سیاہ کمرے کے مکین ۔۔۔ صبیح الحسن
سیاہ کمرے کے مکین
صبیح الحسن
نیم تاریک کمرے کے ایک اداس کونے میں پڑی میز پر بیٹھے ہوئے میں نے مایوسی سے کاغذ پر لکھے بے جان لفظوں کو گھورا۔ اشتعال کی ایک لہر اٹھی اور میں نے کاغذ کو مروڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جو کاغذی گولوں کو اپنے بازوؤں میں سمیٹنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ زندہ کرداروں کا طلسم کدہ نجانے کیوں میرے قلم کی دسترس میں نہیں آ رہا تھا۔ لفظوں میں جان ڈالنے کے لیے مجھے کسی جادوگر کی ضرورت تھی لیکن جادوگر جنگلوں کے رسیا تھے اور میرے پاؤں سیمیں روش کے عادی ہو چکے تھے۔
میں نے اپنے دل کے نہاں خانوں میں جھانکا۔ زندگی صرف وہاں ٹمٹما رہی تھی جہاں قلم کے پر جلتے تھے۔ میں ایک تاریک کوٹھڑی کے سامنے جا کھڑا ہوا جس کا مکین میری آخری امید ہو سکتا تھا۔ کمرے کے مکین کی آتشیں نگاہوں میں کئی برس کی قید ایندھن بن کر جل رہی تھی۔
“اگر میں آج تمہیں آزاد کر دوں تو تم کیا کرو گے؟”
وہ مسکرایا اور ٹٹولتی ہوئی نگاہوں سے مجھے گھورنے لگا۔
“یہ میں ابھی کیسے بتا سکتا ہوں؟”
“کیا تم نہیں جانتے کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو؟”
“مجھے پہلے سے رستے طے کرنے کی عادت نہیں۔” اس نے بے نیازی سے کندھے اچکائے۔
میں نے اس کے جواب پر اسے پرسوچ نگاہوں سے گھورا
“میں تمہیں آزاد کرنے کے متعلق سوچ سکتا ہوں۔”
“تم نے مجھے قید کرنے کا تردد ہی کیوں کیا تھا؟”
شاید اسے میری مجبوری کا علم ہو چکا تھا۔
“مجھے ڈر تھا کہ تم بے قابو ہو جاؤ گے اور بے مہار خیالات اکثر قیامت ڈھا دیتے ہیں۔”
“تو اب مجھ پر یہ کرم فرمائی کس لیے؟” اس کی استہزائیہ مسکراہٹ مجھے سلگا رہی تھی۔
“مجھے لگتا ہے اس قید نے تمہیں حدوں کا احترام کرنا سکھا دیا ہے۔ شاید تمہیں اصولوں کی افادیت سمجھ آ گئی ہے۔ قاعدے زندگی آسان بنا دیتے ہیں۔ اگر تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم حدوں سے تجاوز نہیں کرو گے تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا۔ مجھے تم میں زندگی کی رمق دکھائی دیتی ہے۔ میں کچھ ایسا لکھنا چاہتا ہوں جس میں لفظ سیاہ لاشیں نہ لگیں بلکہ وہ ایک زندہ تخلیق ہو اور مجھے لگتا ہے کہ تم اس میں میری مدد کر سکتے ہو لیکن مجھے خدشات بھی ہیں۔”
وہ کئی لمحے مجھے گھورتا رہا اور پھر اٹھ کر میرے قریب آیا
“میں تم سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ کچھ بھی لکھتے ہوئے تمہاری حدوں سے باہر نہیں جاؤں گا۔”
اس کی یقین دہانی کے باوجود میں کئی روز تذبذب کا شکار رہا لیکن لفظوں کے بے جان لاشے کاغذوں پر دفناتے دفناتے ایک روز میرا صبر جواب دے گیا اور میں نے اسے آزاد کر دیا۔ وہ چند لمحے بے یقین نظروں سے مجھے گھورتا رہا اور پھر ایک نعرہ مستانہ لگا کر میرا ہاتھ پکڑ کر دوڑ لگا دی۔ افق سے پرے سوچ کی حدوں سے دور ہم دوڑتے چلے جا رہے تھے۔ فرسودہ مناظر فلک بوس عمارتوں کی چنگل میں پھنسے گھٹن زدہ رستے کہیں بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ اچانک مجھے کسی گڑبڑ کا احساس ہوا۔ میں نے اپنے قدموں کی جانب دیکھا تو ایک بے ساختہ چیخ میرے لبوں سے جدا ہوئی۔ ہم پٹڑی پر نہیں تھے۔ میں نے ایک جھٹکے سے اسے روکا اور غصے سے تمتمائی ہوئی آواز میں بولا
