گُل ِ مصلوب ۔۔۔ سبین علی
گُل ِ مصلوب
سبین علی
وہ ہمالیہ کی برفیلی وادیوں میں پھوٹنے والی خود رو نیلی پوپی جیسی لڑکی تھی جسے وقت کی ہوایئں خشک بارانی زمینوں میں لے گیئں۔ بارشیں برسیں تو برسیں، نہ برسیں تو میگھ پر کس کا زور ہے ؟
ٹرین رک گئی تھی شاید انجن خراب ہو گیا تھا یا کسی دوسری ٹرین کو لائن دی جانی تھی۔ بوگی کی کھڑکی سے باہر جھانکتے دریائے جہلم کے قرب میں واقع اس چھوٹے سے جنکشن پر پیشین فروٹ کا پودا دیکھ کر مجھے وہی خوشگوار حیرت ہوئی جو ایک بار نیلی پوپی کو گملوں میں لگے دیکھ کر ہوئی تھی۔ سفر جہاں مسافر کو بدل کر رکھ دیتا ہے وہیں کئی بار مسافر بھی راستوں کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ جیسے وہ پیشن فروٹ کا پھل جو نہ جانے کئی برسوں قبل کسی اجنبہ مسافر کے ساتھ سفر کرتا اس جنکشن کے قریب کھا کر پھینکا گیا ہوگا اور اس حسین ویرانے میں اپنی جڑیں گاڑ گیا۔ اس پہاڑی علاقے کی سرخ زرخیز مٹی نے بھی تو اسے پذیرائی بخشی ہوگی، اپنی عنایتوں سے سینچا ہوگا ورنہ بر صغیر میں تو یہ درخت کمیاب ہی ہے جیسے گرم صحراوں میں نیلا گل لالہ۔
میں پیشین فروٹ کے پودے پر نظریں جمائے اس کے خوبصورت کاسنی پھولوں کی تصویر لینے کا سوچ ہی رہی تھی کہ اتنے میں اسی بلیو پوپی جیسی دلکش نقوش کی حامل سبز نیلی آنکھوں اور سنہری رنگت عالی سات آٹھ ساہ لڑکی نے برتھ سے نیچے اترتے ہوئے میری شال کے ساتھ رگڑ کھائی اور اپنے دودھیا موتیوں سے آراستہ سینڈل میرے کپڑوں پر رگڑتی دھپ سے نیچے اتری۔ اس کی ماں نے شرمساری سے معذرت کی اور اپنی بیٹی کو پچکارتے ہوئے اپنے قریب بلا لیا۔
سارے سفر کے دوران وہ لڑکی مجھے اور میرے شیر خوار بچے کو تنگ کرتی رہی تھی۔ ایک بار تو منے کو چھیننے کی کوشش میں تقریبا گرا بھی چکی تھی۔ میں دل ہی دل میں اس لڑکی پر پیچ و تاب کہا رہی تھی مگر وہ اتنی خوبصورت تھی کہ بے ساختہ ہی اس پر پیار بھی آ جاتا۔
نیلی ۔۔۔۔۔۔ ادھر آو اب آنٹی کو تنگ مت کرنا۔
مگر نیلی بضد تھی کہ اسے میرے بیٹے کے ساتھ ہی کھیلنا ہے۔
اس کی کھینچا تانی سے منا کسمسا کر اٹھا اور رونے لگا۔ میں نے نیلی کو خفگی سے گھورا اور منے کا کمبل اسے اچھی طرح لپیٹتے ہوئے اپنی گود میں لٹا کر تھپکنے لگی۔
سوری آپ کو برا تو نہیں لگا۔ سارا رستہ یہ آپ کے بیٹے کو لاڈ ہی لاڈ میں تنگ کرتی رہی ہے۔ کیا بتاوں آپ کو سکول میں اس کی ٹیچر بھی اس سے بہت تنگ ہیں اس بات پر۔ اسے چھوٹے بچے بہت پسند ہیں اب یہ گریڈ تھری میں چلی گئی ہے مگر ابھی بھی نرسری کلاس میں جا کر بیٹھ جاتی ہے۔ آپ کے بیٹے کو بھی اسی لیے اتنا پیار کر رہی ہے۔
اٹس اوکے۔ معذرت کی کوئی بات نہیں۔ سب بچے ایسے ہی شرارتیں کرتے ہیں۔ ویسے بھی اس عمر کی لڑکیوں کو بہت شوق ہوتا ہے اپنے کسی چھوٹے بھائی یا بہن کو کھلانے کا۔ میں نے اس کا شرمسار چہرہ دیکھ کر مروتا کہا۔
