ہلدی بے چاری کیا کرے ۔۔۔۔ سبین علی
Sabeen Ali is a short story writer, poet and critic. Her writings, poems and articles have been published in renowned literary magazines. She has a great interest in fine and applied arts. She expresses her thoughts in Urdu and Punjabi with equal ease.
ہلدی بے چاری کیا کرے
( سبین علی )
چل چنبیلی باغ میں میوہ کھلاؤں گی…
میوے کی ٹہنی ٹوٹ گئی
چادر بچھاؤں گی…
چادر کا پلو پھٹ گیا…
درزی کو بلاؤں گی …
درزی کی سوئی ٹوٹ گئی …
گھوڑا دوڑاؤں گی …
گھوڑے کی ٹانگ ٹوٹ گئی…
ہلدی لگاؤں گی…
میں اور فضہ ہتھیلیوں پر کبھی سیدھی کبھی الٹی کبھی اوپر کبھی نیچے تالی بجا بجا کر کھیل رہی تھیں۔ لنچ کی طرف دھیان ہی نہیں گیا اور میرا تو روز کا معمول تھا کھیلنے کودنے میں ہاف بریک گزر جاتی پھر بیتابی سے چھٹی کی گھنٹی کا انتظار…
میں نے کبھی لنچ کی طرف دھیان ہی نہیں دیا تھا اور فضہ لے کر ہی نہیں آتی تھی۔ عموماً نہ تو اس کے پاس لنچ ہوتا اور نہ ہی پیسے۔ ہماری دوسری سہیلیاں البتہ اپنا لنچ ضرور ختم کرتیں۔ تنگ آ کر امی کہتیں کہ کچھ بھی کھا لینا جو اسکول کی کینٹین سے مل جائے مگر بھوکی مت رہا کرو۔
فضہ کا معاملہ مختلف تھا، فضہ قدرے صحت مند، صاف گندمی رنگت والی، بھولی صورت اور گوپلو سی بچی تھی اور میں دبلی سی۔ اسکول میں میری فضہ کے علاوہ کسی سے خاص دوستی نہیں تھی۔ ہماری کلاس کی لڑکیاں اتنی لمبی لمبی اور تیز طرار تھیں کہ مجھے لگتا یہ مجھ سے کافی بڑی ہیں۔ اس لیے میں ویسے ہی ان سے خار کھاتی اور اگر کسی نے میری صحت کا مذاق اڑایا تو سمجھو دوستی کبھی ہو ہی نہیں سکتی۔ فضہ گم سم اور چپ چاپ، ہر بات ماننے والی اور کبھی نہ جھگڑنے والی لڑکی تھی۔
تیسری کلاس میں ہم دونوں ہی پکی سہیلیاں تھیں۔ میتھ کے سوالوں سے لے کر ٹیسٹ تک ہم دونوں ساتھ ہوتیں، کئی بار ٹیچر سے نظر بچا کر اپنی آنسر شیٹ ایک دوسرے کو دکھاتیں کبھی کبھی امی سے چھپا کر اپنی تصویروں کا البم اسکول بیگ میں چھپا کر لے آتیں۔ فضہ میری نسبت صحت مند تھی تو قدرے سست بھی تھی، ہر کام آہستہ اور سستی سے کرنا اور ہر ٹیچر سے بے انتہا ڈرنا۔ کئی بار میں فضہ سے کہتی کہ تم اتنا ڈرتی کیوں ہو؟حالانکہ تمہیں کبھی سزا نہیں ملتی۔
یہ الگ بات ہے کہ کبھی سزا والا کام کرتی تو سزا ملتی۔ فارغ وقت میں اپنے گھر کی باتیں اور بہن بھائیوں کے قصے سنائے جاتے۔ فضہ کی ایک چھوٹی بہن اور ایک بھائی بھی تھا۔ وہ کہتی کہ اس کی امی بہت سخت ہیں اوراسے اپنے ابو بہت یاد آتے ہیں اور جس دن فضہ نے مجھے بتایا کہ اس کے ابو فوت ہو گئے ہیں، اس وقت تک شاید مجھے فوت ہونے کا مطلب بھی نہیں پتا تھا۔