“کیا تم نہیں جانتے کہ پٹڑی سے اترنا کتنا بڑاجرم ہے؟”
“جانتا ہوں لیکن یہ جو پٹڑیاں ہیں کئی سال قبل یہ بھی تو نہیں تھیں۔ کسی بھی رستے کو کھود کر دیکھو تو شروعات میں کوئی دیوانہ کسی بے نشاں ویرانے میں دوڑتا ہوا ملے گا۔ راہنمائی ویرانوں میں ہی کی جاتی ہے۔”
“رہنمائی بہت کٹھن کام ہے شاید میں یہ بوجھ نہ اٹھا پاؤں۔”
“آسان تو صرف مرنا ہے۔”
میں نے کچھ دیر سوچا اور پھر اپنے آپ کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ میں روز مرتے مرتے تھک چکا تھا۔
ہم لوٹے تو میرے دامن میں انجانی وادیوں کی خوشبو کے خزانے تھے۔ مجھے لگا کہ میرا قلم زندگی کے جوہر سے آراستہ ہو چکا ہے لیکن مجھے احتیاط سے کام لینا تھا۔ میں باغی نہیں کہلانا چاہتا تھا۔ انجانے چہرے انجانے خیال انجانی خوشبوئیں لوگوں میں خوف بھر دیتی تھیں اور میں انہیں ڈرانا نہیں چاہتا تھا۔ میں جوش سے بھرے دل کے ساتھ کرسی پر بیٹھا کہ یک دم کچھ ہوا۔ میں نے قلم اٹھانا چاہا لیکن میرے ہاتھ نے جنبش کرنے سے انکار کر دیا۔ میں نے گبھراتے ہوئے اپنا جائزہ لیا تو کانپ کر رہ گیا۔ کچھ بھی میرے اختیار میں نہیں تھا۔
“قلم اٹھاؤ۔” وہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے رسان سے بولا۔ میرا ہاتھ اٹھا اور قلم پر جم گیا۔ میں سن رہ گیا میرا جسم مکمل طور پر اس کے قبضے میں جا چکا تھا۔
میں نے اسے گالیاں دینا چاہیں لیکن زبان جم چکی تھی۔ اس نے میرے ہاتھ سے لکھوانا شروع کر دیا۔ پہلے لفظ نے ہی کاغذ سے اٹھ کر انگڑائی لی اور پرشوق نظروں سے ہمیں دیکھنے لگا۔ مجھے اپنے اندر کسی خالی پن کا احساس ہونے لگا۔ میرے الفاظ زندہ ہو چکے تھے لیکن کیا وہ میرے ہی تھے؟
میرا ہاتھ تیزی سے لکھ رہا تھا۔ لفظ میری بے بسی پر قہقہے لگاتے قلم سے نکل رہے تھے۔ ورق کے بعد ورق زندگی سے بھرتا چلا جا رہا تھا۔
اچانک مجھے ایک عجیب سا احساس ہوا۔ میرا ہاتھ دھندلاتا جا رہا تھا۔ میں نے اپنے جسم کا جائزہ لیا تو باقی جسم بھی دھندلا پڑ چکا تھا۔ وہ میرے سامنے بیٹھا دلچسپی سے مجھے دیکھ رہا تھا۔
“کیا دیکھ رہے ہو؟” وہ چہکتی آواز میں بولا۔
میری خوفزدہ نظروں میں پنہاں سوال دیکھ کر وہ ہنس پڑا اور بولا
“کچھ دیر ٹھہرو سب سمجھ میں آ جائے گا۔”
میرا ہاتھ پھر سے رواں ہو گیا۔ میرا ذہن میرا جسم میری روح ہر لفظ کے ساتھ کمزور پڑتی جا رہی تھی۔ میرا دل چاہا کہ چیخ چیخ کر روؤں لیکن میرا اختیار بھی چھینا جا چکا تھا۔ میں بے بسی سے اپنی تحلیل کا تماشا دیکھنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
رات گئے تک لکھنے کے بعد جب آخری لفظ قلم سے جدا ہوا تو میرے ہوش کی آخری رمق بھی جاتی رہی اور میں تیورا کر گر گیا۔
نجانے کتنی دیر ہوش و خرد سے بیگانہ رہنے کے بعد جب میں جاگا تو وہ سامنے بیٹھا مجھے دیکھ رہا تھا۔
“جاگ جاؤ میرے دوست!”