اس لڑکی آنکھوں میں نیلے سبز اور سرخی مائل بھورے رنگوں کے خطوط مل کر بہت خوبصورت امتزاج میں ڈھلے ہوئے تھے۔ کبھی وہ آنکھیں سبز رنگ کے کنچے جیسی لگتیں جن میں سرخی جھلک رہی ہو تو کبھی نیلگوں رنگت نمایاں ہو جاتی۔ مجھے وہ آنکھیں دیکھ کر ہمالیہ کی وادیوں میں کھلنے والے نیلے گل لالہ کا خیال آیا تھا۔ وہ بھی ویسی ہی تھی، ضدی، خود سر اور خوب صورت۔
سکول میں استانیاں اس سے تنگ ۔۔۔۔۔ گھر میں اس کی پھپھو اور دادی تک عاجز ہیں اس سے۔ ہر وقت چھوڑے بچوں کے پیچھے لپکتی رہتی ہے۔ کئی بار ان بچوں کو گرا کے ڈانٹ بھی سنتی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں۔ کسی کی بات پر کان نہیں دھرتی۔ عجیب ضدی سی ہو گئی ہے۔ اس کے چچا اسے پاگل خانہ کہتے ہیں۔
میں نے اس کی شرمساری دور کرنے کے لیے کہا، کوئی بات نہیں جب اس کی اپنی بہن یا بھائی آ جائے گا، اس کا شوق پورا ہو جائے گا تو پھر ایسے نہیں کرےگی۔ وہ کھڑکی کے باہر کسی نامعلوم نکتے کو تکنے لگی پھر دھیرے سے گویا ہوئی
ہاں شاید ۔۔۔۔
مگر ۔۔۔۔۔
نیلی کے پاپا اسے بہت پیار کرتے ہیں۔
اس بات کا اندازہ تو مجھے بھی ہو چکا تھا چند گھنٹوں کے اس سفرمیں کوئی چار بار اس کے شوہر کا فون آ چکا تھا۔ نیلی ٹھیک ہے۔۔۔ نیلی کھیل رہی ہے ۔۔۔ نیلی برتھ پر سو گئی ہے ۔۔۔ جیسے جوابات گویا وہ مسلسل اپنے شوہر کو نیلی کے بارے میں تازہ ترین معلومات کسی رپورٹر کی مانند پہنچا رہی ہو۔
اس نے کاٹن کا ڈیزائنر سوٹ پہن رکھا تھا مگر ساتھ میچنگ دوپٹے کی بجائے ہاتھ سے کڑھی ہوئی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ باریک کروشیا سے الیڑھی گئی چادر پر پانچ کناروں والے خوبصورت کاسنی پھول ساٹن ٹانکے میں کاڑھے گئے تھے۔ ان پھولوں کے درمیان گول شیشہ بڑی نفاست اور مہارت سے ٹانک کر لگایا گیا تھا۔
آج کل ہاتھ کی کڑھائی تو نایاب ہو چکی ۔ خاتون تو بڑی مہذب لگ رہی ہیں مگر ہیں کسی روایتی علاقے سے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے دل ہی دل میں اس کے لباس کو سراہتے ہوئے سوچا۔
منا سو گیا تھا۔ میں نے است ہینڈ کاٹ میں لٹا دیا۔ نیلی بھی دوبارہ برتھ پر لیٹ گئی تھی۔ بیشتر مرد ٹرین سے اتر کر باہر پلیٹ فارم اور پٹریوں کے بیچ گھوم رہے تھے۔ ۔ بوگی میں خاموشی پھیلنے لگی دوسرے انجن کا انتظار طویل ہو چکا تھا۔ باہر گھنے درختوں میں شام کے سائے اتر رہے تھے۔ فضا میں جنگلی پھولوں، یو کلپٹس اور کنیر کی ملی جلی مہک کھلی ہوئی تھی۔ فلک کے کناروں پر سرخ کیسری اور عنابی بادل چھوٹی بڑی ٹکریوں میں پھیلتے کئی دلفریب نمونوں میں ڈھلنے لگے۔
میں نے پرس سے اپنا فون نکالا اور کھڑکی سے باہر کے مناظر کی تصویریں لینے لگی۔ اسی دوران اس خاتوں کا پھر فون آ گیا۔
نیلم کے والد بار بار فون کر کے پوچھ رہے ہیں۔
کیا وہ آپ دونوں کو ریلوے اسٹیشن پر لینے آیئں گے ؟ میں نے دریافت کیا
یہ سن کر نیلی کی ماں کے چہرے پر شام کے سایوں جیسی پھیلتی اداسی اتر آئی۔ پھر کہنے لگی نہیں وہ تو انگلینڈ ہوتے ہیں ۔ آٹھ سال سے نہیں آئے۔ پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگی اسی لئے تو نیلی کا بھائی نہیں آ سکا ابھی تک۔