بیٹی کی جبلت میں باپ کی محبت ازل سے موجود ہوتی ہے خواہ باپ کی شکل بھی نہ دیکھی ہو … میں جب کبھی اپنے ابو کا تذکرہ کرتی، فضہ بے انتہا اداس ہو جاتی۔
فضہ کی امی کو میں نے ریفرنڈم پر دیکھا تھا چھوٹا قد، درمیانی صورت، قدرے موٹی سی اور خوش لباس خاتون تھیں … ہمارے اسکول کے ساتھ ہی ایک بڑا پلے گراؤنڈ تھا جہاں میں اکثر شام کو کھیلتی تھی۔ گراؤنڈ کے ساتھ ہی سرکاری ڈسپنسری اور اسکول تھا۔ جس دن ریفرنڈم ہوا، ہمارے لیے تو وہ کھیل کود اور چھٹی کا دن تھا، صبح سے شام تک گراؤنڈ میں اچھل کود ہوتی رہی۔ فضہ کی امی اور دس پندرہ خواتین اسکول کی بلڈنگ میں تھیں، ہماری ٹیچرز اس دن ووٹ ڈلوا رہی تھیں۔
پہلی بار میرے کان لفظ ووٹ سے آشنا ہوئے تھے۔ مجھے جرنلسٹ کو دیکھنے کا بہت شوق تھا، کیونکہ کئی بار میری امی مجھے کہتیں تھیں کہ لگتا ہے تم نے بڑی ہو کر جرنلسٹ بننا ہے، تب شاید اس پیشے کی بہت قدر تھی۔ مجھے کچھ علم نہیں تھا کہ یہ جرنلسٹ کیا بلا ہے۔ کسی نے کہا آج یہاں جرنلسٹ اور اخبار والے بھی آئیں گے، موقع اچھا تھا، میں انتظار کرتی رہی کہ دیکھوں یہ اخبار والے کیسے ہوتے ہیں ؟ اتنی جلدی کیسے لکھتے ہیں اور اتنی زیادہ باتیں انہیں کیسے پتا چلتی ہیں ؟
خیر مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور پولیس کے ساتھ ہی صحافیوں کی وین بھی آ گئی۔ انھوں نے عورتوں کو دیکھا، پھر آپس میں جانے کیا باتیں ہوئیں۔ انھوں نے دس پندرہ عورتوں کو کھینچ کر قریب قریب کھڑا کیا تاکہ فوٹو اتار کر اخبار میں لگا سکیں۔ اگلے دن اخبار میں فوٹو دیکھ کر گمان ہوتا تھا کہ بہت رش میں لی گئی تصویر ہے۔
پولیس والوں کو پتا نہیں کس بات کا غصہ تھا، نجانے کس جلدی میں تھے …؟ ٹیچرز کو حکم ہوا کہ جلدی سے ساری کاپیوں پر دستخط کر دو، حکم کی تعمیل ہوئی، انگوٹھے لگانے کا مرحلہ آیا تو پولیس والے، فضہ کی امی اور کئی دوسرے لوگ ہاتھ کی ہر انگلی کو سیاہی سے رنگ کر ٹھپے لگا رہے تھے۔
فضہ کی امی میں مجھے کوئی جاذبیت نظر نہیں آئی تھی مگر میری اور فضہ کی دوستی وقت کے ساتھ ساتھ گہری ہوتی چلی گئی۔ کم سنی سے لے بڑھوتری تک ہر سنگِ میل پر ہم ساتھ ہی تھیں۔ جب ہم پانچویں کلاس میں تھیں تو فضہ نے دوپٹا بھی اوڑھنا شروع کر دیا جب کہ کلاس کی بیشتر لڑکیاں اسکول یونیفارم میں دوپٹے کے بغیر ہی اسکول آ تی تھیں۔ فضہ کی اُٹھان بھی عام لڑکیوں سے زیادہ تھی۔ مگر اٹھان زیادہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے، اصل بات ذہنی عمر کی ہوتی ہے اور ذہنی عمر میں شاید وہ ہم سب سے پیچھے تھی یا آگے، مگر ہمارے ساتھ نہیں تھی۔
