ہمارا جرم ناقابل تلافی ہے ۔۔۔ سبین علی
ہمارا جرم ناقابلِ تلافی ہے
( سبین علی )
ہمارا
جرم ناقابلِ تلافی ہے
ہم نے خواب دیکھے
جاگتی آنکھوں
اور بند آنکھوں سے بھی
سوچتی رہیں
ہمارا قلم شبِ تاریک سے
روشنائی لیتا رہا
اور دن کے سفید چہرے پر
نظم لکھتا رہا
ہماری کہانیوں میں
گلِ مصلوب کا لہو
جنگل کا سبزہ گواہ ہوا جس کا
ہم شاخِ حیات پر کھلی
صنوبر کی نوکیلی ٹہنیاں ہیں
جو فلک بوس پہاڑوں سے
شرط بد کر
نمو پذیر ہوتی ہیں
برفیلے طوفانوں میں بھی
روئیدگی کی حکایت لکھتی ہیں
Facebook Comments Box