میں نے جوابا فقط مسکرانے پر اکتفا کیا۔
اس کے پا پا دور رہ کر بھی اس کا بہت خیال رکھتے ہیں ۔ یہ دیکھیں نیا فون بھیجا ہے۔ اس کے فوٹو روز منگواتے ہیں۔ اس نے شوہر کی صفائی دینے کی لا شعوری کوشش کی۔
مگر نیلی بہت ضدی ہوتی جا رہی ہے۔ اپنے چچاوں کے ساتھ با لکل اٹیچ نہیں ہوتی نہ ہی کسی کے ساتھ باہر جاتی ہے۔ کہتی ہے ان کی مانکی جیسی سکن ہے۔ اتنے بال کیوں ہیں ؟پاپا کیسے ہیں ؟ میرے پاپا یہاں کیوں نہیں ؟ مجھے اپنا بھائی چاہیے جیسے سب کزنز کے بھائی ہیں۔
آپ کے میاں اتنے عرصے سے واپس کیوں نہیں آئے نہ ہی آپ دونوں کو بلوایا۔ میں نے استفسار کیا۔
امیگریشن کے مسائل ہیں۔ نشنیلٹی نہیں ملی ابھی تک۔ اگر ایک بار واپس آئے تو دوبارہ نہیں جا سکیں گے اور کوئی اندازہ نہیں کب تک کاغذات بنیں۔ بہت تڑپتے ہیں بیٹی کو گلے لگانے کے لیے۔
شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے ہوا کے ساتھ خنکی پھیل رہی تھی۔ میں نے شال اچھی طرح اوڑھ لی اور منے کو اپنی ملازمہ کے پاس چھوڑ کر ٹرین سے باہر نکل آئی۔ کئی گھنٹے بیٹھنے سے پاوں سوجنے لگے تھے۔ باہر پلیٹ فارم پر ذرا سی چہل قدمی من کو بہت بھائی۔ نئی زمینیں قدموں کو چھویئں تو احساسات میں نیا اضافہ کرتی ہیں۔
اطراف سے جنگلی گھاس میں ڈھکی طویل بل کھاتی پڑیوں ، پس منظر میں ابھرتے پہاڑون اور پیشن فروٹ کے پودے کی کئی تصویریں کھینچ چکی تھی۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ پودا اس ہرے بھرے علاقے میں بھی اداس ہے۔ اگرچہ یہ کسی کنٹرولڈ انوائرمنٹ کی لیبارٹری نہیں نہ ہی کسی نرسری کے گملے میں اگایا گیا ہے مگر پھر بھی اس کے پھول گہری اداسی میں لپٹے محسوس ہو رہے تھے۔ دنیا میں اتنے بڑے بڑے سانحے ہوتے ہین مگر میں جانے کیوں چھوٹی چھوٹی باتوں کو محسوس کرتی ہوں۔ آسٹریلیا یں ہر سال جنگلات میں آگ لگ جاتی ہے، ہزاروں درخت جل جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں چیڑ، دیودار کے قدرتی جنگلات تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔ ان کی قیمتی لکڑی کے لاگ دریاوں میں کس بے دردی سے بہا کر ٹمبر مارکیٹ میں پہنچا دئے جاتے ہیں اور میں برازیل کے ایک پودے کی اداسی اور تنہائی محسوس کر رہی ہوں، پھر خیالات جھٹک کر واپس پلٹی۔ شنید تھی کہ جلد دوسرا انجن ٹرین سے آ ملے گا۔ میں بوگی کے اندر واپس آ گئی اور اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہی اسکرول کرتے ہوئے ساری تصویریں دیکھنے لگی
آپ ان کاسنی پھولوں کی اتنی تصویریں کیوں بنا رہی تھیں ؟ اس نے پوچھا
میں ہارٹی کلچر ڈیپارٹمنٹ سے ہوں ۔ ہر طرح کے پودوں سے دلچسپی ہے مگر کوئی نایاب پودا نظر آ جائے تو اس کی تصویر ضرور محفوظ کرتی ہوں۔
اچھا تو کیا یہ نایاب پھول ہے ؟
نایاب تو نہیں مگر ہاں ہمارے ہاں کم ہی پایا جاتا ہے۔ گویا یہ اس پودے کا پردیس ہے۔
اچھا واقعی !