تب میرا پسندیدہ مشغلہ انرجائل اور گلوکوز کو زبان پر رکھ کر ٹھنڈک کا مزہ لینا تھا، … بسکٹ کبھی میری دسترس سے محفوظ نہیں رہے تھے۔ کئی بار گھر میں مہمان موجود مگر اسی وقت منگوائے گئے بسکٹ غائب ملتے۔ امی نے کھانے پینے پر کبھی روک ٹوک نہیں لگائی تھی… اور چٹخارے لے لے کر فضہ کو یہ سارے قصے سنانا روٹین کا حصہ تھے۔ فضہ کی کہانیاں قدرے مختلف ہوتیں۔ اس کی امی ہر کھانے والی چیز لاک میں رکھتی تھیں اور یہ بات کم از کم مجھ سے ہضم نہیں ہوتی تھی۔
کئی بار مجھے لگتا کہ فضہ جھوٹ کہتی ہے۔ کوئی بھی امی بچوں سے کھانے کی چیزیں لاک میں کیوں رکھیں گی؟
فضہ ابھی بھی ویسی ہی تھی معصوم سی، قدرے موٹی، گپلی سی، کئی بار اس کی باتوں سے لگتا کہ وہ ماں کے اتنا قریب نہیں ہے، بلکہ اپنے مرحوم باپ کے زیادہ قریب ہے، کیوں کہ اس کی ہر بات کا محور اس کے ابو ہی ہوتے۔
کبھی اپنے ماموں اور خالاؤں کا تذکرہ بھی کرتی، مگر پھوپھو یا تا یا چچا کا ذکر کبھی نہیں سنا تھا۔ فضہ کی امی کہیں جاب کرتی تھیں، مگر اس نے کبھی زیادہ نہیں بتایا۔ اتنی گہری دوستی کے باوجود نہ کبھی فضہ نے مجھے اپنے گھر بلایا اور نہ ہی کبھی ہمارے گھر آئی۔ ظاہر ہے ایک بیوہ اور ورکنگ وومین کے پاس اپنے بچوں کو گھمانے کا وقت کہاں سے نکلتا ہو گا۔
ٹین ایج میں بھی اکٹھے قدم رکھا۔ تب سوچ کا انداز اور پسند نا پسند تبدیل ہو رہی تھی۔ میری بڑی بہن کالج میں پہنچ گئی تھی اور اب ہمارے موضوعات میں آگے کیا کرنا ہے ؟ کون سے مضامین اختیار کرنے ہیں ؟ سائنس پڑھنی ہے کہ آرٹس، شامل ہو گئے تھے۔ نہ جانے ہم سب لڑکیوں نے کب سے خود کو بہت بڑا سمجھنا شروع کر دیا تھا۔ اب ٹیچرز کے مذاق اُڑائے جاتے، کارٹون بنتے اور اُلٹے سیدھے ناموں سے نوازا جاتا …
دیکھنا تو سہی یہ جو سائنس کی ٹیچر ہیں …ان کی پی ایچ کافی کم لگتی ہے …
ایک قہقہہ بلند ہوتا…
بڑی ایسڈک ہیں … ہاہاہاہاہا…
ایک اور کھنکتا ہوا فلک شگاف قہقہہ …
اور اردو ٹیچر کو دیکھو اُف! کتنی موٹی ہیں کپڑے ایسے پہنتی ہیں جیسے گلو لگا کر ساتھ چپکائے ہوں …؟
پھر ایک قہقہہ…
مگر سب سے مدھم آواز فضہ کی ہی ہوتی۔
فضہ تمہارے ابو ڈاکٹر تھے نا؟
ہاں فضہ جواب دیتی،
اچھا تو تم بھی ڈاکٹر بنو گی؟
پتا نہیں فضہ جواب دیتی۔
مگر کیوں ؟
پتا نہیں امی کو پتا ہو گا۔
اس چھوٹے سے شہر کے لوگ ابھی مغربی تہذیب کے اتنے عادی نہیں ہوئے تھے۔ کوئی بھی انوکھا واقعہ لوگوں کے لیے نا صرف اچنبھے کا باعث ہوتا بلکہ رنگین موضوع سخن بھی بن جاتا۔ شہر کے پوش علاقے میں ایک آنٹی نے ریستوران کھولا تھا اور اس کا خوب چرچا تھا۔ ہم لڑکیاں بھلا کب باز رہنے والی تھیں، ایک دن انہیں ریستوران والی آنٹی کا تذکرہ چل رہا تھا کہ فضہ میرا بازو کھینچ کر الگ لے گئی۔
فضہ کا گلہ رُندھا ہوا تھا، کہنے لگی!
