوئی تو سمجھے کہ میں مقدر کا کفیل،نصیب کے پلنے میں پلا ہوا۔۔۔۔
کہاں کا شہنشاہ۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