ہاں ۔ پیشن فروٹ برازیل کا پودا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پیشن پھول پانچ زخموں کا پھول ہے۔ مصلوب کیے جانے کے زخم۔
جیسے چھوڑ کر جانے والے زخم دے جاتے ہیں ۔۔۔۔ انتظار کی سولی پر لٹکائے رکھتے ہیں۔ اس نے اداسی سے کہا۔
اس کی چادر پر ٹانکے شیشوں سے ڈوبتے سورج کی ترچھی کرنیں سرخ رنگ منعکس کر رہی تھیں اور اس کے چہرے پر کرب کے زرد سائے نمایاں ہو رہے تھے۔ اسی دوران دور پڑیوں پر بھاری انجن کی گڑگڑاہٹ سنائی دینے لگی۔
آپ نیلی کا بہت خیال رکھا کریں ماں باپ دونوں کے حصے کی توجہ دیا کریں۔ اس کے چہرے کے خطوط بدلنے لگے۔ شیشوں پہ پڑتی رہی شعایئں چپکے سے کھسکنے لگیں۔
جب کبھی انہیں کہنا چاہتی ہوں کہ پاکستان واپس آ جایئں تو سسرال میں شامت آ جاتی ہے۔ ساس کہتی ہے اس کے پاوں تو جم لینے دو۔ اتنی ذمہ داریاں ہیں اس پر۔ تمہیں احساس ہی نہیں کن مشکلوں سے انگلینڈ گیا تھا۔جب میں کہتی ہوں کہ نیلی بہت ضد کرنے لگی ہے، اس کے پاپا مل جایئں تو ٹھیک ہو جائے گی تو نند کہتی ہے، خود تجھے چڑھی ہے، نام نیلی کا لگاتی ہے۔
اسکے چہرے کے تاثرات میں غصہ، مایوسی، حسرت اور تلخی ایک ساتھ ابھر آئی۔ کچھ دیر توقف کے بعد کہنے لگی، اچھا آپ مجھے بتایئں شادی کے بعد میرے شوہر صرف ایک مہینہ ساتھ رہے تھے۔ کیا ایک مہینے میں ہمارے جیسی کسی عورت کو ازدواجی زندگی کی سمجھ آ جاتی ہے یا میاں بیوی کے تعلقات کی ؟
میں نے تاسف سے سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا کہ اک مہینے میں تو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔
ہم دونوں کے لیے وہ فقط ایک آواز ہیں۔ ۔۔۔۔ نیٹ اور فون کا محتاج ایک رابطہ۔شوہر کا ساتھ کیسا ہوتا ہے۔ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں۔ ان کے ہاتھوں میں ہاتھ دینے کا احساس کیسا تھا یہ بھی یاد نہیں کہ ان کے ہاتھ نرم تھے یا سخت اور نیلی ۔۔۔۔ اس نے تو کبھی باپ کو آنکھوں کے سامنے دیکھا ہی نہیں۔
ٹرین کو ایک جھٹکا لگا۔ دوسرا انجن ساتھ جوڑ دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی پرانے پلیٹ فارم اور پٹریوں کے ساتھ گھومتے مسافروں نے بوگیوں میں بیٹھنا شروع کر دیا۔ شام کا مجگجا اندھیرے میں ڈھل رہا تھا۔ وِسل کی گہری سیٹی بیلے میں گونجی۔
نیلی کی ضد اور مردوں سے چڑ کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آتی۔ میں اسی وجہ سے اسے کبھی اکیلا نہیں چھوڑتی اور سب کے طعنے سنتی رہتی ہوں۔
