آوٹ پاس ۔۔۔ سبین علی

آؤٹ پاس 

سبین علی

بنتے بگڑتے ٹیلوں کے درمیان ریت کے چھلاوے رقصاں تھے سورج کی تپش  جوں کی توں برقرار تھی مگر روشنی کی کرنیں زمین پر پہنچنے سے انکاری تھیں اور ریت کے پیالے تلے دم توڑتی قدروں کی کہانی سانس لے رہی تھی۔ وقت اور تہذیب کا سفر کبھی تھما نہیں تھم جائے تو شاید متعفن ہو جائے۔ تہذیب کے ٹیلے بھی کبھی کھائیوں میں بدل جاتے ہیں اور کبھی کھائیاں ٹیلوں جتنی بلند ہو جاتی ہیں۔ ایسے ہی اس دن کا  ریت طوفان اٹھا تھا جسکے ساتھ ہی بوڑھے

نور دین پر کھانسی کا شدید دورہ پڑ چکا تھا۔ کئی دنوں سے وہ مسجد یزید کے بیرونی چھپر تلے ڈیرہ ڈالے ہوئے تھا۔ جدہ شہر کے اس گنجان محلے میں بہت سے پاکستانی بنگلہ دیشی اور ہندوستانی ملازمین رہائش پزیر تھے۔ چند  پاکستانی ہمدرد  پچھلے دوسال سے اسے وطن واپس بھجوانے کی کئی سنجیدہ کوششیں کر چکے تھے۔ ان لوگوں نے کئی بار مل کر پیسے بھی جمع کیے تاکہ کچھ دے دلا کر اسے ترحیل کے ذریعے وطن واپس بھیجا جا سکے۔ مگر  حج سیزن کے بعد شہر کی  مرکزی سڑکوں اور پلوں کے نیچے  غیر قانونی مقیمین کا ایک جم غفیر موجود تھا جو ترحیل کے ذریعے ڈی پورٹ ہونے کی سہولت سے فائدہ اٹھا کر اپنے اپنے وطن واپس جانا چاہتا تھا ایسے میں نور دین کی شنوائی کہاں ہوتی۔

 گاڑی  ریورس کرتے ہوئے میں نور دین کے قریب پہنچ چکا تھا لیکن ریت کے  اتنے شدید غبار میں  گاڑی سے باہر نکلنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔

سانحے ہوں یا واقعے خبریں ہوں یا تبصرے سب   گرد کی تہوں میں، تو کہیں ریت کے چھلاوں میں دب جاتے ہیں مگر کہانی سینہ بہ سینہ، نسل در نسل، ورق در ورق سفر جاری رکھتی ہے ـ نور دین کی کہانی میں وہ دن بھی زندگانی کا ایسا ہی ورق تھا۔ ریت کے طوفان میں گرد و غبار سے بچنے کی خاطر اس نے اپنے سر کا رومال ناک اور منہ پر لپیٹ لیا تھا جسے وہ گاہے گاہے  سر سے اتارتا اور پھر نتھنوں میں گھستی ریت کے ڈر سے دوبارہ اوڑھ لیتا۔ 

ایسے سینکڑوں ہزاروں اوراق سے تحریر کردہ پتوکی کے نور دین کی زندگی بجائے خود ایک فسانہ تھی۔ اس کی زندگی میں اساطیری کہانیوں اور حکایتوں جیسے  کئی موڑ تو آئے ہی تھے مگر کہانی کے باقی کردار کبھی اس کے پلے نہ پڑ سکے۔ اپنی زندگی کے حساب کتاب کا گوشوارہ دیکھتے  وہ گھٹن اور تنہائی کے عالم میں اپنی یادوں کی کتاب  سے ورق ورق پلٹتا اور لوگوں کو ٹوٹی پھوٹی باتیں سناتا رہتا۔

مجھے وہ اکثر پتوکی کے قریبی گاؤں میں مغرب کے بعد  کا منظر نامہ سناتا۔ اس کی چھوٹی سی نرسری تھی۔ جہاں  ہوا میں  رچی موتیا چنبیلی کی مہک ، گاؤں کے کمہار اور ان کے مشاق ہاتھوں میں گندھی مٹی،  لیور کے ساتھ پاؤں سے گھمانے  والے چاک پر خوب صورت گملوں میں ڈھلتی جاتی۔ ایک دن کسی پودے کی آرائش کرتے ہوئے کانٹا بہت زور سے اس کے ہتھیلی میں چبھا تھا اس کا نشان آج تک موجود ہے۔ کئی بار وہ اس نشان کو دیکھ کر مسکراتا ہے گویا کانٹوں سے شناسائی رہی ہو ۔

   گاؤں کی نیم پختہ مسجد میں عشاء کی نماز کے بعد گھر لوٹتا تو بیوی باوچی خانہ میں لکڑی کی چوکی پر چولہے کے قریب بیٹھی اس کی منتظر ہوتی ۔