“تم حرامزادے۔۔۔۔۔۔” میں حیران رہ گیا۔ میں پھر سے بول سکتا تھا۔
“ارے۔۔۔۔ ارے۔۔۔۔۔ غصہ نہ کرو۔ اب مجھے اور تمہیں یہیں رہنا ہے۔ میں اور تم جدا نہیں رہے۔”
“کیا مطلب ہے تمہارا؟” میں چلایا تو وہ ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے بولا
“وہ دیکھو۔”
میں نے اس جانب نگاہ کی تو حیرت سے چلا اٹھا۔ سامنے میرا وجود بیٹھا خلا میں گھور رہا تھا۔
“یہ سب کیا ہے؟
میں کہاں ہوں؟
کیا بکواس ہے یہ؟”
کئی سوال فریاد بن کر میرے لبوں سے جدا ہوئے۔
“زندگی کی قیمت زندگی سے ادا ہوتی ہے۔ ایک زندہ تخلیق کے لیے تمہارے ہر لفظ نے تمہارا ایک ذرہ چرایا اور زندہ ہو گیا۔ اب تم وہاں نہیں رہے۔”
اس نے میرے وجود کی جانب اشارہ کیا۔
“”بلکہ کئی ٹکڑوں میں بٹ کر ان لفظوں میں قید ہو چکے ہو۔”
کیا؟” میں کچھ نہ سمجھا۔
“تمہارا تعارف اب وہ مٹی کا پتلہ نہیں یہ سیاہ پیکر بن چکے ہیں۔ میں اور تم اس لفظوں کے جنگل میں قید ہو چکے ہیں۔ آنے والے لمحوں کے لیے یہ تحریر ہی تمہاری اور میری پہچان ہے۔ اس میں کچھ نہیں سوائے وہ جو تم سے لیا گیا ہے۔ذرا پڑھو تو۔”
میں نے ماؤف ہوتے دماغ کے ساتھ تحریر پڑھنی شروع کی تو پہلے ہی جملے پڑھ کر میں تھرا اٹھا۔
“تم۔۔۔۔ تم نے مجھے دھوکا دیا۔ تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔” میرے شکستہ لہجے پر اس کا چہرہ سنجیدہ ہو گیا۔
“ہاں اور میں نے وعدہ پورا کیا ہے۔ میں نے وہی لکھا ہے جو تمہارے اندر تھا۔۔۔۔ تمہاری حدوں میں موجود
تھا۔ میں تم سے باہر نہیں گیا۔
یہ میں ہی تھا۔ لیکن وہ نہیں جسے میں فخریہ انداز میں جسم پر سجا کر اوروں سے ملتا تھا۔ بلکہ یہ تو وہ میں تھا جسے میں اپنے آپ سے بھی چھپا کر دل کے ایک سیاہ کمرے میں قید رکھتا تھا۔ میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
لوگ مجھے پڑھ رہے تھے اور میری تحریر کا ہر لفظ کھڑکی بنا لوگوں کو دعوت نظارہ دے رہا تھا جہاں میں عریاں کھڑا تھا۔ لیکن میں تنہا نہیں تھا. میرے اندر جھانکنے والوں کو کئی جگہوں پر اپنا عکس بھی دکھائی دے رہا تھا۔ میں ان کے بارے میں جو جانتا تھا جو سمجھتا تھا وہ میرے لفظوں سے عیاں ہو رہا تھا۔ ان کے دل میں پنہاں سیاہ کمروں کے مکین بھی روشنی کی جھلک دیکھ رہے تھے۔ اس حمام میں سب ننگے ہو رہے تھے اور یہ مجھ سمیت کسی کو بھی گوارا نہیں تھا۔ لوگوں کے چہرے کے زاویے بگڑنے لگے۔
مجھے ڈر لگنے لگا۔ آستین میں چھپے خنجر زہر آلود لہجے نفرت کی چنگاریاں میری ذات کے اڑتے پرخچے۔۔۔۔ نجانے کیا کیا میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ میں نے اضطراری انداز میں پہلا صفحہ کھولا اور لکھ دیا
“سب کردار فرضی ہیں۔”