تم بھی سب کے ساتھ میری امی کا مذاق اڑا رہی ہو؟
میں نے حیرت سے پوچھا کیسے ؟
کہنے لگی کہ وہ ریستوران میری امی نے کھولا ہے۔
میں حیرت زدہ اس کا منہ تکتی رہ گئی، مگر دوبارہ کبھی اس کے سامنے اس کی امی کے متعلق کوئی بات نہ کر سکی۔
ہائی اسکول میں ہم دونوں الگ الگ سمتوں میں چل پڑیں، میں نے اسکول بدل لیا اور فضہ سے کبھی دوبارہ رابطہ نہیں رہا۔ اسکول پھر کالج پھر یونی ورسٹی نئی سے نئی سہیلیاں، نئے سے نئے لوگ مگر میں فضہ کو کبھی بھلا نہیں پائی۔ وقت اتنی جلدی بیت جاتا ہے کہ احساس ہی نہیں ہوتا اگر انسان کو یہ علم ہو جائے کہ سب سے قیمتی دولت کیا ہے تو وہ کبھی مادی چیزوں کے پیچھے لگ کر خود کو اتنا خوار نہ کرے۔ علم کیا ہے ؟
ڈگریاں تو حصول روزگار کا ذریعہ ہیں یا پڑھے لکھے ہونے کا ثبوت، وقت پیسہ اور انرجی ہمارے سب سے اہم اور قیمتی وسائل ہیں، ہم کبھی ایک کو دوسرے پر ترجیح دیتے ہیں اور کبھی ایک سے دوسرے کو تبدیل یا ری پلیس کرتے ہیں۔ وقت بچانا ہے انرجی خرچ کریں، کچھ وقت بچ جائے گا۔ انرجی چاہیے تو پیسہ خرچ کریں، پیسہ چاہیے تو وقت اور انرجی دونوں برباد کیجیے …
میں کبھی بھی اتنی سوشل نہیں رہی، زیادہ دوستیاں کرنا تعلقات بنانا یا نبھانا نہیں آتا، مگر میری بہن کافی زندہ دل اور دوستانہ مزاج کی ہیں۔
کالج یونیورسٹی میں اس کی بہت سہیلیاں تھیں اور وہ سب سے ملتی۔ اس ایک سہیلی فضہ کی فرسٹ کزن بھی تھی جو یونیورسٹی میں میری سینیئر تھی۔ ایک دن اس سے پتا چلا کہ فضہ کی شادی کو تو عرصہ ہو گیا، اس نے تو تب میٹرک بھی نہیں کیا تھا، جب پیا دیس سدھار گئی۔ مجھے حیرت بھی ہوئی اور تھوڑا سا دکھ بھی کہ اتنی کم سنی کی شادی، اس عمر میں تو مجھے اپنے بالوں کی چٹیا بنانا بھی نہیں آتی تھی۔ پھر میں نے خود ہی دل کو تسلی دی کہ یتیم لڑکی ہے، اس کی ماں نے جلد فرض ادا کرنا مناسب سمجھا ہو گا۔
یہ بیٹیاں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ ہمیشہ ان کے فرض ماں باپ کی نیندیں اُڑائے رکھتے ہیں، خواہ ساری دنیا کا بوجھ اپنی جان پر اٹھائے پھرتی رہیں، پھر بھی بوجھ ہی کہلاتی ہیں۔
الیکشن در الیکشن کا سلسلہ چل نکلا تھا، ہر دو ڈھائی سال بعد کے انتخابات نے عجیب بے دلی کی فضا پیدا کی ہوئی تھی۔ وہی لوگ جو ریفرنڈم پر ہر انگلی سے ٹھپے لگا رہے تھے، کبھی بی بی کی اور کبھی دوسری پا رٹی میں موجود ہوتے۔ مہنگائی تو طے ہے کہ صرف اوپر کا سفر کرتی ہے نیچے کبھی نہیں آتی۔ یونیورسٹی میں طلبا کا موضوع سخن بھی الیکشن کے ساتھ سیاست اور ملکی نظام ہوتا پھر سے الیکشن کا میلہ سجا اور لمبی بحثیں شروع ہو گئیں۔