پھر اس کی یادوں کے مناظر بدلتے۔ بیٹے جوان ہوئے الگ سے کمانے لگے تو  گھر میں  تنگی کے بعد قدرے خوش حالی جھانکنے لگی۔ سچا عاشق رسول صل اللہ علیہ وسلم تھا۔ مدینے کی گلیوں میں گھومنے کی تمنا اور کعبہ کے  دیدار کا اشتیاق عمر بھر کی حسرت تھی۔ کمیٹیاں ڈال کر پیسے جمع کیے  اور کچھ الگ سے پس انداز کی گئئ رقم سے  اپنی بیوی  اور بیٹے کے ہمراہ عمرے کے لیے ارض مقدس پہنچ گیا۔

یہیں سے اس کی زندگی میں اساطیری کہانیوں  جیسا انقلاب رونما ہوا۔

عمرہ کی ادائیگی کے بعد وہ اپنی بیوی  اوربیٹے کے ہمراہ بلد کے بازار میں واقع اپنے کسی عزیز کی دکان پر اسے ملنے اور کچھ خریداری کرنے آیا۔  بازار میں شدید گرمی اور گھٹن کا احساس ہونے پر وہ ایک شاپنگ سنٹر میں موجود حمام میں غسل کی نیت سے گیا اور  اپنے کپڑے اتار کے دروازے کے اوپر ہی لٹکا  دیے۔  ابھی جسم بھی گیلا نہ ہوا تھا کہ کسی نے  حمام کے باہر سے اس کے کپڑے اتارے اور چلتا بنا۔ وہ  آوازیں دیتا رہ گیا۔  اسی قمیض کی جیب میں  رقم کے علاوہ پاسپورٹ شناختی کارڈ اور ہوائی ٹکٹ بھی موجود تھا۔

اس چور کا پتا چلنا تھا نہ چلا۔ واپسی میں فقط ایک دن تھا بڑی دوڑ دھوپ کے بعد بھی کچھ سجھائی نہ دیا تو جاننے والے لوگوں نے مشورہ دیا کہ اپنی فیملی کو بھیج دے اور بعد میں کسی طرح سفارت خانے سے آؤٹ پاس لے کر  وطن واپس چلا جائے۔

 جدہ قونصلیٹ سے عارضی پاسپورٹ کے حصول کے لیے اسے اپنی پاکستانی شناخت ثابت کرنا تھی۔ پیچھے وطن میں موجود بیٹے کو تاکید کی کہ وطن جاتے ہی شناختی دستاویزات اور فارم ب وغیرہ کی نقول  ڈاک سے  جدہ بھجوا دے۔

تب ڈاک بھی قدرے تاخیر سے پہنچا کرتی تھی۔ عارضی پاسپورٹ کے انتظار میں اس نے فارغ بیٹھنے کی بجائے اپنے واقف کار کی دکان پر چھوٹا موٹا کام کرنے کو ترجیح دی تاکہ اپنے میزبان پر بوجھ نہ بنے۔ کوئی دو مہینے بعد اس نے ملنے والی اجرت ہنڈی سے پاکستان روانہ کردی تاکہ اس رقم سے اسکا بیٹا کاغذات مکمل کروا کر اسے بھیج دے۔

شاید یہی اس کی زندگی کی فاش  غلطی تھی۔  شناختی دستاویزات  پاکستان سے بھیجی گئیں  نہ ہی جدہ پہنچیں۔ مگر ہر ماہ پس انداز کی ہوئی رقم ہنڈی سے   بروقت وطن پہنچتی رہی۔ پھر بیوی اور اولاد  نے بھی اس کی طرف سے کان ڈھانپ لیے الٹا اسے کہتے کہ اچھا روزگار لگا ہوا ہے یہاں آ کر کیا کرنا ہے؟ پاکستان میں کیا رکھا ہے سوائے مسائل کے؟ 

دو سال بعد بڑی بیٹی بیوہ ہو کر مائیکے کی دہلیز پر آن بیٹھی اور نور دین کی ذمہ داریوں میں نیا اضافہ ہو گیا۔ ہر مہینے بیوہ بیٹی کی کفالت کے لیے اسے الگ سے پیسے بھیجنا پڑتے۔ بڑھاپے میں اعضاء جواب دینے لگے، وزن اٹھانا اور مزدوری کرنا دوبھر ہوا تو مانگنا شروع کر دیا۔ دو عشرے بیت گئے وطن سے شناختی دستاویزات آنا تھیں نہ آئیں۔

 کچھ عرصے سے وہ  کسی نہ کسی مسجد کے باہر بیٹھا رہتا تھا۔  بڑھاپا بجائے خود ایک بیماری ہے اوپر سے اپنوں کی خود غرضی اور بے اعتنائی نے اس کی صحت اتنی گرا دی  کہ چند دنوں کا مہمان لگنے لگا۔