دیکھیں ۔ آپ سسرال میں کسی سے مت کہیں۔ کوئی فائدہ نہیں۔ یہ سب باتیں آپ اپنے شوہر کو بتایئں اور انہیں قائل کریں کہ یا تو وہ پاکستان آ جایئں یا آپ کو اور نیلی کو اپنے پاس بلا لیں۔
اچھا اب میں نے سب کہہ دینا ہے۔ ساری باتیں ایک طرف مگر نیلی کو جو باتیں کی جاتی ہیں اسے ۔ ۔ کہا جاتا ہے وہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ میری اتنی لاڈلی بیٹی ہے ۔۔۔۔۔ پیشن پھول کے زخم رسنے لگے تھے۔
ہاں اآپ کی بیٹی واقعی پیاری ہے آپ کی طرح۔ وہ مسکرائی۔
ٹرین گھیرو گھیر کرتی اس چھوٹے سے سٹیشن سے آگے بڑھی اور تیز رفتار پکڑ لی۔ اندھیرا پھیل چکا تھا بوگی کے اندر مدھم سی بتیاں روشن ہو گیئں۔ ۔ تھوڑے سے مزید سفر کے بعد وہ اپنا سامان سمیٹنے لگی اور نیلی کو برتھ سے اٹھا کر نیچے سیٹ پر اپنے پاس بٹھا لیا۔ نیلی کا موڈ خراب تھا جانے سفر کی تکان تھی یا وہ پھر کسی بات پر اپنی ماں سے روٹھ بیٹھی تھی۔
ٹرین سست ہوتے ہوئے ایک جھٹکے سے رک گئی اس نے الوداعی ہاتھ ہلایا اور نیلی کو لیے گھنے درختوں گھرے ایک چھوٹے سے تاریک سٹیشن پر اتر گئی اور پیچھے میں سوچتی رہ گئی کہ گملے میں لگے گل لالہ ہوں یا اجنبی زمینوں پر اگے پیشن فروٹ کے پودے دیکھنے میں بہت خوبصورت لگتے ہیں مگر اندر سے اداس اور اکیلے ہو جاتے ہیں جیسے مصلوب ہجر لوگ۔
کوئی چھ سال بعد کی بات ہے، میں ہسپتال کے ویٹنگ لاونج میں بیٹھی آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی۔ چند سیٹیں دور بیٹھی ایک خاتون کا چہرہ مجھے بہت مانوس سا لگا جیسے پہلے کہیں دیکھا ہو۔ اس کے ساتھ غالبا اس کا ادھیڑ عمر شوہر بھی تھا جس کے سر کے بیچ بڑا گنج نمایاں تھا۔اپنے چہرے مہرے اور لباس سے وہ کسی دوسرے ملک سے آیا لگتا تھا۔ خاتون کے چہرے اور سبز نیلگوں آنکھوں کی چمک ماند تھی، مجھے وہ برسوں کی مریض لگ رہی تھی۔ کافی دیر تک میں یاد کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ اسے کہاں دیکھا ہے پھر اچانک کچھ یاد آنے پر فون میں فوٹوز کے فولڈر میں پرانی تصویریں تلاش کرنے لگی۔ پیشن فروٹ کے کاسنی پھولوں کی تصویروں کے بیچ ہاتھ سے کڑھائی کی ہوئی چادر اوڑھے سبز آنکھوں والی ایک خوبصورت عورت کی تصویر سامنے آ گئی۔ ہاں یہ وہی ہے ۔۔۔۔ میں اس سے ملنا چاہتی تھی مگر اسی دوراں ماہر نفسیات کے کمرے سے اس کا نام لے کر پکارا گیا اور وہ کسی معمول کی مانند چلتی ڈاکٹر کے کمرے کی طرف بڑھ گئی اور مجھے ایسا لگا جیسے کاسنی رنگ کے پیشن فلاور سے سرخ لہو رسنے لگا ہو۔