یونیورسٹی میں بہت سی سہیلیاں بنیں مگر فریال اور عائشہ سب سے قریبی تھیں۔ ہر بات پر کھل کر اظہار اور اختلاف رائے کے باوجود فضہ کے بعد اگر دوستی ہوئی تھی تو فریال اور عائشہ سے۔ فریال کے والد ایک سرکاری محکمے میں اہم پوسٹ سے ریٹائر ہوئے تھے وہ لوگ کئی شہروں میں رہے اور اس کا مشاہدہ ہم سب سے کہیں بہتر تھا۔ یونیورسٹی میں ہی ہماری جونیئرز میں ڈیرہ کے ایک سردار کی بیٹی ربیعہ بھی تھی، جب فریال کے والد کی پوسٹنگ ڈیرہ میں تھی تووہ دونوں تب سے اسکول کی سہیلیاں تھیں۔ فریال کے ساتھ ساتھ ربیعہ سے بھی گہری چھننے لگی۔
علم بڑا ہے یا پیسہ؟ کیا انسان پیسے کے بغیر علم حاصل کر سکتا ہے ؟ کیا تعلیم بکتی ہے ؟ کیا علم سے یا ڈگری سے کوئی غریب انسان، کسی کسان کا بیٹا، کسی فیکٹری مزدور کا بیٹا بزنس مین یا صنعت کار بن سکتا ہے ؟ کیا سرمائے کے حصول کے بغیر یہ سب ممکن ہے ؟ فریال کہتی نہیں …پڑھ لکھ کر وہ اچھی نوکری کر لے گا تھوڑا سا معیارِ زندگی بلند ہو جائے گا، مگر مزدور کا بیٹا مِل کا مالک نہیں بنتا۔
میں کہتی نہیں علم بڑا ہے۔ قائد اعظم کو دیکھو، نیلسن منڈیلا کو دیکھو، فریال صرف مسکرا دیتی۔ ایک دن اسی بحث و تکرار میں ربیعہ بھی شامل ہو گئی۔ میں، فریال اور عائشہ اس بات پر متفق تھیں کہ تعلیم سے انسان کا معیارِ زندگی کسی حد تک بہتر ہو سکتا ہے مگر ربیعہ کہنے لگی، ’’مجھے تمہارے شہر میں آ کر عجیب عجیب باتیں دیکھنے کو مل رہی ہیں، ساری لڑکیاں پڑھ رہی ہیں،
ارے پڑھ کر انھوں نے کون سا تیر مار لینا ہے، یہی کسی اسکول میں یا کالج میں استانیاں لگ جائیں گی۔ ‘‘
فریال مسکرا کر کہنے لگی، اچھا ہے نا۔
ربیعہ نے کہا اچھا خاک ہے، ان کو اتنی نوکریاں کون دے گا؟ جو کام ان کے باپ دادا کر رہے ہیں وہی ان لوگوں کو کرنے چاہئیں۔ اب دیکھو گرلز ہوسٹل کی جمعدارنی کی بیٹی بی اے کر رہی ہے۔ کل یہی لڑکی ہوسٹل کے باتھ روم دھونے پر تیار نہیں ہو گی… یہ سن کر مجھے خوامخواہ طیش آ گیا۔
مگر پھر بھی ضبط کر کے کہا ربیعہ کل کو جب ہماری قوم ترقی کرے گی تو ہم سب اپنے باتھ روم خود دھوئیں گے۔
ربیعہ کہنے لگی ارے یہ کچھ نہیں کر پائے گی۔ میں نے کہا کہ ہمارے اسکول کی خاتون چپراسی کی بیٹی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پڑھ رہی ہے، تعلیم سے کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی حد تک تو ترقی کرے گا۔
فریال نے مجھے روکا کہنے لگی چھوڑ دو بحث، تعلیم ان جاگیر داروں کی سوچ تبدیل نہیں کر سکتی۔