قریب رہنے والے واقف کاروں نے کئی بار اسے وطن بھجوانے کی کوشش کی۔ دے دلا کر ترحیل بھی بھیجا مگر قونصلیٹ سے آؤٹ پاس نہ مل سکا – کہا جاتا تھا  اس کا پاکستان میں کوئی شناختی ریکارڈ موجود نہیں اس لیے مشکوک شہریت کی بنا پر اسے آؤٹ پاس نہیں مل سکتا ۔ ایک بار ترحیل  گیا مگر وہاں کے جوازات کے محکمہ والوں نے قید رکھنے کی بجائے اس پر ترس کھا کر پھر چھوڑ دیا کہ کسی بھی طرح اپنے وطن سے کاغذات منگوا لو تاکہ تمہارا سفارہ تمہیں آؤٹ پاس بنا دے۔ 

ریت کے غبار میں اس دن نور دین کو یوں بے یار و مددگار پڑا دیکھ کر میرا دل بہت دکھا۔

مجھے یاد آیا جب میرا بابا فوت ہوا میں دبئی میں نوکری کرتا تھا اور بڑا بھائی انگلینڈ جا بسا تھا۔ محلے والوں نے دروازہ توڑ کر میت باہر نکالی تھی۔ نور دین کو دیکھ کر مجھے اپنا باپ بہت یاد آتا ہے۔  اسے یوں پردیس میں اکیلے نہیں مرنا چاہیے۔

نور دین نے مجھے دیکھ کر کھانسی بمشکل روکتے ہوئے کہا!

 پتر پاکستان کا فون نمبر تجھے دیا تھا  بتا کیا کہتے ہیں میرے گھر والے! کاغذ کب بھیجیں گے؟  اب اخیر ویلا آ گیا ہے بڑی خواہش ہے اپنے گاؤں  میں جا کر دم دوں۔ یہاں مر کھپ گیا تو  رب جانے کوئی میرا جنازہ بھی کرے گا یا نہیں؟

 میں نے  اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا

بابا تم فکر نہ کرو ہم کسی طرح تمہارا  پاسپورٹ بنوا دیں گے۔  اب تو سارا کچھ کمپیوٹر پر آ گیا ہوا ہے کہیں نہ کہیں تیرا نام بھی نادرا والوں کو مل جائے گا۔

اچھا رب سوہنا بھلا کرے تیرا پتر ۔ اپنی اولاد کو تو پرواہ نہیں جیوں یا مروں ان کی بلا اسے انہیں تو بس پیسے چاہیں خواہ سارا مہینہ بھیک مانگ کے جمع کروں۔ پر اب نہیں بھیجوں گا۔

یہ دیکھ دو ہزار ریال جمع ہے….. کیا اتنے میں جہاز کا ٹکٹ آ جائے گا؟

بابا تم پیسوں کی فکر نہ کرو ٹکٹ بھی آ جائے گا بس حوصلہ نہ ہارو تمہیں ضرور واپس بھیجیں گے۔

میں ذرا تمہارے ڈیرے والوں کو فون کروں۔ انہوں نے تمہیں اکیلے باہر کیوں نکلنے دیا؟   یہ کیا مسجد کے باہر پڑے ہوئے ہو۔ پھر دمے کا دورہ پڑ گیا تو پریشانی ہوگی ۔ نور دین سنی ان سنی کرتے ہوئے کہنے لگا!

پتر کیا پاکستان فون کیا؟  تجھے نمبر دیا تھا تو نے وعدہ کیا تھا تو فون کرے گا…. میرے کاغذ منگوائے گا۔۔۔

 نور دین کو سہارا دے کر  اٹھاتے ہوئے میں نے اسے اپنی گاڑی میں بیٹھے کا کہا تاکہ اسے اسکے سابقہ ڈیرے پر چھوڑ آؤں۔ مگر وہ بضد تھا ڈیرے پر نہیں  بلکہ اس کے سامنے پاکستان اس کے گھر فون کروں۔

کھانس کھانس کر اس کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں اور پسلیاں دھونکنی کی مانند چل رہی تھیں۔

میں نے کہا بابا تم یہاں سے چلو اللہ واپسی کی کوئی سبیل نکال دے گا۔ جو نمبر تو نے دیا تھا وہاں کئی بار فون کیا مگر ….

مگر کیا پتر ….. بتا نا ابھی  دو چار مہینے پہلے ہی پیسے  بھیجے تھے گھر بات کی تھی۔

بابا وہاں سے کوئی جواب نہیں ملتا شاید نمبر بدل گیا ہے۔  کہتے ہیں  کسی نور دین کو نہیں جانتے  پر تو فکر نہ کر تیرا آؤٹ پاس ہم بنوا دیں گے ….. نور دین کی گردن ڈھلکنے لگی ….  بائیس سال سےکاغذات کا منتظر نور دین آؤٹ پاس  لیے بغیر ہی اگلے سفر پر روانہ ہو گیا تھا۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

October 2024
M T W T F S S
 123456
78910111213
14151617181920
21222324252627
28293031