میں نے کہا کہ اسی لیے تو میں ان لوگوں کی سیاست کی مخالف ہوں، کیا نظام لائیں گے یہ لوگ ہمارے ملک میں جن کی سوچ صرف لوگوں کو دستِ نگر بنائے رکھنے تک محدود ہے۔
ربیعہ چلی گئی مگر بحث جوں کی توں جاری رہی، علم بڑا ہے یا پیسہ ؟
میں نے کہا علم ہی بڑا ہے ہر حال میں علم ہی بڑا ہے … عائشہ جو اکثر میری باتوں پر متفق اور ہم خیال ہوتی تھی مایوسی سے کہنے لگی، نہیں یار… پیسہ ہی بڑا ہے۔ پچھلے سال ہمارے کالج کی سالانہ تقریبات میں وفاقی وزیر نیاز احمد کی بیگم مہمان خصوصی تھی۔
گورنمنٹ کالج کی پرنسپل اس کے سامنے بچھی جا رہی تھیں، دیکھ کر بہت دکھ ہوا اور زیادہ دکھ تب ہوا جب اس وزیر کی جاہل بیوی نے مائیک ہاتھ میں لے کر صرف اتنا کہا،
’’تہاڈی میڈم نے کالج لئی بسا منگیاں سن… اسی اپنے کولوں دو بسا دے دتیاں نیں ‘‘
(آپ کی پرنسپل نے کالج ٹرانسپورٹ کے لیے بسوں کی درخواست کی تھی، ہم نے اپنے پاس سے دو بسیں آپ کے کالج کو دے دی ہیں )
نیاز احمد کا نام سیاسی حلقوں میں بہت معتبر نام تھا۔ مارشل لا ہو یا جمہوری دور، ہمیشہ حکومت میں رہے جاگیردار اور صنعت کار بھی تھے۔ اونچی فصیلوں والے محلات سے لے کر ذاتی طیارہ تک ملکیت میں تھا۔ اس الیکشن میں وہ خود قومی اسمبلی اور اس کا بیٹا صوبائی نشست کے لیے اُمید وار تھا۔ نیاز احمد کا نام بیچ میں آیا کہ نئی بحث شروع ہو گئی، نیاز احمد آج کل صنعت کاروں اور تاجروں کی پارٹی کے ساتھ تھا وہ ایسا سیاست دان تھا کہ جسے کسی بھی پارٹی کا ٹکٹ مل سکتا ہے۔
کبھی اس کو پا رٹی ٹکٹ پارٹی لیڈر کی وفا داری پر ملتا، کبھی برادری کی بنیاد پر کہ اس حلقے میں اس کی برادری کے ووٹرز زیادہ
کے پھندے ہیں۔
عائشہ دکھ سے کہنے لگی، اتنے سا لوں سے میرے والد محنت کر رہے ہیں مگر کاروبار ترقی نہیں کر سکا۔ اس بار میرا بھائی نا چاہتے ہوئے بھی ان کی پارٹی کو سپورٹ کر رہا ہے کہ سیاست دانوں کی بیک سپورٹ ہو تو کاروبار میں ہی مدد مل جاتی ہے، اتنے سال والد نے ایمان داری محنت اور خلوص سے کام کیا۔ نتیجہ کیا، میں این سی اے میں نہیں پڑھ سکی کہ وسائل اتنے نہیں تھے، بڑی بہن کی شادی، گھر کے اخراجات۔ اب بھائی نے موجودہ حالات کے مطابق اپنا راستہ چُن لیا ہے۔ فریال نے کہا کہ بات وہی ہے، اپنے کاروبار کو سپورٹ دینے کے لیے یہ لوگ سیاست کرتے ہیں، ہماری خدمات کے دعوے اور منشور تمہارے جیسے کتابی لوگوں کو اُلو بنانے کے لیے ہوتے ہیں۔
اسی دن شام کو مجھے اپنی بہن کے ساتھ اس کی سہیلی کی سالگرہ میں جانا تھا، فضہ کی کزن کے گھر پارٹی تھی، میں نے اس لیے حامی بھر لی کہ شاید فضہ سے یا اس کی امی سے ملاقات ہو جائے، جب بھی فضہ کا ذہن میں خیال آتا تو پہلا احساس یہ ہوتا کہ اتنی کم عمری کی شادی، صرف پندرہ سال کی لڑکی، اب تو اس کے دو یا تین بچے بھی ہوں گے۔ پتا نہیں اب دیکھنے میں کیسی لگتی ہو گی؟
خوش شکل تو وہ تھی ہی اب کافی پیاری ہو گئی ہو گی۔
انھیں سوچوں میں گم شام کو تقریب میں پہنچ گئی، جب فضہ کی کزن سے اس کا پوچھا کہ فضہ کہاں ہے ؟ پارٹی میں آئی کیوں نہیں ؟ اس کے کتنے بچے ہیں ؟ ٹیلیفون نمبر ہی دے دو؟
اس نے طنزیہ نظروں سے میرے سوال سنے اور کہا تمہیں پتا ہے فضہ کی شادی کہاں ہوئی ہے ؟
جواب سن کر میں سکتے میں آ گئی، ایک چیخ میرے اندر اُٹھی مگر میں آج تک اس چیخ کو باہر نہیں نکال سکی۔ پیٹ میں ایک دم سے درد کی شدید لہر اُٹھی اور میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گی۔
فضہ کی شادی پندرہ سال کی عمر میں نیاز احمد سے ہو گئی تھی۔ سب سوال فضول تھے، ایسی شادیاں جو صیغہ راز ہی میں رہتی ہیں۔ ایسی بیوی جو معاشرے میں آ کر شوہر کا نام تک نہیں بتا سکتی، ماں نہیں بن سکتی، نکاح ہو بھی جائے تو اعلان نہیں ہوتا……شادی نہیں ہوتی… پتا نہیں کیا ہوتی ہے ؟
ایک دم سے ذہن میں بے شمار فلیش بیکس آنے لگے …
چل چل چنبیلی! باغ میں میوہ کھلاؤں گی… ریستوران کی سرپرستی…
کاش میرے ابو زندہ ہوتے …
ریفرنڈم … سیاہی کے دھبے …
جاگیر داروں کی… صنعت کاروں کی حکومت… اُونچے محل…
میوے کی ٹہنی ٹوٹ گئی…
بڑے سرمایہ دار … ہیلی کاپٹر …
چادر کا پلو پھٹ گیا۔
شاہین اب اُونچی پرواز نہیں کرتا…
لارنس آف تھلیبیا… تھر کی لالیوں پر پلتا ہے …
اُڑان اب طیاروں کے ساتھ ہے … کاروبار کا تحفظ … کم سن لڑکیوں کی قربانی
، گھوڑے کی ٹانگ ٹوٹ گئی، ہلدی لگاؤں گی
اُونچی فصیلوں سے چیخ باہر نہیں آتی …
میرے درد کو جو زباں ملے …
تشنہ لب خاموش…
کسی نے سارے جسم کی سوئیاں نکال چھوڑی تھیں مگر آنکھوں کی رہنے دیں۔
زمانے کے ساتھ حیلے تراشنے والوں پر ایسا غضب پڑا …
باہرسے تو سب انسان ہی رہے، مگر اندر سے جون بدل گئی…
شیر کہلانے والے لگڑ بھگڑ کی طرح ہنسنے لگے …
شاہین کے بال و پر گرنے لگے، سراور گردن پروں سے محروم ہوئے …
پیٹ بڑھتا گیا…
پتا نہیں کیسی بھوک ہے جو مٹتی ہی نہیں ؟
آنکھیں اندھی رہیں، کچھ دکھائی دیا نہ سجھائی دیا، آنکھوں کے زخم بھی عجیب ہوتے ہیں، ہلدی بیچاری کیا کرے ؟
تھے، کبھی اس علاقے میں اثر و رسوخ کی بنیاد پر، کبھی دھونس کبھی دھاندلی، کبھی چندہ کہ یہی جمہوریت کے پھندے ہیں۔